(پاکستان ایک نظرمیں) - قوم کو شہادت کا وقت اورمقام بتادیں!

سہیل اقبال خان  بدھ 22 اکتوبر 2014
قادری صاحب بقول آپکے آٓپ جھوٹ نہیں بولتے تو پھر لوگوں کو اِس بات پر یقین دلادیں کہ اِس ملک میں واقعی انقلاب آگیا ہے، وگرنہ قوم کو شہادت کا دن اور وقت بتادیں تاکہ آپ کی شخصیت پر لوگوں کا بھروسہ بحال رہے۔ فوٹو: فائل

قادری صاحب بقول آپکے آٓپ جھوٹ نہیں بولتے تو پھر لوگوں کو اِس بات پر یقین دلادیں کہ اِس ملک میں واقعی انقلاب آگیا ہے، وگرنہ قوم کو شہادت کا دن اور وقت بتادیں تاکہ آپ کی شخصیت پر لوگوں کا بھروسہ بحال رہے۔ فوٹو: فائل

دو ماہ سے ملک میں سیاسی میدان خوب گرم  تھا بلکہ شاید اب بھی ہے۔کہیں دھرنے  اور جلسے ہو رہے ہیں تو کہیں ایک دوسرے کا سہارا لے کر اقتدار کو بچایا جا رہا تھا۔دھرنوں والوں نے اپنی طاقت سے حکومت پر خوب دباو ڈالاجس میں وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ بھی شامل تھا۔لیکن دھرنے والوں کی لاکھ کوششوں کے باوجود نہ توحکومت ختم ہوئی اور نہ ہی وزیراعظم نے استعفیٰ دیا لیکن اگر ہوا تو وہ یہ کہ طاہر القادری نے عوامی تحریک کے دھرنے کے ختم ہونے کا اعلان کر دیا اور اُنہوں نے اب دھرنے کے شرکاء کو گھروں کو واپس جانے کی اجازت بھی دے دی۔

اگرچہ یہ قادری صاحب کا بنیادی حق بھی ہے اور میرے ذاتی خیال میں یہ ایک احسان قدم بھی ہے۔ لیکن اس دھرنے کے ختم ہونے پر ایک سوال ضرور اُٹھتا ہے اور اُٹھنا بھی چاہیے  اور وہ یہ کہ اس دھرنے سے ملک کو کیا ملا؟۔کیا وہ سب مل گیا جس کا وعدہ و اعلان دھرنے کے شروع ہونے پر کیا گیا تھا یا اُس میں سے کچھ بھی؟ میرے ذاتی خیال میں تو ایسا ہرگز نہیں ہوا ۔۔۔۔ نہ تو حکومت گئی،نہ ہی سسٹم تبدیل ہوا اور نہ ہی عوامی حکومت قائم ہوئی۔

لیکن کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو لیکن ایک بات  واضح ہو گئی کہ اب عوام کو یہ معلوم ہو گیا کہ حکومتیں دھرنوں سے نہیں بلکہ صرف ا ن کے اپنے ووٹ سے ختم اور تبدیل کی جاسکتی ہیں۔نہ تو کوئی مارچ اور نہ ہی دھرنا کسی حکومت کو ختم کر سکتا ہے،او ر نہ ہی کوئی نعرہ بلند کر کے کسی حکومت کو ختم کیا جا سکتا ہے۔
جب جناب طاہر القادری  نے حکومت مخالف دھرنا دینے کا فیصلہ کیا تو بھری محفل میں یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اگر انقلاب کے بغیر کوئی واپس آئے تو اُسے شہید کر دیا جائے۔

۔ طاہر القادری صاحب کہیں آپ اپنا وہ وعہدہ بھول تو نہیں گئے۔کیونکہ آپ اپنی تقریروں میں بہت بار یہ فرما چکے ہیں کہ آپ نہ تو جھوٹ بولتے ہیں،نہ ہی آپ کو کوئی خرید سکتا ہے اور نہ ہی آپ اپنے کئے گئے وعدوں کو بھولتے ہیں،تو پھر ایسی کیا وجہ ہے کہ آپ نے اچانک سے یوں دھرنا ختم کر دیا۔مجھے تو آپ کے دھرنے کے شرکاء دھرنا ختم ہونے پر روتے ہوئے بھی دیکھائی دیئے۔یہ تو وہ خود بہتر جانتے ہوں گئے کہ وہ خوشی کہ آنسو تھے یا کچھ نہ پانے کے آنسو۔لیکن میں ایک بات جانتا ہوں آپ نے جو کچھ کہا وہ کیا نہیں۔

آپ نے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں بھی بڑے بڑے دعوے کئے تھے،اور اس وقت بھی آپ نے ایک جھوٹی خوش خبری سنا کر دھرنا ختم کر دیا تھا۔اور اس بار خوش خبری تو کوئی نہ تھی،بس صرف آپ کا ایک اعلان ہی تھا کہ یہ دھرنے اب پورے ملک میں شروع کروں گا۔اب یہاں ایک سوال اور ہے کہ کیا یہ دھرنے بھی ایسے ہی ہوں گئے جس جذبے سےاسلام آباد دھرنا  شروع ہوا تھا؟۔

بس اِس پوری صورتحال اور آپ کی جانب سے شہادت والے بیان کے بعد میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں اگرچہ میری خواہش تو یہی ہے کہ میں نہ پوچھوں مگر معاملہ ہی ایسا ہے۔ اور معاملہ یہ ہے کہ قادری صاحب ! آپ لوگوں کو اِس بات پر اطمینان دلادیں دیں کہ اِس ملک میں واقعی انقلاب آگیا ہے، یا اپنی بات کی تصیح کرلیں کہ آپ  کی زبان سے بھی کبھی کبھار غلط بیانی ہوسکتی ہے یا پھر قوم کو شہادت کا دن اور وقت بتادیں تاکہ آپ کی شخصیت پر موجود لوگوں کا بھروسہ بحال رہے۔

ایک اور بات کہ قادری صاحب!  آپ نے اب سیاست میں آنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو اب آپ کو جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لینا ہو گا۔ روز روز کے دھرنوں سے سیاست نہیں چمکے گی۔سیاست میں رہنے کے لئے سیاسی طریقہ کار ہی ااپنانا ہوگا۔اب آپ عوام کو اپنی تقریروں میں وہ ہی خواب دیکھائیں جو آپ پورے کر سکتے ہیں۔ اب  اگر آپ مستقبل میں دوبارہ اپنی تقریروں میں یہ کہہ دیں کہ دھرنے سے انقلاب آ گیا تھا،تو یقین کریں کہ آپ کی بات کوئی نہیں مانے گا کیونکہ حقیقت سب کے سامنے ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سہیل اقبال خان

سہیل اقبال خان

بلاگر اردو اور انگریزی میں کالم نگاری کے ساتھ بلاگز بھی لکھتے ہیں۔ سیاسی صورتحال پر خاص نظر ہے۔ بلاگر سے فیس بک آئی ڈی uos.awan اور ای میل ایڈریس [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔