محاذ آرائی کی سیاست زوروں پر

عارف عزیز  بدھ 29 اکتوبر 2014
سندھ کی تقسیم کے خلاف قومی عوامی تحریک کے احتجاج کا ایک منظر۔ فوٹو: فائل

سندھ کی تقسیم کے خلاف قومی عوامی تحریک کے احتجاج کا ایک منظر۔ فوٹو: فائل

کراچی: سندھ کا سیاسی منظر نامہ ان دنوں مفاہمت اور برداشت کے رنگوں سے محروم نظر آرہا ہے۔

اندرونِ سندھ مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے، ہڑتالیں کی جارہی ہیں، جب کہ کراچی میں بھی سیاسی درجۂ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ ہفتۂ رفتہ میں پیپلز پارٹی اور متحدہ قومی موومنٹ کے مابین تلخیوں کے بعد پریس کانفرنس اور احتجاج کا سلسلہ زوروں پر رہا۔ ایم کیو ایم کے ملک میں نئے انتظامی یونٹس اور سندھ میں صوبے کے قیام کے مطالبے، بلاول بھٹو زرداری اور خورشید شاہ کے متنازع بیانات کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال سے سندھ کے شہری اور دیہی علاقوں کے عوام خوف زدہ ہیں اور اس سیاسی طوفان کے خاتمے کے لیے دعاگو ہیں۔

پیپلز پارٹی کے سینئر راہ نما اعتزاز احسن نے خورشید شاہ کے حق میں بات کی، تو پیر کے روز ایم کیو ایم کی جانب سے فاروق ستار نے پریس کانفرنس کر ڈالی۔ اعتزاز احسن کا کہنا تھا کہ ایم کیو ایم ایشوز کی سیاست کررہی ہے اور خورشید شاہ کو تنقید کا ہدف بناتے ہوئے عوام کے جذبات بھڑکائے جارہے ہیں۔ خورشید شاہ نے اپنے بیان کی وضاحت کر دی تھی اور الطاف حسین سے توقع نہ تھی کہ وہ سیاست کے لیے مذہب کو استعمال کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ صوبہ بنانا چاہتے ہیں تو اس کا آئینی طریقۂ کار موجود ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار نے اس کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ خورشید شاہ نے لفظ مہاجر کو گالی سے تعبیر کیا، جس سے تمام پاکستانیوں اور بالخصوص مہاجروں کی دل آزاری ہوئی۔ اس سے متعلق اعتزاز احسن نے حقائق توڑ مروڑ کے پیش کیے، اس بیان سے اعتزاز احسن کی بھی ذہنیت کا پتا چلتا ہے، کیوں کہ جس کی اصلاح کی ضرورت ہے، اسے سمجھانے کے بجائے ہمارے مظاہرے کو ہدف بنایا گیا، ہم خورشید شاہ کے حق میں اعتزاز احسن کے جانب دارانہ اور متعصبانہ بیان کی مذمت کرتے ہیں۔

اتوار کے روز متحدہ قومی موومنٹ نے احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ایم کیو ایم کی رابطہ کمیٹی کے ڈپٹی کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے خورشید شاہ کے لفظ مہاجر کو گالی قرار دینے کے خلاف منعقدہ اس مظاہرے سے خطاب میں کہاکہ محرم الحرام کے بعد کراچی سے ملک میں 20 نئے انتظامی یونٹس کے قیام اور مظلوم عوام کے حقوق کی تحریک کا باقاعدہ آغاز کیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم ہندوستان سے اپنے حصّے کا پاکستان لے کر آئے ہیں، یہ ہمارے آبا و واجداد کی قربانیوں کا ثمر ہے، ہم یہ کہتے ہیں کہ ہمارا جائز اور قانونی حق دیا جائے۔ اتوار کو کراچی میں نورانی چورنگی، شارع قائدین پر ایم کیو ایم کے کارکنان اور عوام کی بڑی تعداد موجود تھی، جنہوں نے خورشید شاہ کے خلاف نعروں پر مبنی پلے کارڈ اور بینر تھام رکھے تھے۔ مظاہرین نے مطالبہ کیاکہ خورشید شاہ کا لفظ ’’مہاجر‘‘ سے متعلق متنازع بیان عظیم ترین سنت یعنی ہجرت کی توہین ہے، اس لیے ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔ یہ بھی مطالبہ کیا گیا کہ خورشید کو قائد حزب اختلاف کے عہدے سے ہٹایا جائے۔

ایم کیو ایم کے راہ نما نے کہا کہ ہجرت عظیم ترین سنت ہے اور یہ عمل ہمارے نبی نے بھی کیا، پناہ گزیں اور مہاجر میں فرق ہوتا ہے۔ اس موقع پر ایم کیو ایم کے راہ نما ڈاکٹر فاروق ستار نے کہا کہ سید خورشید شاہ نے گستاخی تو کرلی، اب وہ اس ایشو پر سیاست کر کے شہری اور دیہی لوگوں میں نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ اس سیاست کا مقصد یہ ہے کہ شہری علاقوں کے وسائل پر وڈیروں کا قبضہ برقرار رہے، ایم کیو ایم سندھ کی تقسیم نہیں چاہتی، ہم چاہتے ہیں کہ وسائل اور انتظام کو منصفانہ طریقے سے تقسیم کیا جائے اور انتظامی یونٹس قائم کیے جائیں، نئے انتظامی یونٹس سے وڈیرانہ اور موروثی سیاست کا خاتمہ ہوگا اور عوام با اختیار ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کراچی 90 روپے کماتا ہے، تو اس پر دو روپے بھی خرچ نہیں کیے جاتے، عوام پوچھتے ہیں کہ 88 روپے کہاں گئے، جو لوگ لاڑکانہ اور دیہی علاقوں پر پیسا خرچ کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں، ان سے پوچھتے ہیں کہ وہاں کیا ترقیاتی کام کیے گئے، یہ علاقے تو پہلے سے بھی زیادہ پسماندہ ہوگئے ہیں۔

اس موقع پر حیدر عباس رضوی نے کہا کہ آج کا یہ اجتماع ثابت کرتا ہے کہ سکھر سے ابھرنے والا خورشید شاہ آج کراچی کے عوامی ساحل پر ڈوب گیا ہے، ہندوستان سے ہجرت کی گئی اور اسلامی ریاست پاکستان وجود میں آئی، لفظ مہاجر کو گالی قرار دینا پوری امت مسلمہ کی توہین ہے، خورشید شاہ نے پاکستان میں رہنے والے پانچ کروڑ مہاجروں کی بھی توہین کی ہے۔ ایم کیو ایم سندھ میں صوبوں کے قیام کا معاملہ اسمبلی میں بھی لے گئی ہے۔

گذشتہ دنوں صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں ایم کیو ایم کے رکن کامران اختر نے کہا کہ مہاجر عوام کے ساتھ کئی سال سے سازشیں کی جاری ہیں اور انہیں پبلک سروس کمیشن میں یک سر نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں مہاجروں کے مسلسل استحصال کے بعد اب صوبے کے قیام کا عوامی مطالبہ کیا ہے، جس پر عمل درآمد کیا جائے۔

وزیر اطلاعات شرجیل میمن نے اس کے جواب میں کہا کہ سندھ اسمبلی مقدس ایوان ہے، اس لیے متنازع ایشوز ایوان میں نہ لائے جائیں، کیوں کہ اس سے سندھ کے عوام میں شدید بے چینی پھیلی گی اور خون خرابے کا بھی خدشہ ہے۔پچھلے ہفتے قومی عوامی تحریک کی جانب سے بھی کراچی میں سندھ کی تقسیم کے مطالبے کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

پیپلز پارٹی کے راہ نماؤں کا کہنا ہے کہ وہ ایم کیو ایم کے راہ نماؤں کے اشتعال انگیز بیانات اور تقریروں کے باوجود پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی ہدایت پر صبر و تحمل کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ ہم سندھ میں تلخیوں کا خاتمہ اور بھائی چارے کی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں۔

سندھ کے وزیر اطلاعات، شرجیل انعام میمن نے کہا کہ دلائل کے ساتھ ایم کیو ایم کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات اور بیانات کا جواب دے سکتے ہیں، سندھ میں رہنے والوں کو سیاسی مفادات حاصل کرنے کے لیے آپس میں لڑوانے کی سازش کام یاب نہیں ہونے دیں گے۔ ہم نہیں چاہتے کہ تلخیوں میں اضافہ ہو اور ماحول خراب ہو، ایم کیو ایم جھوٹا پروپیگنڈہ کرکے عوام کو گم راہ کررہی ہے۔ پی پی پی کے راہ نما قادر پٹیل نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس میں کہاکہ خود کو لبرل کہنے والے آج مذہبی انتہا پسند بنے ہوئے ہیں، خورشید شاہ کی معافی کے بعد ایم کیو ایم کا احتجاج کرنا سمجھ سے باہر ہے۔

پچھلے دنوں مسلم لیگ فنکشنل کے راہ نما اور وزیراعظم کے معاون خصوصی امتیاز احمد شیخ نے کہا کہ پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم اپنی لڑائی میں سندھ کے عوام اور صوبے کو ٹارگیٹ نہ کریں، متحد سندھ پاکستان کی سلامتی و بقا کا ضامن ہے۔ انہوں نے الطاف حسین سے اپیل کی کہ وہ ایسے نعرے سے دست بردار ہونے کا اعلان کریں، جس سے سندھ کے عوام کی دل آزاری ہو رہی ہے۔

ہم سندھ میں بسنے والی تمام قومیتوں کو اپنا بھائی اور انہیں سندھی سمجھتے ہیں۔ انہوں نے سندھ اسمبلی میں صوبے کے مطالبے کو باعثِ تکلیف قرار دیا اور کہا کہ سندھ کوئی گاجر مولی نہیں ہے، جس کے ٹکڑے کیے جائیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ سندھ میں جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کروا دیے جائیں تو شہری اور دیہی عوام کے 80 فی صد مسائل حل ہو جائیں گے۔

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ملک میں نئے انتظامی یونٹس کے قیام سے متعلق قانون سازی میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کے لیے ایم کیو ایم نے وفاقی حکومت سے رابطے کا فیصلہ کیا ہے۔ ایم کیو ایم وزیر اعظم نواز شریف سے اس معاملے میں پارلیمانی کمیٹی یا کمیشن کے قیام کی درخواست کرے گی۔ باخبر ذرایع کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم انتظامی یونٹس سے متعلق عوامی رابطہ مہم کے بعد سیاسی و مذہبی جماعتوں سے رابطہ کرے گی اور ان سے قانونی و آئینی میدان میں حمایت کی درخواست کرے گی۔

کراچی میں جمیت علمائے اسلام نے بھی پچھلے دنوں احتجاجی مظاہرہ کیا، جس میں مولانا فضل الرحمٰن پر خود کُش حملے کی مذمت کی گئی۔ جے یو آئی (سندھ) کے سیکریٹری جنرل ڈاکٹر خالد محمود سومرو نے اس موقع پر کہا کہ مولانا فضل الرحمٰن نہ صرف پاکستان بلکہ عالم اسلام کے عظیم راہ نما ہیں، ان پر حملہ کرنے والے سامراجی ایجنڈے کے تحت اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل چاہتے ہیں، دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کو بے نقاب کر کے سخت ترین سزا دی جائے۔

ڈاکٹر خالد سومرو کا کہنا تھا کہ قاتلانہ حملہ امت مسلمہ کو ایک مدبر اور حقیقی ترجمان سے محروم کرنے کی سازش ہے، لیکن اوچھے ہتھکنڈوں کے ذریعے ہمیں اپنے مشن سے ہٹایا نہیں جاسکتا۔ احتجاجی مظاہرے سے قاری شیر افضل خان، مولانا عبدالکریم عابد، مولانا عمر صادق، محمد اسلم غوری و دیگر نے بھی خطاب کیا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔