بدلتے موسم کے ساتھ دھرنے سرد مگر سیاسی درجہ حرارت بڑھنے لگا

ارشاد انصاری  بدھ 22 اکتوبر 2014
جلسے جہاں جمہوری حسن کو دوام بخشتے ہیں، وہیں اہل دانش اور سیاسی پنڈتوں کے ذہنوں میں تجزیوں کے بہت سے دریچے بھی کھول رہے ہیں۔  فوٹو: فائل

جلسے جہاں جمہوری حسن کو دوام بخشتے ہیں، وہیں اہل دانش اور سیاسی پنڈتوں کے ذہنوں میں تجزیوں کے بہت سے دریچے بھی کھول رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

اسلام آباد: وفاقی دارالحکومت میں بدلتے موسم کا اثر لیتے ہوئے دھرنے بھی سرد پڑتے جا رہے ہیں اور اب مقتدر حلقوں میں یہ بات گردش کر رہی ہے کہ جلد دھرنوں کے بارے میں اہم اعلان متوقع ہیں اور شاید ان اعلانات کو اسلام آباد میں جاری دھرنوں کے خاتمے سے منسلک کیا جا رہا ہے، لیکن موسم کی طرح سرد پڑتے دھرنوں نے ملک کے سیاسی موسم کادرجہ حرارت بڑھا دیا ہے۔

پاکستان عوامی تحریک اور تحریک انصاف کی دھرنا سیاست نے جلسوں کا رُخ اختیار کیا کہ ملک کی دوسری جماعتیں بھی تقلید کرنے پر مجبور ہو گئیں اور اس وقت تین اہم جماعتیں سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے میں مصروف عمل ہیں اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ دھرنا سیاست کرنے والی جماعتوں کو جلسوں میں بے پناہ عوامی پذیرائی ملی ہے۔ تحریک انصاف ہو یا عوامی تحریک دونوں جماعتوں کے جلسوں میں بے پناہ لوگ دکھائی دیتے ہیں اور پھر پیپلز پارٹی کے جلسے نے تو ماضی کے تمام ریکارڈ ہی توڑ کر رکھ دیے ہیں لیکن یہ جلسے جہاں جمہوری حسن کو دوام بخشتے ہیں، وہیں اہل دانش اور سیاسی پنڈتوں کے ذہنوں میں تجزیوں کے بہت سے دریچے بھی کھول رہے ہیں۔

سیاسی جماعتوں کے جلسوں کو دیکھ کر مردم شماری کی اہمیت اور ضرورت مزید بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان جلسوں میں شرکت کرنے والی مخلوق خدا کو دیکھ کر لگتا ہے کہ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ سے تجاوز کر چکی ہے یا پھر جلسوں کے لیے کرسیاں، شامیانے، ساؤنڈ سسٹم کی طرح شاید شرکاء بھی کرائے پردستیاب ہونا شروع ہو گئے ہیں اور کاروباری آئیڈیاز کی ذہانت کے جوہر دکھانے والے جوہری اب اس بزنس میں خوب رنگ جمانا شروع ہو گئے ہیں کیونکہ لاہور مینار پاکستان پر پاکستان تحریک انصاف کے جلسے نے ریکارڈ قائم کیا اور جب عوامی تحریک نے جلسہ کیا تو وہ بھی تاریخ ساز بن گیا۔ یہ مخلوق کون ہے؟ جو تحریک انصاف، عوامی تحریک یا کسی دوسری جماعت کوجو مینار پاکستان پر جلسے کا اعلان کرتی ہے تو اسے مایوس نہیں ہونے دیتی، رہی بات پاکستان مسلم لیگ ن کی تو لاہور ان کا تو گڑھ ہے اور ن لیگ کے جلسے میں تو مخلوق کی شرکت دیدنی ہوتی ہے۔

بہرحال تحریک انصاف کے جلسوں نے جہاں جماعت کی قیادت کو نئی سیاسی زندگی دی ہے وہیں ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعتیں ہونے کی دعویدار جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو بھی جھنجھوڑا ہے اور پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی روتے ہوئے لوگ یاد کروا دیتے ہیں، بھٹو کے نام کی مالا جپنے والی جماعت کو آخرکار روٹھے ہوؤں کو منانے اور ناراض لوگوں سے معافی مانگنا پڑی، رہی بات پاکستان مسلم لیگ (ن) کی تو اسے بھی اب عوام کی طرف رجوع کرنا پڑے گا اور لگ رہا ہے کہ شاید مسلم لیگ (ن) روایتی سیاست کو چھوڑ کر اقتدار سے پہلے عوام کی بڑھائی جانے والی توقعات کو پورا کرنے کے لیے کچھ نہ کچھ کرنے کی کوشش ضرور کرے گی، وفاقی کابینہ میں ردو بدل کے ساتھ ساتھ پالیسیوں میں بھی شاید تبدیلی آئے گی اور عوام سے منسلک سروسز کی ڈلیوری کو بہتر بنانے کی کوشش کی جائے گی۔

دوسری جانب پاکستان پیپلز پارٹی بھی شاید عوام میں اپنی کھوئی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کی کوشش کرے گی اور ملک بھر میں الیکشن سے قبل نظر آنے والی سیاسی سرگرمیاں اب عام حالات میں بھی عوام کو دیکھنے کو ملیں گی اور الیکشن کے نام پر عوامی اور میڈیا کے ذریعے گہما گہمی لگی رہے گی کیونکہ دھرنا سیاست کے ذریعے منتخب جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹنے میں ناکامی کے بعد دونوں جماعتوں نے عوام کا رخ کیا۔ اگرچہ اس سے تحریک انصاف کو بھرپور فائدہ ہوا ہے اور آج خیبر پختونخوا میں حکومت کی خامیوں پر تنقید کرنے والا کوئی دور دور تک دکھائی نہیں دیتا ہے جبکہ خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کی طرف سے عوامی توقعات کے مطابق ڈلیور نہ کرنا ہی دھرنا سیاست کے لیے وجہ بنا تھا کیونکہ کچھ قوتوں نے تحریک انصاف کو یہ باور کروایا تھا کہ کے پی کے میں عوامی توقعات کے مطابق ڈلیوری نہ کرنے کی صورت میں آئندہ وفاق تو دور کی بات ہے صوبے سے بھی پی ٹی آئی کا صفایا ہو جائے گا اس لیے آئندہ انتخابات کا انتظار کیے بغیر قبل از وقت حکومت کو ختم کرکے مڈٹرم الیکشن کا ماحول بنایا جائے۔

عمران خان کے قریبی حلقوں کا تو یہ بھی کہنا ہے کہ عمران خان کا وزیراعظم کے استعفیٰ پر ڈٹے رہنا، دراصل لندن میں ان کی اپنے بچوں کے ساتھ وہ ملاقات ہے جس میں تحریک انصاف کے چیئرمین نے اپنے بچوں کوکہا تھا کہ آئندہ وہ لندن بحیثیت وزیراعظم اپنے بچوں سے ملنے آئیں گے اور ان کے بچے بھی بنی گالہ آنے کی بجائے ملاقات کے لیے وزیراعظم ہاؤس آئیں گے، عمران خان کے قریبی حلقوں کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اس حد تک یقین تھا کہ وہ جلد وزیراعظم بننے والے ہیں اور اس یقین کے تحت انہوں نے اپنے بچوں سے باتیں کیں، ان حلقوں کا کہنا ہے کہ شاید ایمپائر کی انگلی نہ کھڑی ہونے کی وجہ سے یہ سب نہ ہو سکا مگر یہ سب پارلیمنٹ کی قوت سے ممکن ہو سکاہے اور ملکی تاریخ میں یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں متحد رہی ہیں اور ابھی تک ان میں کوئی رخنہ نہیںڈالا جا سکا ہے ۔

دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف کے قائد عمران خان ہیں کہ جو شاید بہت جلدی میں ہیں مگر ان کی یہ جلدی جہاں ان کے اپنے سیاسی کیرئیر کو داغ دار کر رہی ہے کیونکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ عمران خان خیبر پختونخوا میں مثالی حکومت کی داغ بیل ڈالتے اور عوام کو وہ کچھ ڈلیور کرتے جس کی وہ توقع کر رہے تھے اور وفاق پر کڑی نظر رکھتے اور ان کی خامیوں کو عوام کے سامنے لا کر حقیقی اپوزیشن کا کردار ادا کرتے تاکہ آنے والے انتخابات میں وہ مسند اقتدار پر بیٹھ سکتے مگر نہ جانے وہ کیوں اتنی جلدی میں تھے۔ اب اگر وہ ناکام ہو جاتے ہیں تو اگلے بیس تیس سال کوئی ایسا رہنما نظر نہیں آتا جو عوام کی آنکھ کا تارا بن سکے اور عوام کے مقدر میں شاید پرانا پاکستان اور پرانے سیاستدان ہی رہیں گے۔

اگر ان پرانے سیاستدانوں نے بھی خواص کی بجائے عوام کا خیال نہ رکھا تو انہیں نوشتہ دیوار پڑھ لینا چاہیے کیونکہ ریاست کا کام ہی یہی ہے کہ وہ عوام کے دکھوں کا مداوا کرکے اور ان کے زخموں پرمرہم رکھ کر انہیں وحشی ہونے سے روکے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو پھر دمادم مست قلندر کا وہ کام جو طاہرالقادری، عمران خان یا ان جیسے دوسرے بہت سے نہ کر سکے وہ ادھورا رہ جانے والا کام عوام اپنے ہاتھوں میں لے لیں گے کیونکہ عوام کی توقعات کے مطابق فیصلے کرنے کی بجائے آئی ایم ایف اور عالمی بنک کے کہنے پر اگر پالیسیاں بنیں گی اور عوام پر بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کے بم برسائے جائیں گے، گیس کی قیمتوں میں اضافہ کی تلوار لوگوں کے سروں پر لٹکتی رہے گی تو پھر یہ عوامی لاوا کبھی نہ کبھی تو پھٹے گا اور سیلاب کی شکل اختیار کرے گے، ایسے میں بپھری ہوئی موجوں کا حامل عوامی سمندر خس وخاشاک کو اپنے ساتھ بہا لے جائے گا اور بہتا ہوا پانی اپنا راستہ خود بنائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔