(پاکستان ایک نظر میں) - جہاں موت کا رقص جاری ہے

آصف محمود  جمعرات 30 اکتوبر 2014
علاج معالجہ اور مناسب رہائش جیسے الفاظ شاید ان لوگوں نے کبھی سنے بھی نہ ہوں۔ یہاں زندگی بلاشبہ کسی بوجھ سے کم نہیں ہے۔ فوٹو اے ایف پی

علاج معالجہ اور مناسب رہائش جیسے الفاظ شاید ان لوگوں نے کبھی سنے بھی نہ ہوں۔ یہاں زندگی بلاشبہ کسی بوجھ سے کم نہیں ہے۔ فوٹو اے ایف پی

اپنی جھگی کی دہلیز پر بیٹھی سیاہ آنکھوں میں آنسو چھپائے گھاگھرا کرتی پہنے وہ اپنے تین سالہ بیٹے کو گود میں لئے نجانے کس کی راہ تک رہی تھی۔ خوف اس کی آنکھوں سے چیخ رہا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کا بیٹا اب نہیں بچے گا۔وہ خود بھی بھوکی اورپیاسی تھی لیکن اسے اپنی بھوک کی نہیں بلکہ اپنے بیٹے کے بے حرکت جسم کی فکر تھی۔پچھلے ایک سال میں اس گاؤں کے کتنے ہی بچے دم توڑ گئے اورجو باقی ہیں انہیں بھی موت اپنی آغوش میں لینے کیلئے بیتاب ہے۔ اسے یقین تھا کہ اس کا بیٹا بھی مر جائے گا۔ کیسی قیامت ہے ایک ماں خود ہی اپنے بچے کو موت کی آغوش میں دینے کے لیے وقت کا انتظار کررہی تھی اورپھرچند گھنٹوں بعد اس کا بچہ مر گیا۔

یہ کہانی ہے تھرکے دورافتادہ گاؤں کی ہے۔ ہم لوگ حیدرآباد سے کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد مٹھی اورپھروہاں سے اسلام کوٹ کے اس چھوٹے سے گاؤں میں پہنچے تھے۔ ہم اگرچند گھنٹے پہلے پہنچ جاتے تو شاید اس بچے کی جان بچ جاتی، ہم لوگ فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے ساتھ اس علاقے میں پہنچا تھے جہاں پیاسا تھراب تک ایک درجن سے زائد بچوں کو نگل چکا تھا۔ ہمارے پاس پانی کی بوتلیں ،بسکٹ ،آٹا،چاول، کھانے پینے کی اشیا اور ادویات تھیں۔ ہم نے یہ سامان غم سے نڈھال ان لوگوں میں تقسیم کیا ، چند گھنٹے ان کے ساتھ گزارے اور پھر دوسرے علاقوں میں نکل گئے۔

ان دنوں ایسے مناظرتھرکے ہرگاؤں میں نظرآتے ہیں۔ جہاں بھوک سے بلکتے معصوم پھول بن کھلے مرجھا گئے۔ موت ہے کہ ایک ایک کرکے سب کو نگل رہی ہے۔ حکومتی اعدادوشمارکے مطابق رواں ماہ جاں بحق ہونے والوں کی تعداد 27 جبکہ یکم جنوری 2014 سے اب تک 405 تھری قحط سالی کا شکار ہوکرموت کے منہ میں جاچکے ہیں۔

بارش زندگی ہے اس کا ادراک تھریوں سے زیادہ اور کوئی نہیں کر سکتا ، جس کی ایک بوند سے تھری جھوم اٹھتے ہیں ۔ بارش ہوئی تو ان کے نصیب جاگ اٹھے اور نہ ہو تو قحط سالی کا بھوت انہیں نگلنے کو تیار ہوتا ہے۔ جب بھی تھر کے آسمانوں پہ بجلی چمکتی اور بادلوں کا رخ صحرائے تھر کی جانب ہوتا ہے تو شہروں میں امیروں کے گھروں میں جھاڑو برتن کرکے روزی روٹی کمانے والی تھری عورت کے منہ سے بے اختیار’’مارو تھر برسیو رے’ نکلتا اور اسکی آنکھوں کے کونے گیلے ہو جاتے ہیں۔ بارشوں کا سوکھا پن خوفناک ڈائن کی مانند ان تھریوں کو چاٹ رہا ہے ،یہاں کی عورتیں سورج نکلنے سے پہلے ہی پانی کے برتن لئے صحرا کی طرف چل پڑتی ہیں، منہ اندھیرے کنویں سے پانی کھنچنے کے لئے باری کے انتظار میں وہ سورج کا تڑکا اسی کنویں کی منڈیر پہ دیکھتی ہیں۔ کنواں سوکھا ہو تو پانی کھینچنے کے لئے گدھے یا کسی اور جانور کا استعمال بھی کیا جاتا ہے۔

یہ پانی پیاس تو نہیں بچھا پاتا لیکن اس سے زندگی ضرور دھکیلی جاتی ہے۔اور اس دھکیلی جانے والی زندگی کو صحرائے تھر کے کنووں کا یہ کھارا پانی کتنا روگی بنا دیتا ہے یہ ہم سوچ بھی نہیں سکتے۔ تھری بچے ہوں یا خواتین اور بزرگ، یہاں کے سب ہی باسی بھوک اور افلاس کا شکار ہیں۔ تھری سہولیات تو کجا زندگی گزارنے کی بنیادی ضروریات سے بھی محروم ہیں۔ پینے کا پانی چاہے گدلا ہی کیوں نہ ہو، انہیں میسر نہیں، علاج معالجہ اور مناسب رہائش جیسے الفاظ شاید ان لوگوں نے کبھی سنے بھی نہ ہوں۔ یہاں زندگی بلاشبہ کسی بوجھ سے کم نہیں ہے۔

بچوں کی اموات کی خبروں کے بعد تمام تر امدادی کارروایوں کا مرکز مٹھی بنا ہوا ہے، لیکن درحقیقت تھر ایک بہت وسیع علاقہ ہے جس کے دوردراز علاقوں میں کوئی امدادی کاروائی نظر نہیں آتی ،اور اسی وجہ سے قحط سے متاثرہ لوگ ابھی تک میرپورخاص، سانگھڑ، بدین اور دوسرے علاقوں میں نقل مقانی کرنے پر مجبور ہیں۔ تھر میں کام کرنے والے فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کے کارکنوں نے بتایا کہ تھر کے بیشتر علاقے اب بھی امدادی ٹیموں کی پہنچ سے دور ہیں،جہاں کوئی امدادی کاروائی نہیں کی جارہی، جس سال بارشیں ہوتی ہیں، اسی سال میٹھا پانی دستیاب ہوتا ہے ورنہ کنویں کا کڑوا اور ناقابلِ استعمال پانی پینا تھریوں کی قسمت ہے۔اس کے علاوہ غذا، پانی اور دوا کی عدم موجودگی کے باعث حاملہ مائیں بیمار ہوجاتی ہیں اور ان کے بچے بھی بیمار پیدا ہوتے ہیں، ساتھ ہی مویشی مرجاتے ہیں، لہذا بچوں کو نہ ماں کا دودھ ملتا ہے اور نہ مویشیوں کا۔

فلاح انسانیت فاؤنڈیشن کی طرف سے رواں ماہ 25 کنویں اورہینڈپمپ لگوائے گئے ہیں جبکہ 70 زیرتعمیرہیں۔ جو کام ہماری سوئی ہوئی حکومت کو کرنا چاہئے وہ مختلف فلاحی ادارے سرانجام دے رہے ہیں۔ تھر کے دوردراز گوٹھ گولیو، مورانو، کیہڑی، تانیلو، گنگا لچ ، سگروڑ، تانیلی، ڈاندو بھیل، وہیلنجا اور کاری ہرسمیت بیشتر گوٹھوں میں اب تک امدادی ٹیمیں نہیں پہنچ سکی ہیں اوریہاں اب بھی موت کا رقص جاری ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

آصف محمود

آصف محمود

بلاگر کا تعلق لاہور سے ہے اور وہ 2000 سے شعبہ صحافت جبکہ 2009 سے ایکسپریس میڈیا گروپ کے ساتھ وابستہ ہیں۔ پاک بھارت تعلقات، بین المذاہب ہم آہنگی اورسماجی موضوعات پرلکھتے ہیں۔ بلاگر سے اِس ای میل [email protected] پر رابطہ کیا جاسکتا ہے

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔