ہم بھی کسی سے کم نہیں! دبئی ٹیسٹ میں نئے کھلاڑیوں نے صلاحیتوں کا لوہا منوالیا

سلیم خالق  اتوار 26 اکتوبر 2014
میزبان بولرز نے اپنی عمدہ کارکردگی سے ثابت کر دیا کہ تجربہ ضرور کم مگر حوصلہ توانا ہے۔  فوٹو : فائل

میزبان بولرز نے اپنی عمدہ کارکردگی سے ثابت کر دیا کہ تجربہ ضرور کم مگر حوصلہ توانا ہے۔ فوٹو : فائل

’’20 وکٹیں کون لے گا؟‘‘آسٹریلیا کے خلاف ٹیسٹ سیریز شروع ہونے سے قبل ہر پاکستانی کرکٹ شائق کے ذہن میں یہی سوال تھا، یہ تشویش بجا بھی تھی۔

ناتجربہ کار میزبان بولنگ اٹیک کی مجموعی وکٹیں67 تھیں، اس کے مقابلے میں کینگرو بولرز 619 پلیئرز کو ٹھکانے لگانے کا مجموعی تجربہ رکھتے تھے، ایسے میں دبئی ٹیسٹ میں پاکستان نے جب 454 رنز بنائے تو یہ توقع کی جا رہی تھی کہ آسٹریلوی بیٹنگ لائن 600 کا مجموعہ تو حاصل کر ہی لے گی، مگر میزبان بولرز نے اپنی عمدہ کارکردگی سے ثابت کر دیا کہ تجربہ ضرور کم مگر حوصلہ توانا ہے، بیٹنگ کے لیے سازگار پچ پر پہلی اننگز میں مہمان سائیڈ کو 303 رنز تک محدود کرنے کے بعد دوسری میں 59 پر 4 وکٹوں کا حصول قابل تعریف ہے، ٹیم اب فتح کی دہلیز پر پہنچ چکی اور اس سے ثابت ہو گیا کہ نئے کھلاڑی بھی کسی سے کم نہیں ہیں۔

یہ بات درست ہے کہ اب آسٹریلوی ٹیم میں پہلے جیسا دم خم نہیں رہا، حالیہ ٹور میں اسے شین واٹسن جیسے بہترین آل راؤنڈرکا ساتھ حاصل نہیں جبکہ مائیکل کلارک بھی حال ہی میں فٹنس مسائل سے پیچھا چھڑا کر فارم کی تلاش میں ہیں مگر اس کے باوجود پاکستان کا پہلا ٹیسٹ جیتنا بہت بڑا کارنامہ ہو گا۔ ٹوئنٹی 20 اور ون ڈے سیریز میں شکست کے بعد مزید رسوائی سے بچنے کا طریقہ یہی تھا کہ دبئی میں بالکل ڈیڈ وکٹ بنا دی جائے، اس پر بھی پہلی اننگز میں ہمارے دونوں اوپنرز 7 رنز پر پویلین لوٹ گئے،احمد شہزاد نے اس کا ازالہ دوسری باری میں شاندار سنچری سے کیا، باصلاحیت بیٹسمین کو اکثر ویرات کوہلی کی نقالی مہنگی پڑ جاتی ہے۔

ظاہری وضع کے ساتھ دیگر انداز میں بھی وہ بھارتی اسٹار کی پیروی کرنا چاہتے ہیں،البتہ پرفارمنس میں تسلسل کی جہاں بات آئے وہاں پیچھے رہ جاتے ہیں، کوہلی گزشتہ دنوں آؤٹ آف فارم رہے مگر مختصر عرصے میں وہ خود کو بطور ٹاپ بیٹسمین منوا چکے ہیں،دوسری جانب احمد شہزاد کی ایک اچھی اننگز کے بعد کئی ناکامیاں منتظر ہوتی ہیں، جیسے سری لنکا کے خلاف شارجہ میں 147 رنز کے بعد وہ 21، 4، 58 اور 3 کی اننگز ہی کھیل سکے۔

اب کینگروز سے پہلے ٹیسٹ کی دوسری باری میں انھوں نے پُراعتماد انداز سے بیٹنگ کرتے ہوئے سنچری بنائی، یہ سلسلہ برقرار رہنا چاہیے، کرکٹ میں ظاہری شکل وصورت نہیں بلکہ کارکردگی اہمیت رکھتی ہے، اگر ایسا نہ ہوتا تو ویوین رچرڈز کے اب بھی لاکھوں مداح موجود نہ ہوتے،احمد شہزاد کو تسلسل سے اتنا شاندار کھیل پیش کرنا چاہیے کہ لوگ کوہلی کو دیکھ کر کہیں کہ ’’یار یہ تو احمد شہزاد کی طرح لگتا ہے۔‘‘

دبئی ٹیسٹ کی پہلی اننگز میں حفیظ صفر پر وکٹ گنوا بیٹھے جبکہ دوسری باری میں فٹنس مسائل کے سبب اننگز کا آغاز نہ کر سکے، انھوں نے کم بیک کیا ہے لہٰذا ایک اننگز کی بنیاد پر کارکردگی جانچنا مناسب نہیں، بولنگ کا اضافی آپشن ان کے حق میں جاتا ہے، ویسے شعیب ملک بھی ایک بار پھر قومی ٹیم کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں، مختلف غیرملکی لیگز کے بعد ڈومیسٹک کرکٹ میں بھی انھوں نے عمدہ پرفارم کیا، اچھی بات یہ ہے کہ ان کا بولنگ میں کھویا ہوا اعتماد بھی اب واپس آ چکا، اگر سلیکٹرز انھیں موقع دیں تو ٹیم کے کام آ سکتے ہیں۔

آسٹریلیا کے خلاف سیریز سے قبل یونس خان نے بورڈ اور سلیکٹرز کے خلاف دل کھول کر لفظی حملے کیے، تنازع کو مزید بڑھنے سے محفوظ رہنے کے لیے بورڈ نے خاموشی میں ہی عافیت سمجھی، یونس ٹیم میں واپس آئے اور دونوں اننگز میں سنچریاں جڑ کر اہمیت منوا لی، زیادہ سنچریوں کا ملکی ریکارڈ ان کے قبضے میں آ گیا جبکہ اب نگاہیں سب سے زیادہ رنز بنانے والا پاکستانی بننے پر مرکوز ہوں گی، وہ پاکستانی ٹیسٹ ٹیم میں ریڑھ کی ہڈی جیسی حیثیت رکھتے ہیں اور اپنی عمدہ کارکردگی سے کئی میچز میں فتح دلائی ہے، ٹیسٹ میں عمدہ کھیل کے بعد یونس کے مداح اب ایک بار پھر انھیں ون ڈے اسکواڈ میں واپس لانے کی بات کر رہے ہیں۔

مگر یہ روایت درست نہیں کہ ایک طرز میں اچھے کھیل کا صلہ دوسرے میں دیا جائے، یونس خان کی ٹیسٹ سائیڈ میں اہمیت پر کسی کو شکوک نہیں مگر ان کا انداز بیٹنگ مختصر طرز کے مقابلوں کے لیے موزوں نہیں لگتا، انھیں سنچری بنائے برسوں بیت چکے، ٹیم میں ایک مصباح الحق ہی کافی ہیں، گزشتہ ورلڈکپ کے سیمی فائنل میں ان دونوں کی سست بیٹنگ کے سبب پاکستان کو شکست ہوئی تھی، اب ایک بار پھر میگا ایونٹ آ رہا ہے، مصباح تو کپتان ہیں ایسے میں یونس کو نہ کھلانا ہی ملکی مفاد میں ہو گا، ہو سکتا ہے کہ یونس کی تازہ تازہ سنچریوں کے سبب لوگوں کو یہ بات پسند نہ آئے مگر مستقبل کے پیش نظر ون ڈے میں اب اسد شفیق، صہیب مقصود اور عمر اکمل جیسے نوجوانوں پر انحصار کرنا مناسب ہے۔

آؤٹ آف فارم مصباح الحق آخرکار فارم میں واپس آ ہی گئے، آسٹریلیا کے خلاف پہلے ٹیسٹ میں وہ نصف سنچری بنانے میں کامیاب ہوئے مگر پھر ایسا غلط شاٹ کھیل کر آؤٹ ہوئے جو کوئی نوجوان پلیئر کھیلتا تو اسے خوب ڈانٹ سننا پڑتی،امید ہے کہ مشکل پچز پر بھی مصباح کی عمدہ فارم جاری رہے گی کیونکہ بیٹنگ لائن کا زیادہ انحصار انہی پر ہوتا ہے، پہلے ٹیسٹ میں اظہر علی اور اسد شفیق نے بھی مڈل آرڈر میں اچھا پرفارم کیا مگر سرفراز احمد سنچری بنا کر سب پر بازی لے گئے، ان دنوں ان کا ستارہ عروج پر ہے مگر انھیں اپنے اصل شعبے وکٹ کیپنگ پر بھی توجہ برقراررکھنا ہوگی کیونکہ وکٹوں کے عقب میں ایک غلطی میچ کا نقشہ بدل دیتی ہے۔

راحت علی اور عمران خان پر مشتمل نئے پاکستانی پیس اٹیک کی پہلی اننگز میں کارکردگی غیرمعمولی نہیں رہی مگر اس میں ان کا قصور نہیں، پچ میں جان موجود ہی نہیں ایسے میں وہ کیا کر سکتے ہیں، ہاں جب انھیں مچل جانسن جیسا تجربہ حاصل ہو جائے تو یقیناً ہر وکٹ پر صلاحتیں منوانے میں کامیاب رہیں گے۔ میچ میں لیگ اسپنر یاسر شاہ کا بھی ڈیبیو ہوا جو 14 سال فرسٹ کلاس مقابلوں میں گزارنے کے بعد یہ موقع پانے میں کامیاب رہے، خوش قسمتی سے جب وہ کرکٹ میں آئے تو محض 14 سال کے ہی تھے اس لیے اب بھی زیادہ دیر نہیں ہوئی اور کئی برس ٹیم کے کام آ سکتے ہیں، اسپن بولنگ کے شہنشاہ شین وارن نے بھی یاسر کو سراہا ہے اس کا مطلب ان میں کوئی تو غیرمعمولی بات ضرور ہو گی۔

بدقسمتی سے ہمیں ایک بار کوئی اچھا کھلاڑی مل جائے تو مطمئن ہو کر بیٹھ جاتے ہیں جیسے لیگ اسپن میں دانش کنیریا آئے تو دیگر ایسے بولرز کا مستقبل تاریک ہو گیا اور 14 سال بعد دوسرے کھلاڑی کا ٹیسٹ ڈیبیو ہوا، حالانکہ دیگر بولرز کو بھی گروم کرنا اور نسبتاً کم اہم میچز میں آزمانا بھی چاہیے تاکہ اگر اسٹار پلیئر انجرڈ، آؤٹ آف فارم یا کسی اور وجہ سے باہر ہو تو متبادل کی تلاش نہ کرنا پڑے، مگر ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہوتا جیسے قومی ٹیم کا کوئی نائب کپتان بھی نہیں ہے، اب مصباح نہ ہوئے تو کسے کپتان بنائیں گے؟ سعید اجمل گئے تو ان کے لیول کا کوئی آف اسپنر بھی موجود نہیں،آج کل ہر طرف سرفراز سرفراز ہو رہا ہے کل کو وہ خدانخواستہ کسی مسئلے کا شکار ہوئے تو ہم وکٹ کیپر ڈھونڈتے رہیں گے، ویسے ہمارے سینئر کھلاڑی خود بھی نئے پلیئرز کو آگے نہیں آنے دیتے کہ کہیں ہمارے لیے مسئلہ نہ بن جائے، جیسے انضمام نے مصباح کے ساتھ کیا ویسا ہی موجودہ کپتان دیگر بیٹسمینوں کے ساتھ کرتے ہیں، یہ ایک قومی روایت ہے جو جاری رہے گی۔

ذوالفقار بابر نے بھی پہلے ٹیسٹ میں کینگروز کو خوب پریشان کیا، مہمان بیٹسمین سعید اجمل کے نہ ہونے پر خوشیاں منا رہے ہوں گے مگر انھیں کیا پتا تھا کہ یاسر شاہ اور ذوالفقار ہی بھاری پڑ جائیں گے، دونوں اسپنرز نے ثابت کر دیا کہ اس شعبے میں ابھی ٹیم کو پریشان ہونے کے کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اب کچھ بات پی سی بی کی ہو جائے،جس طرح ہرنئی حکومت آنے پر سابقہ حکام ہی بہترلگنے لگتے ہیں، وہی حال کرکٹ میں بھی ہے، شہریارخان کی اب تک جو کارکردگی رہی اسے دیکھ کر یہی محسوس ہونے لگا کہ ان سے بہتر تو نجم سیٹھی ہی تھے، موجودہ چیئرمین کے پاس یا تو اختیارات نہیں یا وہ استعمال کی ہمت نہیں رکھتے، ہر فیصلے کے لیے اگر انھیں گورننگ بورڈ سے پوچھنا ہے تو گھر بیٹھ کر اسی کو تمام تر اختیارات سونپ دیں، شہریار خان نے اب تک کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا اور سابقہ پالیسیز پر ہی عمل پیرا ہیں، اسی وجہ سے ٹیم بھی اب واضح طور پر 2 گروپس میں تقسیم ہو چکی، چیف سلیکٹر و منیجر معین خان نے یونس خان کو پہلے سینٹرل کنٹریکٹ کے معاملے پر ناراض کیا، وہ تو معاملہ نجم سیٹھی نے سنبھال لیا ورنہ مزید بڑا تنازع ہوتا، پھر معین نے یونس کو ون ڈے اسکواڈ سے ڈراپ کرتے ہوئے اعتماد میں نہ لیا۔

ساتھ ہی ان کے بارے میں منفی ریمارکس دے کر آگ لگا دی، قریبی ذرائع بتاتے ہیں کہ دونوں کے درمیان اب صرف پروفیشنل معاملات پر رسمی گفتگو ہی ہوتی ہے، کپتان مصباح الحق بھی معین خان سے خوش نہیں، سینئر پلیئرز کے دل میں جو لاوا پک رہا ہے وہ اگر باہر آ گیا تو اعلیٰ کرکٹ حکام کے ایوان بھی ہل جائیں گے، چیئرمین بورڈ نے دانستہ معین خان کے معاملے پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں، یقیناً دوران سیریز انھیں ایک عہدے سے ہٹانا درست نہیں البتہ واضح پیغام تو پہنچا دینا چاہیے تھا، مگر ایسا نہ ہوا جس سے پلیئرز کو لگنے لگاکہ بورڈ معین خان کو حد سے زیادہ سپورٹ کر رہا ہے، سابق وکٹ کیپر نے کئی کھلاڑیوں کو کپتانی کے بھی خواب دکھائے جس سے اب ٹیم کا ماحول آئیڈیل نہیں رہا۔

فلم میں تو اداکاروں کا ڈبل رول ٹھیک لگتا ہے مگر کرکٹ میں نہیں،بورڈ میں کئی آفیشلز اب تک مزے میں ہیں، اکیڈمی سے بھی تنخواہ اور ٹیم کے ساتھ جاؤ تو اتنا ڈیلی الاؤنس ملتا ہے جو لاکھوں افراد کی ماہانہ تنخواہ بھی نہ ہو گی، ان کیخلاف بھی صرف کارروائی کا اشارہ دیا گیا جو نجانے ہو گی بھی یا نہیں، گورننگ باڈی کے ممبران گذشتہ دنوں لاہور میں جمع ہوئے چائے نوش کی، کھانا کھایا اور گھروں کو چلے گئے، پورا پریس ریلیز پڑھ لیں تو علم ہو گا کہ ایک بھی بڑا فیصلہ نہیں ہوا، اگلے آئی سی سی صدر کے لیے نجم سیٹھی کی نامزدگی یقینی ہے مگر عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے اعلان کیا گیا کہ ایک کمیٹی کسی شخص کا تقرر کرے گی، اگر نجم سیٹھی کو نامزد کرنا ہے تو کر دیں وہ بطور پی سی بی چیف آئی سی سی اور دیگر بورڈز میں اپنی اچھی ساکھ تو بنا چکے لہٰذا اس عہدے کے لیے درست انتخاب ہوں گے۔

ایسے میں بات گھمانے کی کیا ضرورت ہے، جس کمیٹی میں اقبال قاسم اور شکیل شیخ جیسے لوگ ہوں وہ بھلا کسی اور کا انتخاب کرے گی کیا؟ ویسے سابق اسپنر پر اب افسوس ہی ہوتا ہے نجانے کن وجوہات کی بنیاد پر اب وہ یس مین بن چکے، کھیل کا وسیع تجربہ رکھنے کے باوجود انھوں نے شکیل شیخ کی زیرسربراہی کرکٹ کمیٹی کا رکن بننا نجانے کیوں قبول کیا؟ گورننگ بورڈ میں بھی وہ خاموش بیٹھے بس اپنے باسز کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں، نجانے وہ اقبال قاسم کہاں کھو گیا جس کی اصول پسندی کی سب گواہی دیا کرتے تھے۔

ہمارا بورڈ اس وقت عبوری بنیادوں پر چل رہا ہے، محمد اکرم، مشتاق احمد، وقار یونس، شاہد اسلم اور ان جیسے کئی افراد اپنی تجوریاں بھرنے میں مصروف ہیں مگر ٹیم کا کچھ نہیں ہو رہا، ایک میچ جیتنے پر ہم آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں مگر اس سے قبل جو کئی میچز ہارے ان پر کوئی کچھ نہیں کہتا،ہر بات میں مصلحت پسندی عروج پر ہے کہ اسے نکالا تو سفارش کرنے والے فلاں صاحب ناراض ہو جائیں گے چلو ٹرانسفر کر دیتے ہیں، اکرم کا کیس اس کی واضح مثال ہے، نجانے کب کچھ بہتری آئے گی، البتہ دبئی ٹیسٹ میں شاندار کارکردگی نے یہ بات ثابت کر دی کہ حالات چاہے جیسے بھی ہوں پاکستانی ٹیم اپنی کارکردگی سے انھیں اپنے حق میں تبدیل کر لیتی ہے،قارئین بھی فی الحال متوقع فتح سے لطف اندوز ہوں باقی معاملات بعد میں دیکھیں گے۔

[email protected]

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔