(پاکستان ایک نظر میں) - تلاش گمشدہ!

آصف راٹھور  جمعـء 24 اکتوبر 2014
(ن) لیگ کی حکومت قائم ہوتے ہی اُردو لغت میں ایک نیا انقلاب آیا ہے جس سے اُردو لغت میں ایک نئے لفظ کا اندراج ہونے جا رہا ہے اوروہ لفظ ہے ’’ممنون حسین‘‘ ہے جسکے معنی ہوں گے ’’غائب ہو جانا‘‘،’’گُم ہو جانا‘‘،’’قید ہو جانا‘‘لا پتہ ہو جانا‘‘۔ فوٹو: فائل

(ن) لیگ کی حکومت قائم ہوتے ہی اُردو لغت میں ایک نیا انقلاب آیا ہے جس سے اُردو لغت میں ایک نئے لفظ کا اندراج ہونے جا رہا ہے اوروہ لفظ ہے ’’ممنون حسین‘‘ ہے جسکے معنی ہوں گے ’’غائب ہو جانا‘‘،’’گُم ہو جانا‘‘،’’قید ہو جانا‘‘لا پتہ ہو جانا‘‘۔ فوٹو: فائل

اِس ملک کی سیاست بھی عجیب گھورکھ دھندا ہے ۔۔۔ جس کا جب دل چاہتا ہے تو اِس مملکت میں عہدوں کو اپنے مفادات کی خاطر استعمال کرلیتا ہے۔ ملک میں چار بار مارشل لا لگا اور چاروں آمر نے خود کو صدرِ مملکت کے لیے مناسب سمجھا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ یہاں سب سے مضبوط عہدہ صدر مملکت کا رہا۔ اور جب وقفے وقفے سے جب بھی جمہوری حکومتیں آئیں تو اُنہوں نے وزارت عظمیٰ کے عہدے کو مضبوط رکرنا چاہا۔

ماسوائے آصف علی زرداری کے وہ جمہوری پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے چاہتے تو ملک کے وزیراعظم بن سکتے تھے مگر اُنہوں نے انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا اور جب پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت برسراقتدار آئی تو اُنہوں نے خود کو صدر مملکت کی عہدے پر براجمان کرلیا اور پھر اُس پورے پانچ برس کے عرصے میں ملک کا وزیراعظم ایک ایک بات کی اجازت کے لیے صدر مملکت کے دربار میں حاضر ہوتا تھا یعنی عام لفظوں میں صدر کا عہدہ سب سے مضبوط عہدے کی حیثیت سے جانا پہنچانا جاتا رہا۔

پھر ملک میں انتخابات ہوئے اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایک جمہوری حکومت نے دوسری جمہوری حکومت کو اقتدار منتقل کیا۔وزیراعظم کا قرعہ نوازشریف کے نام نکلا ۔۔۔ اب کون نواز شریف کو نہیں جانتا کہ جب بھی وہ وزیراعظم بنے ہیں اپنے عہدے کو مضبوط سے مضبوط تر بنانے کی جدوجہد میں مگن رہے ہیں۔ اِس بار بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ خود وزیراعظم بنے اور وزیراعظم ہاوس کی رونقوں کو بحال کیا مگر نتیجہ یہ نکلا کہ ایوان صدر کی رونقیں ماند پڑگئیں۔ارے نہیں نہیں ۔۔۔ آپ ایسا مت سمجھیں کہ وہاں اب کوئی نہیں رہتا ۔۔۔ وہاں کوئی نہ کوئی تو رہتا ہے ۔۔۔ لوگ بتاتے ہیں کہ وہاں کوئی ممنون حسین نامی شخص رہتے ہیں۔ جو اِس ملک کے صدرِ مملکت بھی ہیں ۔

ہمارے ایک دوست ہیں اُنہوں نے ممنون حسین کے حوالے سے بہت ہی نئی اور عجیب بات کہی ۔۔۔ اگر میں یہ کہوں کہ وہ ساتھ ساتھ دلچسپ بھی تھی تو ہر گز غلط نہیں ہوگا۔ اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت قائم ہوتے ہی اُردو لغت کے اندر ایک نیا انقلاب آیا ہے جس سے اُردو لغت میں ایک نئے لفظ کا اندراج ہونے جا رہا ہے اوروہ لفظ ہے’’ ممنون حسین‘‘ ہے جسکے معنی ہوں گے ’’غائب ہو جانا‘‘،’’گُم ہو جانا‘‘،’’قید ہو جانا‘‘لا پتہ ہو جانا‘‘۔

آج سے اگر آپ اپنے کسی عزیز کو دوست، رشتے داریا پڑوسی کو غائب پائیں یا پھراگرآپ کی کوئی چیز گُم ہو جائے یا کوئی آپ کے سامنے’’ قید‘‘ ہو جائے تو آپ غائب ہو جانے،قید ہو جانے اور گُم ہو جانے کے لیے نئی اُرد ولغت کی رو سے لفظ’’ممنون حسین ‘‘کا استعمال کریں۔مثلاً ،آپ کے گھر میں پانی نہیں آرہا تو آپ ٹونٹی کھول کر کہہ سکتے ہیں کہ پائپ سے پانی ’’ممنون حسین ‘‘ ہو گیا ہے۔مثلاً اگر آپکا موبائل کہیں گُم ہو جائے اور لاکھ کوشش کے باوجود آپ کو نہ مل سکے تو آپ نئی اردو لغت کی رو سے پوچھنے والوں سے کہہ سکتے ہیں کہ میرا موبائل ’’ ممنون حسین‘‘ ہو گیا ہے۔مثلاً آپ یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ آج کل پاکستا ن کے صدر’’ ممنون حسین ‘‘ہیں ،مثلاً اگر آپ کے حلقے کے وزیر،ایم ،این اے،ایم پی اے،یا ایم ایل اے کا رابطہ عوام سے کٹ جائے تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ آ ج کل ہمارے عوامی نمائندے کا عوام کے ساتھ رابطہ ’’ممنون حسین ‘‘ ہو گیا ہے اور مثلاً آپ ملائشیاء کے گمشدہ طیارے لیے بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ ملائشیاء کا طیارہ چند ماہ قبل ’’ممنون حسین‘‘ ہو گیا وغیر وغیرہ ۔۔۔

میں یہ تو نہیں جانتا کہ آپ میری بات سے اتفاق کرتے ہیں یا نہیں ۔۔۔۔ لیکن میں بھی آپ کی ہی طرح اِس ملک کا عام شہری ہوں ۔۔۔ بس اکثر و بیشتر صدرِ مملکت کی تلاش میں مصروف عمل رہتا ہوں ۔۔۔ اگر کہیں آپ کو ملیں تو اُن سے درخواست کیجیے گا کہ کبھی کبھی ملکی معاملات پر لب کشائی کردیا کریں یا پھر ٹی وی پر نمودار ہوجایا کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ عوام اخبار میں تلاش گمشدہ کا اشتہار لگانے پر مجبور ہوجائیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔