چیف الیکشن کمشنر تقرری، انا کا مسئلہ کیوں؟

ایڈیٹوریل  جمعـء 31 اکتوبر 2014
اعتزاز احسن نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تقرری پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔  فوٹو فائل

اعتزاز احسن نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تقرری پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔ فوٹو فائل

سپریم کورٹ نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری میں مہلت کے لیے اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی درخواست خارج کردی اور قرار دیا کہ 13 نومبر تک عہدے پر تقرر نہ ہونے کی صورت میں قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کو واپس بلا لیا جائے گا، عدالت نے حلقہ بندیوں کے لیے الیکشن کمیشن کو 9 ماہ کا وقت دینے کی استدعا بھی مسترد کردی، چیف جسٹس ناصرالملک کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ نے مقدمے کی سماعت کی۔ اپوزیشن لیڈر خورشید شاہ کی جانب سے اعتزاز احسن اور رضا ربانی پیش ہوئے، اعتزاز احسن نے  دلائل دیے۔

ملک میں ایک خودمختار، باوقار اور آزاد چیف الیکشن کمشنر کی تقرری نہ صرف آئین کی شرط ہے بلکہ ایک جمہوری ملک کو، جس کے اہل اقتدار اور حکومتی قبیلہ کی زبان جمہوریت کی مالا جپتے نہیں تھکتی چیف جسٹس کو یہ کہنے پر مجبور کرنا درد انگیز حقیقت اور جمہوریت دوستی کی نفی ہے کہ ’’عہدہ ایک سال سے خالی ہے، سپریم کورٹ کے جج بطور قائم مقام ذمے داریاں ادا کر رہے ہیں جس کی وجہ سے الیکشن کمیشن میں کوئی مستقل پالیسی نہیں بن پا رہی اور دونوں اداروں میں کام بھی متاثر ہو رہا ہے، ایک سال میں مشاورت مکمل کیوں نہیں کی گئی، عدالت نے فروری میں بھی تقرری کا حکم دیا، اس پر عمل کیوں نہیں ہوا، اصلاحاتی کمیٹی تو ابھی بنی ہے، اس سے قبل اتنا عرصہ آپ کے موکل کیاکر رہے تھے، اصلاحاتی پیکیج لانے کے لیے تو سالہا سال درکار ہوں گے۔‘‘

اس پورے عرصے میں چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے بجائے لیت و لعل، ٹال مٹول یا سیاسی صورتحال کی ابتری کو بطور عذر پیش کرنا افسوس ناک ہے۔ دوسری طرف دیکھا جائے تو اس اہم عہدہ کی تقرری کی پیش قدمی بھی قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کی طرف سے ہوئی، جب کہ خورشید شاہ کے  وکیل کی دلیل کو مدنظر رکھا جائے تو اولین پیش رفت وزیراعظم یا ان کے آئینی و قانونی ماہرین اور وکلا کی طرف سے ہونی چاہیے تھی جس سے قوم کو یہ اطمینان بھی ہوجاتا کہ حکومت انتخابات کے شفاف، منصفانہ اور آزادانہ ہونے کو یقینی بنانے کے لیے خصوصی دلچسپی لے رہی ہے۔ مگر معاملہ دیگر سیاسی فیصلوں کی طرح تساہل، سست روی اور تاخیری ہتھکنڈوں کی صورت اختیار کرگیا۔ کسی بھی ذی شعور پاکستانی کو ملکی حالات کی اندوہ ناکی پر شک نہیں مگر سوال یہ ہے کہ چیف الیکشن کی تقرری کو موخر کرتے ہوئے ’’غالب خستہ کے بغیر کون سے کام بند ہیں؟‘‘ قومی اسمبلی میں خورشید شاہ نے یہ موقف اختیار کیا کہ الیکشن کمشنر کی تقرری کے معاملہ پر سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں حکومت کی پوری مرضی شامل تھی، مگر عدالت میں ساتھ نہیں دیا۔

تاہم انھوں نے امید ظاہر کی ہے کہ چیف الیکشن کمشنر کا فیصلہ 16 نومبر سے پہلے ہوجائے گا، لیکن وزیراعظم ہمیں 3 نام بھیجیں، پارلیمنٹ میں اس حوالے سے تمام اپوزیشن جماعتوں سے فوری مشاورت ہوگی۔ لفظ مشاورت پر بھی عدلیہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کرتے ہوئے یہ فکر انگیز نکتہ اٹھایا کہ آپ کے پاس عدالت کے نوٹس پر حکومت کا کیا جواب ہے تو ان کا معنی خیز جواب یہ تھا، چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے لیے وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف میں مشاورت ضروری ہے، جس چیف جسٹس نے قرار دیا کہ مشاورت الگ چیز ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدلیہ نے چیف الیکشن کمشنر کی تقرری  کی ضرورت پر یاد دلایا کہ یہ معاملہ اگست 2013 سے اسی طرح چل رہا ہے، اور تاحال چیف الیکشن کمشنر کی تقرری عمل میں نہیں آئی، ایک سال گزر گیا۔ یہاں بیرسٹر اعتزاز احسن کے اس نکتہ پر بھی عدلیہ یقیناً غور کرے گی جس میں انھوں نے کہا کہ گذشتہ دو ماہ میں پارلیمنٹ کے اندر اور باہر  کے معاملات غیر یقینی رہے ہیں ، جامع مشاورت ضروری ہے اور ہوسکتا ہے کہ آئین میں اس کے لیے طریقہ کار بھی  شاید تبدیل کردیا جائے۔ اعتزاز احسن نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ تقرری پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے۔

اس وجہ سے تمام جماعتوں کو اعتماد میں لیا جارہا ہے جس کے لیے وقت درکار ہے۔ چیف الیکشن کمشنر کی تقرری کے مسئلہ کے علاوہ جہاں الیکشن اصلاحات کا عمل بھی جاری نظر آتا ہے جن کی منظوری کی صورت میں چیف الیکشن کمشنر کا عہدہ اور بھی اہمیت اختیارکرجائے گا، وہاں حلقہ بندیوں سمیت مردم شماری اور ووٹنگ کے طریقہ کار کے معاملات بھی الیکشن کمیشن کے ایجنڈے میں شامل ہیں۔ عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ انھیں حکومت کی جانب سے کوئی ہدایات نہیں ملیں۔چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مشاورت اور انتخابی اصلاحات دو الگ الگ چیزیں ہیں، یہ آئینی عہدہ ہے اور تقرری بھی آئینی تقاضا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ملک میں رائج قوانین کے تحت ہی چیف الیکشن کمشنر کا تقرر کیا جائے اور جب انتخابی اصلاحات ہوں گی تو اس وقت دیکھا جائے گا۔ عدالت نے اٹارنی جنرل سے استفسارکیا کہ کیا وزیراعظم کو بھی مشاورت کے لیے وقت چاہیے۔

جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت عدالتی حکم پر عمل درآمد کرے گی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اٹارنی جنرل کے بیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیراعظم کو مشاورت کے لیے وقت درکار نہیں۔بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے پنجاب اور سندھ کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرلز پیش ہوئے اور عدالت کو بتایا کہ حلقہ بندیوں کا اختیار الیکشن کمیشن کو دینے سے متعلق بل صوبائی اسمبلیوں نے منظور کرلیے ہیں، انھوں نے بلوں کی نقول بھی عدالت میں پیش کیں۔ سیکریٹری الیکشن کمیشن اشتیاق احمد نے بتایا کہ انھوں نے 45 روز میں حلقہ بندیاں مکمل کرنے کے فیصلے پر نظرثانی کی 2 درخواستیں کر رکھی ہیں، حلقہ بندیاں مکمل کرنے کے لیے 6 سے 9 ماہ کا وقت درکار ہے، اس سلسلے میں سندھ اور پنجاب کے الیکشن کمشنرز سے مشاورت کی گئی ہے، عدالت نے ان کی استدعا مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت زیادہ وقت ہے، اس موقع پر آپ کی درخواست منظور نہیں کی جاسکتی۔

چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ یکم دسمبر تک بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کے متعلق بنیادی اقدامات کی رپورٹ جمع کرائی جائے، اس کی روشنی میں مزید وقت دینے کا فیصلہ کیا جائے گا۔ اس سارے منظرنامہ میں ایک طرف حکومت اور اپوزیشن کے مابین ’’چاک دامانی اور پاک دامنی‘‘ کے شور سے فضا دھواں دھواں ہے، جب کہ وقت آگیا ہے کہ آئینی اور جمہوری اداروں کی تقدیس اور وقار سے کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے، دنیا بھر میں الیکشن ہوتے ہیں، ان کے چیف الیکشن کمشنر کو  دیانتداری، خود مختاری اور آزادی کے اعتبار سے جو احترام حاصل ہے ہمارے حکمرانوں کو وہی مثال اس مملکت خداداد میں بھی قائم کرنی چاہیے اور عدالت عظمیٰ کے احکامات کے مطابق چیف الیکشن کمشنر کی اتفاق رائے سے تقرری میں دیر نہیں لگانی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔