ایدھی : تو نہتا لڑ رہا ہے ...

سعید پرویز  جمعـء 31 اکتوبر 2014

پاکستان کا سب سے بڑا انسان، دنیا بھر میں گنتی کے چند بڑے انسانوں میں شامل، اپنے وطن میں لٹ گیا اور حکمران تادم تحریر بے بس و مجبور۔ مجرمانہ چپ سادھے، سیاست سیاست کھیل رہے ہیں۔ اب تو روتے اور ماتم کرتے ہی زندگی گزر رہی ہے، عرصہ دراز ہوا محرم جاتا ہی نہیں۔ اپنا ایک مصرعہ لکھ کر آگے بڑھوں گا ’’جانے کتنی کرب و بلائیں میرے شہر میں اتری ہیں‘‘

ایدھی صاحب سے میری ملاقات اوائل 2009 میں ہوئی تھی۔ یہی میٹھادر تھا اور ایدھی سینٹر۔ میرے ساتھ سابق ممبر قومی اسمبلی عبدالعزیز میمن بھی تھے۔ صبح دس بجے ہم ایدھی سینٹر میں داخل ہوئے تو سامنے ہی ایک معمولی کرسی پر ایدھی صاحب بیٹھے تھے۔ عزیز میمن صاحب نے ان سے میرا تعارف کروایا ’’یہ حبیب جالب صاحب کے چھوٹے بھائی ہیں۔‘‘ ایدھی صاحب جواباً مسکرائے۔ میں ایدھی صاحب کے لیے جالب صاحب کے پورٹریٹ کا وال کلاک لے کر گیا تھا، انھوں نے بخوشی وال کلاک قبول کیا اور اپنے ایک کارکن سے کہا اسے دیوار پر لگا دو۔ اب ایدھی بول رہے تھے اور میں ان کے بول سمیٹ رہا تھا۔

’’میری ڈیوٹی چوبیس گھنٹے کی ہے اور کوئی چھٹی نہیں ہے۔ پتا نہیں کب، کہاں میری ضرورت پڑ جائے۔ رات کو موقع ملے تو اس جنازہ ڈولی میں لیٹ جاتا ہوں۔‘‘ ایدھی صاحب نے قریب پڑی جنازہ ڈولی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ پھر بولے۔ ’’میں عزیز بھائی کی نانی کے گھر میں کرایہ پر رہتا ہوں۔ میرے بیوی بچے اس گھر میں رہتے ہیں۔‘‘ عزیز میمن نے اپنی نانی کے ذکر پر گردن جھکالی۔ یہ ایک بڑے انسان کے لیے احترام کا اظہار تھا۔ ہمیں بیٹھے آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا۔ عزیز میمن صاحب نے مجھے چلنے کا اشارہ دیا اور یوں ہم عظیم انسان سے پھر ہاتھ ملاکر رخصت ہوگئے۔ باہر آکر عزیز میمن نے مجھ سے کہا ’’سعید بھائی! ہم چاہے جتنی دیر بیٹھے رہتے، ایدھی صاحب نے ہمیں چائے تک نہیں پلانی تھی۔ ان کے پاس اپنے ذاتی پیسے نہیں ہوتے۔‘‘ پھر ہم دونوں نے میٹھادر کے ایک چائے کے ٹھیے پر کھڑے ہوکر چائے پی۔

یہ تھی عبدالستار ایدھی سے میری پہلی ملاقات کی روداد۔ وہ ایدھی جو چلتی گولیوں میں زخمیوں کو اٹھانے کے لیے میدان عمل میں کود پڑتے ہیں، چاہے ڈاکو ہو یا پولیس والا۔ ایدھی صاحب نے ہر زخمی کو اٹھانا ہے۔ مقابلے کے دونوں فریق اس بات کا لحاظ رکھتے کہ ایدھی صاحب کو گولی نہ لگ جائے۔ پتا نہیں یہ کون تھے کہ جنھیں ایدھی صاحب کو لوٹتے ہوئے ذرا خیال نہ آیا۔ سات گھر تو ڈائن بھی چھوڑ دیتی ہے۔

یہ اپریل 2009 تھا۔ میں ایک بار پھر ایدھی سینٹر میٹھادر میں موجود تھا، مگر ایدھی صاحب موجود نہیں تھے۔ یقیناً وہ مدد کی پکار پر گئے ہوئے تھے۔ سال 2009 کا حبیب جالب امن ایوارڈ ایدھی صاحب کو دیا جا رہا تھا۔ میں نے ایوارڈ قبول کرنے کا خط عملے کے حوالے کیا اور چلا آیا۔ 30 اپریل 2009 کی شام پریس کلب کراچی میں تقریب تھی۔ مجھے خوب یاد آیا۔ تقریب سے ایک دن پہلے پورا کراچی شہر گولیوں سے گونج رہا تھا۔ اس صورتحال میں ایوارڈ کی تقریب کیسے ہوگی؟ اس سوال نے مجھے گھیر رکھا تھا۔ خیر اگلا دن آگیا، شہر میں ہو کا عالم تھا۔ شہری اپنے اپنے گھروں میں قید تھے۔ میں کسی طرح پریس کلب پہنچ گیا۔

دوپہر کا ایک بج رہا تھا۔ میں نے پریس کلب سے ایدھی سینٹر فون کیا، ایدھی بول رہے تھے۔ میں نے ان سے کہا۔ ’’ایدھی صاحب! شہر کے حالات انتہا درجہ خراب ہیں۔‘‘ ایدھی صاحب نے اتنا ہی سنا اور سوال کیا ’’سعید بھائی! آپ آؤ گے؟‘‘ میں نے کہا ’’جی ہاں، میں آؤں گا۔‘‘ تو ایدھی صاحب نے کہا ’’تو سعید بھائی! آپ مجھے ایوارڈ دینا اور میں ایوارڈ وصول کروں گا۔‘‘ عظیم انسان محض دو افراد کی تقریب میں بھی آنے کو تیار تھا۔ حالات کتنے ہی خراب کیوں نہ ہوں، ایدھی، ایدھی صاحب ہیں۔

اس شام ملک بھر سے لوگ ایدھی کے لیے مدعو تھے اور حالات کی پرواہ کیے بغیر سب آگئے تھے۔ جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم صدر جلسہ تھے اور مقررین میں سینیٹر میر حاصل بزنجو، سینیٹر رضا ربانی، سینیٹر مشاہد اللہ خان، موجودہ صدر ممنون حسین، بیرسٹر اقبال حیدر مرحوم، مزدور رہنما عثمان بلوچ، محبان جالب جان ہتھیلی پر رکھ کے پریس کلب پہنچے تھے۔ ایوارڈ وصول کرنے کے بعد ایدھی صاحب نے لکھی ہوئی تحریر پیش کی۔ جسے ان کے نواسے نے پڑھا اور ایدھی صاحب روسٹرم پر موجود تھے۔ تحریر ملاحظہ ہو:

’’معزز حاضرین! سب سے پہلے تو میں حبیب جالب امن کمیٹی کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انھوں نے مجھے سال 2009 کے حبیب جالب امن ایوارڈ کے لیے منتخب کیا۔ عام طور پر اب میں اپنے کام کی مصروفیات اور بیماری کی وجہ سے ایوارڈ لینے کہیں نہیں جاتا، لیکن آج میں یہ ایوارڈ وصول کرنے اس لیے آیا ہوں، کیونکہ ہم دونوں کے نظریات ایک ہیں، جس کی وجہ سے میں اسے پسند کرتا تھا اور وہ مجھے۔ جالب سے میرا تعارف اس وقت ہوا جب وہ کراچی میں 1964 کے ایک جلسے (نشتر پارک) میں اپنی نظم دستور پڑھ رہے تھے اور لوگ پرجوش ہوکر ان کو داد دے رہے تھے۔ جالب اپنی شاعری کے ذریعے سماج میں ہونے والے ظلم کو بے نقاب کرتا رہا۔ جہاں کہیں بھی اس نے بے انصافی دیکھی، شاعری کے ذریعے اپنی آواز بلند کی۔ مجھے یاد ہے کہ عوام جلسوں میں لیڈروں کی لچھے دار تقریروں کی بجائے اسے سننے آتے تھے۔

میں سیاست دان نہیں ہوں اور نہ میرا سیاست سے کوئی واسطہ ہے۔ ایک سماجی کارکن ہونے کے ناتے گزشتہ 62 سال (اب 67سال) سے معاشرے میں ہونے والی ناانصافیوں اور ظلم کے خلاف آواز بلند کر رہا ہوں، کیونکہ میرے سامنے انسانیت ننگی ہوجاتی ہے۔ ایک ماں اپنے بچے کے علاج کے لیے جسم بیچنے پر مجبور ہوجاتی ہے، لاکھوں لوگ بھوک اور علاج نہ ہونے کی وجہ سے موت کا شکار ہوجاتے ہیں، ایک طرف ملک کے 95 فیصد عوام ہیں جو مسلسل بے وقوف بنائے جا رہے ہیں، اور دوسری طرف 5 فیصد وہ جاگیردار، سرمایہ دار اور لٹیرے ہیں جو آپس میں ایک ہیں اور عوام کو لوٹ رہے ہیں، اسمبلیوں اور سینیٹ میں یہی لوگ یا ان کی اولاد منتخب ہوکر جاتی ہیں، ملک میں ہر سطح پر کرپشن ہے، سرمایہ دار صرف 10 فیصد ٹیکس دیتا ہے، غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے دہشت گردی جنم لے رہی ہے۔ آپس میں نفرتیں پیدا کی جا رہی ہیں، ہر آغاز کا انجام ہوتا ہے۔ اب یہ نظام تباہی کے دہانے پر کھڑا ہے، آیندہ آنے والے وقت میں مجھے خونی انقلاب کے آثار نظر آرہے ہیں، کیونکہ اس کے سوا نجات کا کوئی اور راستہ نہیں۔‘‘

آخر میں جالب کا ایدھی صاحب کے لیے خراج تحسین:
عبدالستار ایدھی
یہ جو تو چمکا رہا ہے، آنسوؤں سے رات کو
فرق کیا پڑتا ہے پیارے جگنوؤں سے رات کو
اہل تیشہ لائے جاتے ہیں مسلسل جوئے شیر
خسرواں مہکا رہے ہیں گیسوؤں سے رات کو
خود مسلح اور ان کی پشت پر ہیں مقتدر
تو نہتا لڑ رہا ہے ڈاکوؤں سے رات کو
رات کا جڑ سے اکھڑنا ہی علاج درد ہے
کر سپرد خاک لاکھوں بازوؤں سے رات کو

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔