(پاکستان ایک نظر میں) - وسط مدتی انتخابات جلد یا بدیر؟

ملیحہ خادم  منگل 21 اکتوبر 2014
ملک میں جاری سیاسی گہما گہمی وسط مدتی انتخابات کی جانب کچھ کچھ اشارہ تو کررہے ہیں۔ مگریہ جلد ہونگے یا بدیر اِس کا فیصلہ آنے والے چند ہفتوں میں ہوجائیگا۔ فوٹو: فائل

ملک میں جاری سیاسی گہما گہمی وسط مدتی انتخابات کی جانب کچھ کچھ اشارہ تو کررہے ہیں۔ مگریہ جلد ہونگے یا بدیر اِس کا فیصلہ آنے والے چند ہفتوں میں ہوجائیگا۔ فوٹو: فائل

وسط مدتی انتخابات نہ ہوتے دکھائی دے رہے ہیں اور نہ ہی تمام سیاسی جماعتیں اسکے حق میں ہیں لیکن  پھر بھی کچھ تو ہے جسنے پیپلز پارٹی کو بھی خواب غفلت سے بیدار کردیا ہے اور جماعت اسلامی کو بھی نواز حکومت کی ناکامی کا اعلان اور ملک گیر تحریک شروع کرنے پر مجبور کردیا ہے ۔ دھرنوں کی کامیابی یا ناکامی سے قطع نظر یہ تو ماننا پڑیگا کہ تحریک انصاف اورعوامی تحریک نے سیاسی مسابقت کی ایسی فضا پیدا کردی ہے جس سے لاتعلقی دیگر جماعتوں کیلئے مشکل ہے ۔ فرق صرف یہ ہے کہ کچھ جماعتوں کی ضرورت حکومت کا فوری گرنا اور کچھ کی عوام  میں گھلنا ملنا ۔

تحریک انصاف اب دھرنے کیساتھ ساتھ شہر شہر جلسے منعقد کرکے عوام میں اپنی جڑیں مضبوط کرکے اس چارج  شیٹ  کو جو روزانہ اسٹیٹس کو اور حکومت کیخلاف کنٹینر سے جاری کی جاتی ہے ، ملک کے طول و عرض میں پھیلانا چاہتی ہے۔ اسی لئے پنجاب کے بعد سندھ میں فعالیت کی تیاری پکڑ رہی ہے  ۔ ملتان کے ضمنی الیکشن کے بعد اس جماعت کے اعتماد میں اضافہ بھی ہوا ہے ۔ اگر مڈ ٹرم الیکشن  نہیں ہوتے تو پی ٹی آئی اگلے تین سال تک اپنی تحریک کو اسی رفتار سے جاری نہیں رکھ سکتی لہذٰا حکومت گرنا اور نئے الیکشن اسکی ضرورت ہیں  ۔ ہر شہر میں بڑی تعداد میں لوگوں کو جمع کر کے یہی تاثر دیا جارہا ہے کہ  لوگ  ٌنئے پاکستان کیلئے بیتاب ہیں ٌ یوں ن لیگ پر دباؤ بڑھانے کی حکمت عملی زور و شور سے جاری ہے ۔
علامہ طاہر القادری نے عوامی تحریک کو اب انتخابی جماعت میں ڈھال دیا ہے اور نہایت مستعدی سے تحریک انصاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دھرنے اور جلسے بیک وقت شروع کررکھے ہیں جس میں ق لیگ اور دیگر اتحادی  انکی معاونت کررہے ہیں ۔ جن اصلاحات کو انقلاب کا نام دیا گیا ہے وہ الیکشن سے ہی ممکن ہے ، اس سوچ  نے علامہ صاحب  کو  لوگوں سے ووٹ ، نوٹ ، سپورٹ کی اپیل کرنے پر اکسایا ہے ۔ چوہدری برادران اپنے سیاسی احیاء کو اسی تحریک میں مضمر پاتے ہیں اسلئے یہ گٹھ جوڑ بھی وسط مدتی انتخابات کو اپنی راہ نجات گردانتا ہے
پاکستان پیپلز پارٹی اہم ترین موڑ پر پہنچ چکی ہے جہاں اب بلاول نے پارٹی کمان سنبھال لی ہے۔ پنجاب میں پی پی پی کا ووٹ بینک ہوا میں تحلیل ہو چکا ہے  ساتھ ہی روایتی جیالا نواز حکومت سے زرداری کی غیر مشروط اور حد  سے زیادہ مفاہمت سے نالاں ہے ۔ بلاول ان مسائل پر کسطرح قابو پائیں گے جبکہ انکے کندھوں پر پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومت کی کرپشن اور ناقص کارکردگی کا بوجھ بھی ہے ۔ شاید اسی لئے بلاول  نے سیاست میں آتے ہی تمام حریفوں اور حلیفوں کو بلا تفریق للکارنا شروع کردیا ہے تاکہ جیالوں کے ذہن میں پارٹی کا وہی جارحانہ تصور زندہ رہے جو اس جماعت  کی اساس ہے  ۔ یہ بھی سچ ہے کہ مڈ ٹرم الیکشن پی پی پی کے حق میں نہیں ہے کیونکہ عوام کے سامنے پیش کرنے کیلئے  فی الحال اسکا دامن خالی ہے ۔ اسی لئے بلاول لانچ کا یہ وقت ملک میں جاری سیاسی لہر سے جیالوں کو محفوظ  رکھنے اور عوامی رجوع کیلئے موزوں سمجھا گیا ۔ متحدہ اور پیپلز پارٹی لفظی  جنگ پہلے ہی کراچی کو گرمائے ہوئے ہے
اس سب کے بیچ کھڑی ہے حکومت جو   اندرونی دباؤ کی ساتھ ساتھ بھارتی سرحدی دہشت گردی اور ایران کے ساتھ سرحدی کشیدگی کے باعث سفارتی مشکلات کا شکار بھی ہورہی ہے ، اندرونی طور پر خراب پرفارمنس  اور پر تعیش بیرونی دورے مخالفین کو تنقید کا  ہر جواز مہیا کررہی ہے ۔ ن لیگ  نے ملتان میں ہاشمی کی حمایت کرکے غلطی کی کیونکہ نتائج نے پارٹی  کو دھچکا پہنچایا ، مسترد شدہ باغی کا حوالہ آئندہ بھی پارٹی کیلئے پریشان کن رہیگا  ۔ حکومت کے پاس واحد ذریعہ گڈ گورننس اورماضی سے سبق سیکھنا ہے تاکہ بدلتی سیاسی فضا اور جلسوں کے اژدھام میں عوام شیر کی دھاڑ بھی سن سکیں ۔
عوامی طاقت کے یہ مظاہرے وسط مدتی انتخابات کا اشارہ ہیں یا وقتی ابال … آنے والے چند ہفتوں میں واضح ہوجائیگا ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔