(پاکستان ایک نظر میں) - ہاں میں سیاست کا ماہر کھلاڑی نہیں

سدرہ ایاز  جمعرات 23 اکتوبر 2014
سیاست بھی ایک کھیل ہے جس میں ہر نئے آنے والے کا مزاق اڑایا جاتا ہے یا مختلف حربوں سے اسے زیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

سیاست بھی ایک کھیل ہے جس میں ہر نئے آنے والے کا مزاق اڑایا جاتا ہے یا مختلف حربوں سے اسے زیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ فوٹو اے ایف پی

او ہو اس کی نزاکت تو دیکھو

مسکرانے کا انداز تو بلکل لڑکیوں جیسا ہے

آنکھیں مٹکانے میں تو اس نے تیسری مخلوق کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے

کتنا بنا سنوار کر رکھتا ہے اپنے آپ کو۔۔۔۔ آخر ہے نہ پوری ’’بلو‘‘

اس طرح کے القابات اور جملے اگر زمانہ قدیم کے لوگ کہتے تو سمجھ بھی آتا کہ چلو تنقید اور نقطہ چینی پرانے لوگوں کی عادت ہوتی ہے، وہ کسی بھی چیز کو فوری طور پر اپنانے یا قبول کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ لیکن حیرت مجھے تب ہوئی جب ہماری نوجوان نسل اور پڑھے لکھے لوگوں کی جانب سے بلاول بھٹو زرداری کے لئے اس طرح کے خیالات کا اظہار کیا گیا۔

اس بات پر تو بحث کرنا ہی بیکار ہے کہ سیاستدانوں کا مزاق نہیں اڑانا چاہئے، لیکن بلاجواز حد سے زیادہ مزاق کسی بھی انسان کے لئے باعث تکلیف ہوسکتا ہے، اور پھر یہاں تو میں بلاول بھٹو کی بات کررہی ہوں۔ مانا کہ وہ ایک ویلایتی لڑکا ہے، اسے ٹھیک سے اردو بولنا بھی نہیں آتی، انداز و اطوار سے نزاکت جھلکتی ہے، آواز میں نسوانیت کا عنصر نمایاں ہے  لیکن یہ سب کوئی عیب نہیں جس کا سرعام مزاق اڑایا جارہا ہے۔ دنیا میں کتنے ہی ایسے لوگ موجود ہیں جو کسی نہ کسی جسمانی کمزوری کا شکار ہیں تو کیا ہمیں ہر اس شخص کو طنز وتیز کا نشانہ بنانا چاہئے؟

ہاں وہ سیاست کا ایک ماہر کھلاڑی نہیں مگر وہ کوشش کررہا ہے بدلنے کی، قوم کا بیٹا بننے کی۔ مستقبل کی پارٹی کی باگ دوڑ انہیں ہی سنبھالنی تھی لیکن یوں اچانک حادثاتی طور پر اپنی ماں محترمہ بینظیر بھٹو شہید کی جگہ لینے اور سنبھلنے کے لئے کچھ وقت کی ضرورت تو ہے ہی نا۔ ہم خود تبدیلی اور انقلاب کے نعرے لگاتے پھرتے ہیں لیکن اگر کوئی آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی کوشش کرے تو چیٹر، کٹھ پتلی، تیسری مخلوق اور نجانے کن کن القابات سے نوازتے ہیں، طنزومزاح کی تصاویر بناتے ہیں، یہاں تک کہ ہمارے ملک کے نامور چینلز بلاول کی تقریروں کی پیروڈی کرتے ہیں۔ چلیں چھوڑیں دوسروں سے کیا شکوہ کرنا۔

مزاق اڑانے کی اس تحریک کو ہوا دینے میں سوشل میڈیا کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ ایک لمحے میں کسی کو آسمان پر اٹھالینا اور دوسرے لمحے زمین پر گرادینے کا شغل سوشل میڈیا پر عام ہے۔ میں نے ہر تصاویر، پوسٹ اور ویڈیوز میں سرعام بلاول کی تضحیک دیکھی، اور جواباَ صرف چند لوگوں نے اپنے کمنٹس سے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے معیوب فعل قرار دیا جبکہ 80 فیصد لوگوں کی طرف سے داد دی گئی۔ آخر ایسا کیوں ہے؟ شاید گذشتہ ادوار میں پیپلز پارٹی کی ناقص کارکردگی اور بلاول میں سیاسی شعور کی کمی کی وجہ سے دن بدن ان کے حامیوں اور جیالوں کی فہرست گھٹتی جارہی ہے، جس کی حالیہ مثال سانحہ کارساز کی یاد میں پیپلز پارٹی کا کراچی میں ہونے والا جلسہ تھا۔ اوہ جلسے سے یاد آیا، بلاول بھٹو کو اسٹیج پر بلانے کے لئے غلطی سے ’’محترمہ بلاول بھٹو زرداری صاحبہ ‘‘ نکل گیا۔ نا پوچھیں جناب خطاب سے پہلے ہی پوری ملک میں ’’بلو آگئی بلو آگئی‘‘، ’’ ہائے بلو رانی‘‘، ’’اب تو مان گئے جیالے بھی بلو ہی کہتے ہیں‘‘ وغیرہ وغیرہ کی آوازیں گونجنے لگیں۔

اب یہ بات کون نہیں جانتا کہ ریس میں نئے آنے والے گھوڑے پر ہر شخص اپنا پیسا لگانے سے ڈرتا ہے کہ کہیں وہ ہار نہ جائے۔ بلکل اسی طرح سیاست بھی ایک کھیل ہے جس میں ہر نئے آنے والے کا مزاق اڑایا جاتا ہے یا مختلف حربوں سے اسے زیر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اور ہوسکتا ہے کہ یہ بلاول کے خلاف کوئی سازش ہو۔

ارے نہیں میں کوئی جیالی نہیں ہوں اور نہ ہی میں پیپلز پارٹی کی حامی ہوں، میں تو صرف ملک و قوم کی بہتری کی بات کررہی ہو۔ بلاول نہ صحیح کوئی اور صحیح جس کے ساتھ مل کر ہم ترقی کی منزلوں کو طے کرسکیں اور کم از کم یوں سرعام اس کی تضحیک نہ کریں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

سدرہ ایاز

سدرہ ایاز

آپ ایکسپریس نیوز میں بطور سب ایڈیٹر کام کررہی ہیں۔ خبروں کے علاوہ موسیقی اور شاعری میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ آپ ان سے @SidraAyaz رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔