(خیالی پلاؤ) -غزل؛ دُعا سلام

فرخ اظہار  بدھ 22 اکتوبر 2014
جسے تم عزت و رتبے کا نام دیتے ہو۔ نسب کا خوف ہے، یہ احترام تھوڑی ہے۔ فوٹو فائل

جسے تم عزت و رتبے کا نام دیتے ہو۔ نسب کا خوف ہے، یہ احترام تھوڑی ہے۔ فوٹو فائل

دعا سلام کا مطلب کلام تھوڑی ہے
یونہی بس ہاتھ ملایا ہے، کام تھوڑی ہے

تمہارا حکم ہی مانے گا ہم سے کیا مطلب
تمہارا شہر ہمارا غلام تھوڑی ہے

جسے تم عزت و رتبے کا نام دیتے ہو
نسب کا خوف ہے، یہ احترام تھوڑی ہے

غنودگی کو نشے سے نہ کیجئے تعبیر
دوائے درد ہے، ہاتھوں میں جام تھوڑی ہے

سرود و رقص کی محفل میں کیوں لٹائیں بھلا
حلال ہے یہ کمائی، حرام تھوڑی ہے

ابھی سے کیوں بھرے دیتے ہو میرا پیمانہ
کہ صبح وصل ہے، فرقت کی شام تھوڑی ہے

ملیں گے کتنے ہی زخمی، شکستہ و گھائل
کہ شہر دل میں وفا کا نظام تھوڑی ہے

عداوتوں سے بھی ہوگا معاملہ اک دن!
ہماری عمر محبت کے نام تھوڑی ہے

کسی کے دل کا بھی کردیں گے خوں یہ چرب زباں
کہ ان کے منہ میں زباں ہے، لگام تھوڑی ہے

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے غزل لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی  تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔