(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - لڑکی پر جنات کا قبضہ ہے

شہباز علی خان  جمعـء 31 اکتوبر 2014
س نے ایک دم سے چیخنا شروع کر دیا اور گھر کی چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکنا شروع کر دیں۔ فوٹو اسٹاک امیجز

س نے ایک دم سے چیخنا شروع کر دیا اور گھر کی چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکنا شروع کر دیں۔ فوٹو اسٹاک امیجز

وہ دونوں مٹھائی کا ڈبہ تھامے میرے گھر کے باہر کھڑے تھے اور ایسا گزشتہ دو سالوں سے ہو رہا تھا جب بھی کوئی تہوار آتا وہ دونوں مٹھائی لئے میری طرف آتے ،میں انہیں ہر بار منع کرتا اور وہ ہر بار وعدہ کرتے کے اگلی بار ایسا نہیں ہوگا مگر پھر وہ اپنا وعدہ بھول جاتے اور میں بھی ان کی خوشی کی خاطر چپ ہو جاتا۔

میں ایک مقامی بنک کی اسپتال میں واقع برانچ میں جاب کرتاتھا ،اسی دوران میری ملاقات ذہنی امراض کے ایک ڈاکٹر سے ہوئی جو دوستی میں بدل گئی۔ وہ ایک آرکیالوجسٹ بننا چاہتا تھا مگر والدین کے زور دینے پر میڈیکل میں دھکیل دیا گیا ،اب بھی جب وہ اس خواہش کا اظہار کرتا تو اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سی اداسی ہوتی تھی ایک دن باتوں باتوں میں کہنے لگا کہ جب تک وہ میڈیکل میں نہیں آیا تھا اس وقت تک جنات کے معاملات پر اس کانقطہ نظر مختلف تھا ، اور اب مزید بدل گیا ہے۔

پھر اس نے مجھ سے ایک 19 سالہ لڑکی کا کیس بیان کیا،جو اس کی وارڈ میں کچھ دن پہلے ہی داخل ہوئی تھی اور جنات نکالنے والے ماہر علمیات و جنات کے بد ترین تشدد کا نشانہ بھی بنی تھی، اسی چکر میں اس کے والدین اچھے خاصے مقروض ہونے کے با وجود ابھی بھی بضد تھے کہ معاملہ جنات کا ہے اور ان کے مخالفین رشتہ داروں کا سارا کیا دھرا ہے، وہ لوگ زبردستی ایک شخص کے کہنے پر لڑکی کو اسپتال تو لے آئے مگر لڑکی ابھی تک تشدد کے ان اثرات سے باہر نہیں نکلی جو عملیات والے اس پر کرتے رہے ہیں۔ مجھے اس کیس میں بہت دلچسپی محسوس ہوئی اور میں نے اپنے دوست سے کہا کہ کیا میں اسے دیکھ سکتا ہوں ؟ اگلے دن صبح میں اس وارڈ میں تھا جہاں اس کی والدہ بھی ایک بنچ پر بیٹھی تھی اور لڑکی کو پٹی سے بیڈ سے باندھا ہوا تھا کیونکہ وہ ایک دم سے اٹھ کر باہر بھاگتی تھی۔

میرے اس ڈاکٹر دوست نے اپنی ایک کولیگ ڈاکٹر فضیلہ جو کہ سائیکالوجسٹ تھی کو اس کیس میں شامل کیا اور اس نے کچھ دنوں بعد جو بھید کھولا وہ یہ تھا کہ یہ لڑکی ایک لڑکے کو پسند کرتی ہے وہ ڈرتی تھی کہ اگر اس نے اپنے والدین سے بات کی تو وہ انکار کر دینگے کیونکہ خاندان سے باہر شادی کا سوچنا بھی گناہ تصور کیا جاتا تھا۔ اسی دوران اس کی والدہ نے اس کے لئے رشتہ دیکھنا شروع کردیا اور جب لڑکی کو یہ بات پتہ چلی تو وہ پریشان ہو گئی، جب بھی رشتہ دیکھنے کے لئے کوئی فیملی آتی تو اس نے ان کے سامنے عجیب حرکتیں شروع کر دی، نتیجہ وہ لوگ انکار کر کے چلے گئے، اور ان کے جائے کے بعد والدہ کی کمر کس لی اسے خوب مارا، جواباَ اس نے ایک دم سے چیخنا شروع کر دیا اور گھر کی چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکنا شروع کر دیں۔

اس کا یہ عمل اس کے گھر والوں کے لئے حیرت کا باعث تھا کیونکہ اس سے پہلے تو اس نے کبھی اونچی زبان میں بات تک نہیں کی تھی۔ سارے خاندان میں اب یہ مشہور ہو گیا کہ لڑکی پر جنات کا قبضہ ہے۔ اس کے بعد اسے جنات نکالنے والے حضرات کے پاس لے جایا گیا جن میں سے بعض تو اسے شاطر تھے کہ انہوں نے سیدھا سوال کیا کہ اگرپسند کی شادی کا معاملہ ہے تو وہ اس کی مدد کریں گے مگر اسے ان کی جنسی خواہش پورا کرنا ہوگی۔ ایک بار تو اس نے ایک بندے کی خوب پٹائی کی کہ وہ بھاگتا ہوا اس کے ابا کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ جن بہت طاقتور ہے اس کے قابو میں نہیں آتا ، لے جاؤ اپنی بیٹی کو۔

خیر قصہ مختصر ہم تینوں نے ایک پلان تیار کیا اور پہلے اس لڑکے سے ملے اور پھر ایک “ماہر جنات” (ڈاکٹر فضیلہ) کو بیچ میں ڈالا کیونکہ ہماری بات تو کسی نے ماننی نہیں تھی اور ڈرامائی انداز سے ان دونوں کی شادی کروائی۔ اب تو آپ سمجھ گئے ہونگے کہ وہ کیوں ہر عید شب برات پر مٹھائی لے کر آتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ والدین سے بڑھ کر اولاد کا خیر خواہ کوئی اور نہیں ہو سکتا مگر زندگی کے کچھ فیصلوں پر اولاد سے بھی اگر مشورہ کر لیا جائے تو ہو سکتا ہے ان سے آپ کا سر بھی فخر سے بلند ہو جائے اور وہ انہیں بھی ایک پرسکون زندگی حاصل ہو جائے ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

شہباز علی خان

شہباز علی خان

آپ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹر ہیں، اور فری لانس رائٹر کے طور پر کام کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔