میر انیس کا کلام ، اصناف شاعری کا بہترین نمونہ

نجمہ عالم  جمعـء 31 اکتوبر 2014
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

مرثیہ کا آغاز عرب کی سرزمین پر ہوا۔ اگر یہ کہا جائے کہ عربی شاعری کا آغاز ہی مرثیے سے ہوا تو کچھ غلط نہ ہوگا۔ دور جہالت میں عربی مرثیہ خاصی ترقی کرچکا تھا۔ فارسی سے ہوتا ہوا مرثیہ اردو میں داخل ہوا۔ برصغیر میں اردو شاعری کی ابتدا ولی دکنی سے منسوب ہے لیکن ان کے کلام میں مرثیے کا پتا نہیں چلتا البتہ ایک مثنوی واقعات کربلا پر ضرور لکھی۔ یقینی طور پر یہ کہنا مشکل ہے کہ اردو میں مرثیے کا آغاز کب اور کس نے کیا؟ مگر یہ طے ہے کہ میر و سودا سے قبل مرثیہ رائج ہوچکا تھا۔ ہمارا موضوع فی الحال مرثیے کی تاریخ نہیں بلکہ اردو شاعری میں مرثیے کی افادیت اور میر انیس کے کلام کا جائزہ ہے۔

مرثیہ دراصل اردو شاعری کی تقریباً تمام اصناف بلکہ اردو ادب کی بھی کئی اصناف کا احاطہ کرتا ہے۔ مرثیہ سے قبل اردو شاعری میں رزمیہ شاعری کا جو فقداں تھا مرثیہ نے اس کمی کو پورا کردیا۔ مرثیہ میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں جو ادب کی دیگر اصناف میں پائی جاتی ہیں۔ مثلاً واقعہ، کردار نگاری، منظر کشی، کشمکش، مکالمہ، حالات و ماحول کی عکاسی۔ جہاں تک ہیئت کا تعلق ہے تو مختلف ادوار میں مرثیہ کی ہیئت تبدیل ہوتی رہی ہے ابتدا میں مثنوی تو کبھی چو مصرع کبھی مخمس اور پھر مسدس کی شکل میں مرثیہ لکھا گیا۔ گمان غالب ہے کہ مسدس کی ہیئت سب سے پہلے سودا نے اختیار کی۔

اس مختصر سے تعارف کے بعد ہم میر انیس کی طرف آتے ہیں جن کا یہ مصرعہ خاصی شہرت رکھتا ہے ’’پانچویں پشت ہے شبیر کی مداحی میں‘‘ جو یہ ثابت کرتا ہے کہ میر انیس کے پردادا میر صاحب نے بھی مرثیہ لکھا تھا۔ ان ہی کے خاندان میں میر حسن اور میر خلیق بھی مرثیہ گو شاعر کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ مگر انیس نے صنف مرثیہ کو بام عروج پر پہنچا دیا۔ میر انیس کے زمانے تک اردو خاصی نکھر اور سنور چکی تھی۔ میر انیس کے کلام میں فصاحت و بلاغت کا بطور خاص ذکر کیا جاتا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اس کے علاوہ بھی دوسرے شاعرانہ لوازمات کے برمحل استعمال نے کلام انیس کو عجیب حسن و شہرت عطا کی جس کی اب تک کوئی مثال پیش نہ کرسکا۔ انیس نے مرثیہ کو اردو شاعری کی ایک مقدس و معتبر صنف کے طور پر پیش کیا۔

شاعری کسی بھی زبان کی ہو جس میں اردو بھی شامل ہے انسانی جذبات و احساسات کی ترجمان مرثیہ کسی بھی المناک حادثے، موت کسی دور زریں یا تہذیب، شہر یا حکومت کی بربادی پر بھی کہا جاتا ہے اور کہا بھی گیا ہے مگر انیس کے مرثیے کیونکہ واقعات کربلا، امام حسین ؓ اور ان کے رفقا کی شہادت اور ان کے پس منظر و پیش منظر لکھے گئے ہیں اس لیے ان کی شہرت و مقبولیت کے باعث اب اردو ادب میں لفظ ’’مرثیہ‘‘ واقعات کربلا کے لیے مخصوص ہوکر رہ گیا ہے۔

مرثیے میں کیونکہ تمام اصناف ادب کی خصوصیات پائی جاتی ہیں تو جب ہم میر انیس کے کلام کا مطالعہ کرتے ہیں تو ان کا مقام مرثیہ نگاری میں متعین کرنے کے لیے کچھ ایسی خصوصیات کو مدنظر رکھتے ہیں کہ جن کی بنا پر وہ ایک باکمال، منفرد اور تمام مرثیہ گویوں میں اعلیٰ مقام کے حامل قرار پائیں۔ کسی بھی فن پارے کے متعلق فیصلہ کرنے کے کچھ بنیادی اصول ہوتے ہیں جن کے مکمل یا نامکمل ہونے پر فن پارے یا تحریر کو اعلیٰ و ادنیٰ قرار دیا جاتا ہے نقادان فن اس سلسلے میں دو چیزوں کو اہم قرار دیتے ہیں ایک تو اس کا مقصد دوسرا انداز بیاں (اشعار و ادب میں دیگر فنون لطیفہ کو پیش کرنے کا انداز) جب میر انیس کے کلام کو ان دونوں اصولوں پر پرکھا جاتا ہے تو ظاہر ہے کہ دونوں ہی لحاظ سے ان کا کلام اعلیٰ معیاری ہی نہیں بلکہ مرثیہ نگاری اور اردو شاعری میں شاہکار کا درجہ رکھتا ہے۔

مرثیہ کا مقصد عالم اسلام کی ایک مقدس ہستی کے عظیم الشان کارنامے کے ذریعہ اسلامی معاشرے کی نہ صرف عکاسی کرنا بلکہ پورے معاشرے کی اصلاح بھی ہے، جہاں تک انداز بیاں کا تعلق ہے تو اس سلسلے میں خواجہ الطاف حسین حالی کا کہنا ہے کہ ’’میر انیس کا کلام تمام اصناف شاعری کا بہترین نمونہ ہے۔‘‘ فصاحت و بلاغت کی بے شمار مثالیں کلام انیس سے پیش کی جاسکتی ہیں مگر اس کے لیے کالم نہیں ایک مکمل مضمون بلکہ مقالے کی ضرورت پیش آئے گی اس لیے صرف ایک مثال دے کر آگے چلتے ہیں۔ امام عالی مقام سے لشکر یزید کے کسی فرد نے جب آپ کا نام و نسب پوچھا تو جو جواب امام نے دیا اس کو انیس نے کس بلاغت سے ادا کیا:

یہ تو نہیں کہا کہ شہ مشرقین ہوں میں
مولا نے سر جھکا کے کہا میں حسینؓ ہوں

استعارہ و تشبیہہ کی اردو شاعری میں بڑی اہمیت ہے۔ بقول حالی یہ حسن کلام کا زیور ہے۔ انیس کے یہاں تشبیہات اس درجہ کمال پر ہیں کہ اگر وہ کسی صورتحال کو مدنظر رکھ کر تشبیہہ دیں تو موقع و محل کا پورا پورا ادراک پڑھنے والے کے ذہن کو ہوجاتا ہے مثلاً حضرت عباس کے دوران جنگ دونوں ہاتھ قلم ہوچکے تو انھوں نے پانی سے بھری مشک جس کو وہ ہر صورت خیام تک پہنچانا چاہتے تھے کو اپنے دانتوں سے پکڑا اور سینے کو سپر کرتے ہوئے خیموں کی جانب بڑھتے رہے اس صورتحال کی تشبیہہ کس انداز کی دی گئی ہے۔ مشکیزہ تھا کہ شیر کے منہ میں شکار تھا۔ اس تشبیہہ سے نہ صرف صورتحال واضح ہوئی بلکہ حضرت عباس کی شجاعت اور ہمت و جرأت بھی سامنے آگئی۔

ایک دوسری جگہ دشمن کے مقام کو کمتر بیاں کرنے کے لیے جو تشبیہہ دی گئی ہے وہ اس کی بدہیئتی کو اجاگر کرتی ہے:

کہتی تھی زرہ بدن بدخصال میں
پکڑا ہے فیل مست کو لوہے کے جال میں
یا یہ منظر کہ:
کھا کھا کے اوس اور بھر سبزہ ہرا ہوا
تھا موتیوں سے دامن صحرا بھرا ہوا

ایسی بے شمار دلکش تشبیہات کلام انیس میں مل جائیں گی مگر سب کو بیان کرنا باعث طوالت ہوگا۔ احساسات و جذبات کی عکاسی شاعر کا وہ کمال ہے کہ جس کے بغیر کلام الفاظ کا مجموعہ تو ہوسکتا ہے مگر شاعری نہیں، کیونکہ شاعری دراصل ہے ہی انسانی احساسات و جذبات اور کیفیات کے اظہار کا نام۔ مادی اشیا کی منظر کشی سے زیادہ اہم اور نازک مرحلہ انسانی جذبات کی عکاسی ہے، اشیا کی منظر کشی اس لیے مشکل نہیں کہ یہ چیزیں انسانی آنکھ کو نظر آتی ہیں ان کے وجود سے وہ واقف ہے۔

مگر دوسروں کے جذبات و احساسات داخلی کیفیات کو اس انداز سے بیاں کرنا کہ پڑھنے والے کے دل پر وہی اثر ہو جوکہ متاثرہ شخص پر گزری ہو یہی شاعری کا کمال ہے اور میر انیس اس سلسلے میں بھی بے مثال ٹھہرے۔امام عالی مقام عازم سفر ہیں اور آپ کی صاحبزادی صغریٰ شدید بیمار ہیں جس کی وجہ سے وہ ساتھ نہیں جاسکتیں۔ اس وقت حضرت صغریٰ کی جو کیفیت ہے وہ انیس نے کئی مرثیوں میں بیان کی ہے صرف ایک دو مثالیں پیش کروں گی مثلاً:

مرجاؤں گی بچھڑی جو مسیح دوسرا سے
صحت مجھے ہوجائے گی حضرت کی دعا سے
یا یہ کہ:
بے آپ کے اس گھر میں نہ یا شاہ رہوں گی
اچھا میں کنیزوں ہی کے ہمراہ رہوں گی

حضرت علی اکبر کی شہادت کے بعد امام خیمے میں آ کر اپنی بے کسی کس طرح بیان کرتے ہیں:
سر تھا حسینؓ بے کس و تنہا کی گود میں
بیٹے کی جان نکلی ہے بابا کی گود میں

جب امام حسین خود میدان جنگ میں جانے لگتے ہیں تو آپ کی عاشق بہن حضرت زینب حسرت سے فرماتی ہیں:
بے کس کو آسرا ہے پسر کا نہ بھائی کا
آقا یہی تو وقت ہے مشکل کشائی کا

مناظر فطرت کی تصویر کشی بھی کلام انیس میں بے مثال ہے مثلاً:
خواہاں تھے آل فاطمہ زہرا جو آب کے
شبنم نے بھر دیے تھے کٹورے گلاب کے

یہی نہیں بلکہ طلوع سحر کا منظر اور شدت کی گرمی کی منظر کشی بھی اس قدر عمدگی سے کی گئی ہے کہ بے اختیار داد دی جائے گرمی کی شدت کا بیاں ملاحظہ ہو:
گرمی سے مضطرب تھا زمانہ زمین پر
بھن جاتا تھا جو گرتا تھا دانہ زمین پر

صبح کا سماں اس طرح بلکہ کئی خوبصورت انداز میں پیش کیا ہے۔ یہاں سب کا لکھنا مناسب نہیں صرف ایک بند بطور مثال پیش ہے:
چھپنا وہ ماہتاب کا وہ صبح کا ظہور
یاد خدا میں زمزمہ پردازی ظہور
وہ رونق اور وہ سرد ہوا‘ وہ فضا وہ نور
خنکی ہو جس سے چشم کو اور قلب کو سرور
انساں زمیں پہ محو‘ ملک آسمان پر
جاری تھا ذکر قدرت حق‘ ہر زبان پر

کلام انیس کے محاسن کا مکمل احاطہ کرنا ایک طویل کام ہے مگر یہ کہنا بھی کافی ہے کہ اردو شاعری میں میر انیس ایک بے مثال شاعر کا درجہ رکھتے ہیں اور شاعرانہ کمالات سے ان کی شاعری نہ صرف مزین ہے بلکہ قاری کے لیے باعث تمانیت و حیرت بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔