بلدیاتی انتخابات کے انعقاد میں درپیش مشکلات

شاہد حمید  بدھ 22 اکتوبر 2014
خیبر پختونخوا حکومت کی صورت حال یہ ہے کہ وہ مارچ، اپریل میں بھی نصف صوبہ میں انتخابات کے لیے تیار نہیں ہے۔   فوٹو : فائل

خیبر پختونخوا حکومت کی صورت حال یہ ہے کہ وہ مارچ، اپریل میں بھی نصف صوبہ میں انتخابات کے لیے تیار نہیں ہے۔ فوٹو : فائل

پشاور:  تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے خیبرپختونخوا میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کے لیے اپنی جانب سے 15 نومبر کی تاریخ کا اعلان بھی کردیا لیکن معاملہ یہ ہے کہ ابھی چند روز قبل ہی خیبرپختونخوا کی حکومت نے الیکشن کمیشن کو حلقہ بندیاں کرنے کا اختیار تفویض کیا ہے جس کے بعد اگر الیکشن کمیشن خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے کی جانے والی نیبر ہڈ اور ویلج کونسلوں سے متعلق حلقہ بندیوں کو برقراررکھتا بھی ہے تو اسے دیگر انتظامات اور خصوصاً بائیومیٹرک سسٹم کے استعمال کے حوالے سے تیاریوں کے لیے دو ماہ کا عرصہ درکار ہوگا جس کا بڑا واضح مطلب ہوگا کہ بلدیاتی انتخابات کا انعقاد دسمبر یا جنوری سے قبل ممکن نہیں اور اگر الیکشن کمیشن حلقہ بندیاں بھی کرتا ہے تو اس صورت میں اسے مزید دو سے تین ماہ چاہئیں جس کے تحت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد آئندہ سال مارچ سے قبل ممکن نہیں.

چونکہ پنجاب اور سندھ میں بھی سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کیا جانا ہے اس لیے الیکشن کمیشن خیبرپختونخوا ،پنجاب اور سندھ میں الگ سے بلدیاتی انتخابات کرانے کی بجائے تینوں صوبوں میں اکھٹے ہی بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرے گا۔ خیبر پختونخوا حکومت کی صورت حال یہ ہے کہ وہ مارچ، اپریل میں بھی نصف صوبہ میں انتخابات کے لیے تیار نہیں ہے کیونکہ صوبائی حکومت کا موقف ہے کہ ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن میں برفباری اور شدید سردی کے باعث مارچ میں انتخابات نہیں ہوسکتے اس لیے خیبرپختونخوا میں مرحلہ وار انتخابات کا انعقاد کیا جائے۔

صوبائی حکومت کا یہ موقف پہلی مرتبہ سامنے نہیں آیا بلکہ اس وقت بھی یہی موقف دیا گیا تھا جب صوبائی حکومت کی جانب سے فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرانے کی باتیں زوروں پر تھیں اور اب جبکہ کفر ٹوٹا خدا خدا کرکے ،کے مصداق سپریم کورٹ کے احکامات کے تحت آئندہ سال مارچ میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کی صورت نظر آئی ہے تو اب بھی صوبائی حکومت یہی پرانا موقف اپنائے ہوئے ہے۔

اگر صوبائی حکومت سمجھتی ہے کہ ملاکنڈ اور ہزارہ ڈویژن کے 13 اضلاع یعنی نصف سے زائد صوبہ میں مارچ کے مہینہ میں موسم کی شدت کی وجہ سے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد نہیں ہوسکتا تو یہی انتخابات اپریل یا مئی میں کرا لیے جائیں تاہم یہ موقف لینا کہ پشاو ر،مردان ،کوہاٹ ،بنوں اور ڈی آئی خان ڈویژنز کے 12 اضلاع میں تو مارچ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرا لیا جائے اور باقی تیرہ اضلاع میں اپریل یا مئی میں انتخابات منعقد ہوں کسی بھی طور درست نہیں ہے کیونکہ اس صورت میں پہلے مرحلہ کے نتائج دوسرے مرحلہ پر اثر انداز بھی ہوں گے اور دو مراحل میں انتخابات کے انعقاد سے اس کی شفافیت بھی متاثر ہو گی کیونکہ دوسرے مرحلہ کے نتائج کو ٹیمپر کیے جانے کا امکان ہوگا اس لیے انتخابات کی شفافیت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ پورے صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کا انعقاد ایک ہی روز کیا جائے۔

چار ماہ کے طویل انتظار کے بعد بالآخر صوبائی حکومت نے اسمبلی کا اجلاس بلا ہی لیا ہے اور وہ بھی اس صورت میں کہ بس صرف اگر ایک دن کی مزید تاخیر ہوجاتی تو صوبائی حکومت آئین شکنی کی مرتکب ہوجاتی۔ پارلیمانی امور سے بے خبر بعض حلقوں کی جانب سے تجویز کیاجا رہاتھا کہ صوبائی اسمبلی کا اجلاس 24 اکتوبر سے بلایا جائے، اگر اس تجویز کو مان لیا جاتا تو یہ داغ صوبائی حکومت کے دامن پر لگ جانا تھا کہ وہ چار ماہ کے دوران اسمبلی کا ایک اجلاس تک نہیں بلاسکی لیکن صوبائی حکومت کی قانونی ٹیم نے اسے آئینی خلاف ورزی کا مرتکب ہونے سے بال،بال بچاتے ہوئے صوبائی اسمبلی کا اجلاس 23 اکتوبر کو بلانے کے حوالے سے حکومت کو اپنے دلائل سے قائل کرلیا۔ اب اسمبلی کا اجلاس شروع ہونے جا رہا ہے جس میں سب سے اہم نقطہ یہی ہے کہ اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے وزیراعلیٰ کے خلاف جمع کردہ تحریک عدم اعتماد کا کیا بنے گا؟

مذکورہ تحریک عدم اعتماد کو اسمبلی سیکرٹریٹ کی فائلوں کا حصہ بنے دو ماہ سے زائد گزر چکے ہیں اور یہ بات ایک سے زائد مرتبہ بڑے واضح انداز میں کی جا چکی ہے کہ یہ تحریک عدم اعتماد صرف اسمبلی بچانے کے لیے تھی اس لیے اس پر کسی قسم کی کوئی کاروائی نہیں کی جائے گی اس لیے اب بھی صورت حال ویسی ہی ہے اور کل جب اسمبلی اجلاس شروع ہوگا تو اپوزیشن قائدین ،صوبائی حکومت کی جانب سے چار ماہ تک اسمبلی اجلاس نہ بلانے، دھرنوں، جمہوریت کو لاحق خطرات او ر صوبہ میں اغواء برائے تاوان کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سمیت دیگر امور پر تنقید اور گرما گرم تقاریر کرنے کے بعد تحریک عدم اعتماد کو واپس لے لیں گے کیونکہ اس تحریک کو کامیاب کرانے کے لیے اگر کل اپوزیشن کو ایوان میں سادہ اکثریت کی ضرورت تھی تو آج بھی صورت حال ویسی ہی ہے۔

پرویز خٹک حکومت اس حوالے سے یقینی طور پر خوش نصیب ہے کہ ان کی حکومت کی دونوں اتحادی جماعتیں یعنی جماعت اسلامی اور عوامی جمہوری اتحاد ،تحریک انصاف کے ساتھ جم کر کھڑی ہیں جس کی وجہ سے تحریک انصاف کی حکومت کو کوئی خطرہ نہیں لیکن اس کا کریڈٹ بھی یقینی طور پر پرویز خٹک ہی کو جاتا ہے کہ جنہوںنے کچھ اہم وزارتیں حکومت سازی کے وقت اتحادیوں کے حوالے کردی تھیں۔

تحریک انصاف کی اتحادی جماعتوں میں عوامی جمہوری اتحاد کی تو ابھی کونپلیں نکل رہی ہیں اور وہ اپنے پر ضلع صوابی سے باہر پھیلانے کے لیے کوشاں ہے تاکہ وہ اپنی حیثیت صوابی سے ہٹ کر دیگرا ضلاع میں بھی منواسکے لیکن جہاں تک معاملہ جماعت اسلامی کا ہے تو تحریک انصاف جس طریقہ سے اپنا دھرنا جاری رکھے ہوئے ہے اس حوالے سے جماعت اسلامی پر شدید تنقید کی جا رہی ہے اورجماعت اسلامی کا معاملہ اس وقت ایسا ہی ہے کہ جیسے وہ پل صراط پر کھڑی ہو کیونکہ ایک جانب جماعت اسلامی ،تحریک انصاف کا ساتھ نہیں چھوڑنا چاہتی کیونکہ اس صورت میں اسے خزانہ ،بلدیات اور زکوٰۃ جیسی اہم وزارتوں سے ہاتھ دھونا پڑے گا اور دوسری جانب مذہبی جماعتیں ،جماعت اسلامی کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں کہ انہوں نے جو موقف ایم ایم اے کے دور میں حکومت میں ہوتے ہوئے بل بورڈز پر سیاہی پھیر کر اپنایا تھا ان کا وہ موقف آج کیا ہوا؟جس سے جماعت اسلامی یقینی طور پر دباؤ کا شکار ہے۔

تاہم جس طرح جماعت اسلامی نصاب تعلیم کے ایشو پر کھل کر سامنے آئی اور اس نے پی ٹی آئی کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ نصاب میں ترامیم کرتے ہوئے پرانے مضامین کو بحال کرے اسی طرح اگر تحریک انصاف کے دھرنے کی ’’رونقیں‘‘موجودہ طریقہ سے بحال رکھی جاتی ہیں تو اس ایشو پر بھی جماعت اسلامی میدان میں آئے گی کیونکہ جماعت اسلامی کے اندر اس حوالے سے آوازیں اٹھ رہی ہیں جنھیں وقتی طور پر تو دبایاجا رہا ہے لیکن یہ آوازیں مستقل طور پر نہ تو دبائی جاسکتی ہیں اور نہ ہی جماعت اسلامی کی قیادت ان آوازوں پر کان بند کر سکتی ہے اس لیے امکان نظر آرہا ہے کہ آنے والے دنوں میں جماعت اسلامی، تحریک انصاف کے ساتھ دو، دو ہاتھ کرے گی لیکن ابھی اس میں تھوڑا وقت لگے گا کیونکہ سب اس بات پر نظریں لگائے ہوئے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ ان کے کچھ کرنے سے پہلے ’’کچھ اور‘‘ ہی ہو جائے جس کے بعد ان کی کسی کوشش کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔