نوبل انعام برائے امن 2014

ڈاکٹر محمد طیب خان سنگھانوی  جمعـء 24 اکتوبر 2014
drtayyabsinghanvi100@gmail.com

[email protected]

وہ بظاہر شیشے جیسی نازک اندام لڑکی لیکن درحقیقت آہنی ارادوں اور قومی حوصلوں کی مالک، تبدیلی کا جذبہ اپنے دل میں لیے،کتاب اور علم کی اہمیت کا ادراک رکھتے ہوئے قلم کا راستہ اختیار کیے، پاکستان اور دنیا بھر میں لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کی روشن شاہراہ پر گامزن، انتہا پسندی و شدت پسندی کے خلاف صف آرا۔ یہ ہے فخر پاکستان، وادی سوات کی گل مکئی ملالہ یوسف زئی پاکستان کی ایسی گوہر نایاب و زندہ باد بیٹی جس نے چھوٹی سی عمر میں اپنے قابل قدر کارناموں کی بدولت دنیا کی کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ ہونے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے، خواب سے تعبیر تک کا سفر انتہائی پرخار وادیوں اور بڑے پرخطر راستوں سے ہوکر منزل مقصود تک پہنچتا ہے اور اس طویل فاصلے کو اس دختر پاکستان نے عبورکرکے ناصرف اپنے بلکہ تمام پاکستانیوں کے سپنوں کو سچ کر دکھایا ہے۔

اس نے دنیا بھر میں پاکستان کے مثبت پہلو کو اجاگر کرکے ناصرف وطن عزیز کا نام روشن کیا بلکہ تمام پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند کردیا، ملالہ کی بدولت ہمارا وطن دوسری بار نوبل پرائزکا حق دار ٹھہرا اس سے قبل 1979 میں پاکستانی مایہ ناز ماہر طبیعات پروفیسر ڈاکٹر عبدالسلام کو فزکس میں نوبل انعام سے نوازا گیا تھا۔ ملالہ یوسف زئی کو امن کا نوبل انعام پاکستان لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کی کوششوں کے اعتراف میں دیا گیا اس نوبل انعام میں بھارت کے کیلاش ستیارتھی بھی حقدار ہیں، یہ مشترکہ انعام کیلاش ستیارتھی کو چائلڈ لیبر اور نوجوانوں کے استحصال کے خلاف جدوجہد کے اعتراف کے طور پر دیا گیا ہے۔

60 سالہ کیلاش ستیارتھی 1990 سے چائلڈ لیبر کے لیے کام کر رہے ہیں جب کہ ملالہ نے 3 جنوری 2009 سے گل مکئی کے فرضی نام سے بی بی سی اردو سروس کے لیے باقاعدگی سے ڈائری لکھ کر اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اس طرح ملالہ نے انتہائی قلیل عرصے اور کم عمری میں اتنا بڑا اعزاز حاصل کرنے کا شرف حاصل کرلیا، گزشتہ برس ناروے کی پارلیمان کے حزب اقتدار کے ارکان نے ملالہ یوسف زئی کا نام ’’نوبل امن انعام‘‘ کے لیے نارویجن نوبل امن کمیٹی کو دیا تھا، دسمبر 2012 میں فرانس کی پارلیمان کے ڈیڑھ سو اراکین نے اس یادداشت پر دستخط کیے تھے جس میں ملالہ کو 2013 کے نوبل امن انعام کے لیے نامزد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تھا، پچھلی بار ہماری یہ دختر اس ایوارڈ کے لیے نامزد بھی ہوگئی تھی تاہم ایوارڈ کسی اور کے حصے میں رہا لیکن اس بار اس نوبل امن انعام کی دوڑ میں ریکارڈ تعداد میں 278 امیدوار حصہ لے رہے تھے اور یہ تمام قدآور اور بااثر و شہرت یافتہ شخصیات تھیں اس کے باوجود یہ کٹھن معرکہ ملالہ نے طے کیا اور کامیابی کا سہرا اس کم عمر ترین بچی کے سر بندھا اور اب یہ انعام ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں 10 دسمبر 2014 کو ملالہ کے سپرد کیا جائے گا اور اس پرائز کی رقم جوکہ 12 لاکھ ڈالر ہے۔

ملالہ یوسف زئی اور کیلاش ستیارتھی کے درمیان برابر تقسیم ہوگی، ملالہ اس انعامی رقم کو بھی اپنے عزم کی مزید تکمیل میں خرچ کرنے کی آرزومند ہیں، تعلیم کی اہمیت کا اندازہ آپ ملالہ کی زندگی سے اس طرح بھی لگا سکتے ہیں کہ نوبل انعام ملنے کی خوشخبری ملالہ کو اس کی ٹیچر نے اس وقت دی جب وہ کیمسٹری کی کلاس میں مصروف مطالعہ تھی اس کے باوجود اس نے کلاس نہیں چھوڑی اور تمام کلاسیں لیں گویا کوئی بھی خوشی خواہ وہ کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو ملالہ کو اس کے تعلیم کے حرج پر آمادہ ہرگز نہیں کرسکتی، علم کی اس شمع کو روشن کرنے والی قابل فخر بیٹی پر 9 اکتوبر 2012 میں اس وقت حملہ کیا گیا جب وہ مینگورہ میں اپنے اسکول سے وین میں سوار اپنے گھر جا رہی تھی اس حملے میں ملالہ کی دو ساتھی طالبات شازیہ اور کائنات بھی زخمی ہوگئی تھیں ۔

تاہم جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، شدید زخمی ہوجانے کے باوجود اللہ نے ملالہ کو نئی زندگی عطا فرمائی ابتدائی علاج پاکستان میں ہوا جب کہ مکمل علاج کے لیے انھیں پاکستانی اور برطانوی ڈاکٹروں کے ایک پینل کے مشورے سے بیرون ملک لے جایا گیا اور برمنگھم کے ’’کوئن الزبتھ اسپتال‘‘ میں وہ بفضل تعالیٰ مکمل صحت یاب ہوگئیں۔ صحت یابی کے بعد عزم و حوصلے کی اس عظیم پیکر نے کہا کہ ’’میں خود کو دوبارہ بھی قربان کرنے کے لیے آمادہ اور تیار ہوں، میں چاہتی ہوں کہ ہر ایک بچی اور ہر ایک بچہ تعلیم حاصل کرے اور ہمارے ملک بلکہ پوری دنیا میں امن ہو اور اس امن کے لیے میں دوبارہ بھی خود کو قربان کردوں گی، میں لوگوں کی خدمت کرنا چاہتی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ ہر لڑکی، ہر بچہ تعلیم حاصل کرے اس مقصد کے لیے ہم نے ملالہ فنڈ بنایا ہے۔‘‘ صحت یاب ہونے کے بعد جب وہ دوبارہ اسکول جانا شروع ہوئی تو اس نے اپنے پہلے دن کہا ’’میری زندگی کا سب سے اچھا دن واپس اسکول جانے کا ہے، میرا خواب ہے کہ تمام بچے اسکول جائیں میں اسکول یونیفارم پہن کر فخر محسوس کر رہی ہوں۔‘‘ ملالہ آج بھی انگلینڈ میں زیرتعلیم اور فروغ تعلیم پر ہمہ تن گوش کار بند ہیں۔

ملالہ اب تک درجنوں نیشنل اور انٹرنیشنل اعزازات حاصل کرچکی ہیں جن میں نیشنل یوتھ پیس پرائز 2011، ستارہ شجاعت 2012، مدر ٹیریسا میموریل ایوارڈ2013، روم پرائز فارس پیس2012، سیموں دابوار پرائز2013، ضمیر کی سفیر ایوارڈ، ایمنسٹی انٹرنیشنل 2013، کلنٹن گلوبل سٹیزن ایوارڈ2013، سخاروف پرائز برائے آزادی اظہار 2013، ویمن آف دا ایئر، گلیمر میگزین 2013، اعزازی ڈاکٹر آف سول لا، کینیڈا 2014، اسکول گلوبل ٹریٹرر ایوارڈ2014، اور اب نوبل انعام برائے امن 2014 ملالہ کی زندگی پر میڈیا کے دو بین الاقوامی اداروں نے دستاویزی فلمیں بھی بنائیں جن میں ملالہ نے کھل کر اپنے تعلیم سے متعلق نیک عزائم کا برملا اظہار کیا اور تعلیمی پابندیوں کی بھرپور ممانعت کی۔

ملالہ اور کیلاش کو ایسے وقت میں امن کا نوبل انعام دینے کے لیے منتخب کیا گیا ہے کہ جب پاکستان اور بھارت کے درمیان ورکنگ باؤنڈری پر شدید کشیدگی ہے اور نریندر مودی پاکستان کے خلاف زہر اگل رہا ہے، کاش یہ امن کا نوبل انعام دونوں ممالک کی حکومتوں اور عوام کو بھی امن و سلامتی کا تحفہ دے سکے، ملالہ کا کہنا ہے کہ ’’کیلاش اور میں نے مضبوط پاک بھارت تعلقات کے لیے کام کرنے کا فیصلہ کیا ہے، نوبل انعام پاکستان اور بھارت میں محبت کا پیغام دیتا ہے، پاکستان اور بھارت کو پرامن رہنا چاہیے۔‘‘

یقینا دونوں ممالک میں قیام امن کے بغیر یہ ’’نوبل انعام برائے امن‘‘ بے مقصد و بے معنی ٹھہرے گا، یہ قابل قدر عظیم انعام نریندر مودی جیسے ہٹ دھرم انتہا پسند و شدت پسند جابر حکمراں کو نفرتوں و مظالم کے خاتمے، محبتوں اور ہمدردی و بھائی چارے کے فروغ، نیز دائمی قیام امن کے لیے دعوت فکر فراہم کرتا اور غور و فکر کے نئے گوشے اور زاویے آشکار کرتا ہے، کاش کہ بھارت جنگی جنون سے باز آکر خطے میں قیام امن کو دائمی بنیادوں پر یقینی بنائے تو یقینا وہ اس نوبل انعام برائے امن کا حق ادا کرنے میں حق بجانب ہوگا، اگرچہ اس خوش آیند تبدیلی کی بھارت جیسے بدمست ہاتھی سے امید نہیں تاہم قیام امن کا یہ خواب خواہ کتنا ہی مشکل ہو، ناممکن ہرگز نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔