(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - ملکی ترقی اور نواب صاحب!

سید شکیل امجد  جمعرات 30 اکتوبر 2014
کبھی عوامی مسائل حل نہ ہونے کی وجہ ماضی کے حکمرانوں کی کارکردگی کو قرار دیا جاتا ہے تو کبھی کوئی اور وجہ بتادی جاتی ہے۔ اور جب مسائل کو حل کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو بنیادی مسائل کو چھوڑ کر سڑکیں، پل اور انڈرپاس بنا لیے جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

کبھی عوامی مسائل حل نہ ہونے کی وجہ ماضی کے حکمرانوں کی کارکردگی کو قرار دیا جاتا ہے تو کبھی کوئی اور وجہ بتادی جاتی ہے۔ اور جب مسائل کو حل کرنے کا ارادہ ہوتا ہے تو بنیادی مسائل کو چھوڑ کر سڑکیں، پل اور انڈرپاس بنا لیے جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

صف اول کی اقوام اور ہمارے ہاں ترقی کے معیارات  میں تضادات نمایاں ہیں۔  ہرنیا آنیوالا حکمران ناکامیوں کا طوق جانے والے حکمران کے گلے میں ڈال دیتا ہے ، اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا نعرہ مستانہ لگا کر کہتا ہے کہ  لو جی اب دیکھنا میں کیا کرتا ہوں۔پھر ہوتا وہی ہے جو آج تک ہوتا آیا ہے، عوام ساقط سانس کے ساتھ پوری ٹرم انتظار کرتی ہے کہ شاید اس پل یہ صاحب کچھ کمال کردیں لیکن وہی ڈھاک کے تین پات۔

حیرت اس بات پربھی ہوتی ہے کہ ایک الیکشن میں عوام کے ہاتھوں عظیم خواری کے بعد جب کبھی وہ صاحب دوبارہ حکمران ہوتے ہیں تو پھر سے اپنے دور کو ایک ایسا خواب بتاتے ہیں، جو اگر پورا ہوگیا تو پاکستان برق رفتاری کی آخری حد سے بھی زیادہ تیزی سے ترقی کرےگا۔ یہ خواب پاکستان کو عظیم مملکت بنانے کا خواب  ہوتا ہےجسے اپوزیشن کی ریشہ دوانیاں توڑ دیتی ہیں۔

ہم ترقی کرنے میں ناکام کیوں ہو جاتے ہیں؟ اس کا سادہ سا جواب یہ ہے کہ ایک کام جس کی ابتدا ہی نہیں ہوئی اسکے اختتام کا واویلا کیسا کہ  ہمارے لیڈران اس فہم سے ہی عاری ہیں۔ ذرا سوچیے اگر مغرب میں نہایت بڑے شہر آباد ہیں تو کیا ہمیں بھی وسائل کا ارتکاز کرکے بے ہنگم  آبادیاں بسانی ہیں؟ اور پھر آبادی کے طوفان کی ضروریات کو پورا کرنے کیلے کنکریٹ کے جنگل اگانے ہیں؟   ترقی یافتہ ممالک میں اگر چہ  انفراسٹرکچر پر زور دیا جاتا ہے مگر اولین ذمہ داری لوگوں کے مسائل کو حل کرنا ہی ہوتی ہے مگر اِس کے برعکس ترقی پذیر ممالک بشمول وطن عزیز میں نمود و نمائش کو شعار بنالیا گیا ہے یعنی لوگوں کو خوراک، صحت ، تعلیم جیسی بنیادی سہولیات میسر ہوں نہ ہوں مگر ایک جگہ سے دوسری جگہ جانے کے لیے سڑکیں ، انڈر پاس، پل ناگزیر ہوتے ہیں

کیا یہ حضرات اس حد تک ہونق ہیں کہ یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ ہم سڑکوں کو جتنا مرضی وسیع کر لیں، جتنی انڈر پاسز اور پل بنا لیں جب تک لوگوں کو وسائل انکے نزدیکی علاقوں میں مہیا نہیں ہونگے وہ بڑے شہروں کا رخ کرنا ترک نہیں کریں گے۔

کیا یہ لوگ اتنے کڑھ مغز ہیں کہ انہیں اس بات کا ادراک ہی نہیں کہ دنیا میں کہیں زرعی زمین کالونیوں اور کارخانوں کو نہیں دی جاتی اور اگر یہ ختم ہوگئی تو پاکستان کی رہی سہی اکانومی بھی برباد ہوجائے گی۔

جب میں میٹرک میں تھا تو ہمارے نصاب میں انگریزی کا ایک سبق بھی تھا، جس کی کہانی یوں ہے کہ تین بادشاہ جو کہ دوست بھی تھے اپنے اپنے ملک کی ترقی کا مقابلہ منعقد کراتے ہیں اور یہ طے پاتا ہے کہ ایک سال بعد ایک منصف سے یہ طے کرایا جائے کہ کونسا ملک زیادہ ترقی یافتہ ہے۔ ان میں سے ایک بادشاہ ہمارے  خودساختہ شاہجہاں حکمرانوں جیسا مزاج رکھتا ہے اور پورے ملک میں جابجا بلند و بالا عمارتیں  بنوا دیتا ہے جبکہ  دوسرا بادشاہ باغات کے انبار لگا دیتا ہے، یہاں تک کہ مقابلے کا دن آن پہنچتا ہے۔ ان دونوں بادشاہوں کے عوام زرد چہروں کے ساتھ اپنے بادشاہوں کا استقبال کر تے ہیں ، بالکل ویسے ہی جیسے ہم اپنے عوام کو سرکاری جلسوں میں دیکھتے ہیں۔

جبکہ تیسرا بادشاہ اس ایک سال میں عوام کی فلاح میں دل کھول کر خرچ کرتا ہے، اسکے ملک میں نہ بلند و بالا عمارتیں  اور نہ ہی دلکش باغات ہوتے ہیں مگر پھر بھی  چمک عوام کے چہروں سے عیاں ہوتی ہے۔ نتیجتا تیسرا بادشاہ مقابلہ جیت جاتا ہے۔۔۔

سمجھانے کی بات یہ ہے کہ ترقی کی بنیادی اساس عوام ہیں اور ہم اس کے ادراک کی الف سے بھی نابلد ہیں۔  اگر ان کا معیار زندگی بڑھے گا تو یہ دولت کی ریل پیل اور چمک دمک خود ہی آ جائے گی۔ لیکن ہمارا حال بھی شاید اس نواب صاحب کا سا ہے جن کے پاس رہنے کو آبائی حویلی  توموجود تھی مگر جیب میں دھیلہ تک نہ تھا  اور وہ بیچارے اپنی شان و شوکت بنائے رکھنے کیلئے سارا دن بہروپ بدل کر کبھی بھنگن تو کبھی کوچوان بنا کرتے تھے۔۔۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔