داعش کی حقیقت (آخری حصہ)

صابر کربلائی  ہفتہ 1 نومبر 2014

’’ہم اسلامی نظام کی اس عمارت کو اپنی لاشوں پر تعمیر کریں گے اور اس میں حدود الٰہی جاری کرکے شریعت اسلامی کے احکام نافذ کریں گے تاکہ ایک بار پھر اس زندگی اور اسلام کا مزہ چکھ لیں، ہم اپنے پروردگار سے عہد و پیمان کرتے ہیں کہ اس کے اوامر کی اطاعت کریں گے اور جس چیز سے ہمیں پرہیز کرنے کو کہا گیا ہے اس سے دوری اختیار کریں گے۔‘‘

یہ عبداللطیف موسیٰ کے خطبہ کا ایک اقتباس ہے، جو اس نے جمعہ 14 اگست 2009 کو غزہ پٹی کے جنوب میں واقع شہر رفح کی مسجد ابن تیمیہ میں بیان کیا ہے۔ عبداللطیف موسیٰ جو ’ابوالنور المقدسی‘ کے نام سے مشہور تھا، نے ایک ایسی حالت میں ’’الامارہ الاسلامیہ فی اکناف بیت المقدس‘‘ کی موجودگی کا اعلان کیا اور خود کو اس کے پہلے امیر کے عنوان سے پیش کیا جب کہ ’جند انصار اللہ‘ نامی انتہاپسند مسلح اور سیاہ پوش جنگجو اس کے منبر کے دونوں طرف کھڑے تھے۔

جند انصار اللہ ایک انتہاپسند تحریک تھی، جس کی موجودگی کا اعلان 2008 میں غزہ پٹی کے شہر رفح میں کیا گیا۔ اس تحریک نے اسرائیل کے ساتھ غزہ پٹی کی 22 روزہ جنگ کے دوران اعلان کیا کہ جس طرح صہیونی کافر ہیں، اسی طرح حرکت مقاومت اسلامی (حماس) بھی کافر ہے اور اس لحاظ سے ان دو کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔

جند انصار اللہ کا حماس کی تحریک کے ساتھ دشمنی کا بہانہ ان کا شریعت اسلامی کو نافذ کرنے کا دعویٰ تھا اور جند انصار اللہ نے حماس پر اس سلسلے میں سہل انگاری اور آرام طلبی کا الزام لگایا اور کہا کہ حماس سیکولر حکومتوں کے مشابہ بن گئی ہے۔ ان اختلافات کی وجہ سے ان کے درمیان مسلح لڑائی بھی چھڑ گئی اور جولائی 2009 میں پہلی بار حماس کی پولیس اور جند انصار اللہ کے چند اراکین کے درمیان مڈبھیڑ ہوئی۔ اگرچہ جند انصار اللہ نے اسرائیل کے خلاف محدود پیمانے پر چند کاروائیاں بھی کیں اور انھوں نے ان کارروائیوں میں شکست کھائی، لیکن دوسری جانب انھوں نے فحاشی کو روکنے کے بہانے انٹرنیٹ کیفے جیسے بعض عمومی اماکن میں بم کے دھماکے کیے۔

اس گروہ کی طرف سے عبداللطیف موسیٰ کی قیادت میں اسلامی نظام کی تشکیل کے اعلان کے ضمن میں، ان کے حامیوں نے شہر رفح کی مسجد ابن تیمیہ کو اپنی مسلح سرگرمیوں کے مرکز میں تبدیل کیا اور بارودی سرنگوں اور دوسرے اسلحوں سے لیس ہو کر مسجد کے اندر مورچے سنبھالے۔ حماس نے ردعمل کے طور پر مسجد ابن تیمیہ کا محاصرہ کرکے جند انصار اللہ کے ارکان کو ہتھیار ڈال کر اپنے آپ کو حماس کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا، لیکن انھوں نے اس سے انکار کیا۔ حماس نے عزالدین قسام بریگیڈ کی ایک نامور شخصیت محمد جبریل الشمالی کی ثالثی کے ذریعے مذکورہ مسلح گروہ کو سمجھانے کی کوشش کی۔

محمد جبریل مذاکرہ کرنے کی غرض سے مسجد میں داخل ہوئے، لیکن اس انتہا پسند گروہ نے انھیں گولی مارکر قتل کردیا۔ سات گھنٹے کی دو طرفہ شدید گولہ باری کے نتیجے میں مسجد مسمار ہوگئی اور مسجد کے اندر مورچہ سنبھالے ہوئے جند انصار اللہ کے تمام اراکین قتل ہوگئے۔

اس لڑائی میں عبداللطیف موسیٰ بھی اسی گروہ کے ایک رکن کے خودکش حملے کے نتیجے میں مارا گیا۔ یہ واقعہ حماس کے انتہاپسند جہادی گروہ کے ساتھ اختلافات کے عروج کا سبب بنا۔ انتہاپسند تنظیمیں اس واقعے کو ’’مجاہدین کے قتل عام‘‘ کے عنوان سے یاد کرتی ہیں، جن کے ساتھی اس وقت عراق، صومالیہ اور افغانستان میں برسر پیکار تھے۔ برسوں کے بعد شام کے بحران میں داعش کی مداخلت کے نتیجے میں غیر ملکی جنگجوؤں کی ایک بڑی تعداد ان سے جاملی، جو معدودے چند انتہاپسند فلسطین سے داعش کے ساتھ ملے، انھوں نے اپنے لیے ’’ابوالنور المقدسی بریگیڈ‘‘ کا نام منتخب کیا۔

حماس اور انتہاپسند تحریکوں کے درمیان اختلاف کی وجہ ان دو تحریکوں کی فکری مبانی کا سرچشمہ ہے۔ حماس، فلسطین میں اخوان المسلمین کی تحریک کی شاخ شمار ہوتی ہے اور اگرچہ سلفی رجحانات اور مسلح جہاد کا اعتقاد رکھنے کے لحاظ سے جہادی تحریکوں کے مشابہ ہے، لیکن اس تحریک کے اسلحے کا نشانہ صہیونی دشمن ہیں۔ ستم ظریفی کا مقام ہے کہ آج انتہاپسند جہادی تحریک کا اصلی حصہ، کفار سے مبارزہ اور جہاد کرنے کا قائل ہونے کے بجائے اپنے زعم کے مطابق شرک و فساد سے امت اسلامیہ کو پاک کرنا واجب جانتا ہے۔

اسی لیے یہ لوگ اس وقت تک اسرائیل سے جہاد کرنے کے سلسلے میں ترجیح کے قائل نہیں ہیں، جب تک ان کے بقول امت اسلامیہ میں گمراہ فرقے اور فاسد حکام موجود ہوں۔ اس قسم کا طرز تفکر حالیہ جنگ غزہ کے دوران، داعش کی موجودیت کے اعلان کے ابتدائی مہینوں میں، طشت ازبام ہوا، جب حماس، صہیونی دشمن کے خلاف جہاد و مبارزہ کے عروج پر تھا، داعش نے غزہ کے واقعات کے بارے میں نہ صرف کسی رد عمل کا مظاہرہ نہیں کیا، بلکہ فلسطینیوں کے مذکورہ جہاد کو ناجائز غیر رسمی (unofficially) طور پر قرار دیا۔

اس کے علاوہ یہ انتہاپسند جہادی گروہ اپنے اسلاف کی پیروی کرنے کے دعوے کے ضمن میں اس امر کے قائل ہیں کہ جہاد امیر کی اجازت کے بغیر جائز نہیں ہے اور چونکہ فلسطین اور غزہ امیر سے عاری ہیں، اس لیے وہاں پر صہیونی دشمن سے جہاد کرنا بھی جائز نہیں ہے۔ یہی طرز تفکر اس امر کا سبب بنا کہ اس گروہ نے اقتدار پر قبضہ کرنے کے لیے اسلامی حکومت کی تشکیل کے ضمن میں، امیر و خلیفہ کا بھی اعلان کیا۔ اس کے مقابلے میں حماس کی تحریک نے انتہاپسند جہادی تحریکوں کے ساتھ اپنے اختلافات کی وجوہات کا اعلان کیا ہے۔ حماس کے سیاسی دفتر کے بین الاقوامی تعلقات کے مسؤل اسامہ حمدان نے حال ہی میں ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ: ’’وحدت اسلامی کی ضرورت کے بارے میں حماس کا موقف مکمل طور پر اظہر من الشمس ہے۔

ہم امت واحدہ ہیں اور اس امت کو اپنے دشمنوں کے مقابلے میں متحد ہونا چاہیے، جو فرقہ پرستی کی آگ کو بھڑکاتا ہے، وہ حقیقت میں اپنے ہی گھر کو نذر آتش کرتا ہے، اسلامی امت کے خرمن میں آگ لگاتا ہے، ہم حماس میں اس کے قائل ہیں کہ ہماری اصلی جنگ اسرائیل کے ساتھ ہے، جن کی امریکا حمایت کرتا ہے اور ہمارا حقیقی مبارزہ و جہاد اسی غاصب حکومت سے ہے۔ جو شخص اسلامی ملت اور مسلمانوں کا ہمدرد ہے اور ان کا مدافع اور اس امت کی مصلحتوں اور منافع کو متحقق کرنے کی کوشش کرتا ہے، اسے صہیونی دشمنوں کے خلاف جہاد کرنے کے لیے عملی میدان میں قدم رکھنا چاہیے، کیونکہ بنیادی جنگ بالکل یہیں پر ہے۔‘‘

غزہ کی جنگ اور فلسطین کے مسئلے نے حق و باطل کو واضح اور روشن کردیا اور ثابت کیا کہ صرف قیام، جہاد، ترک دنیا اور سرحدوں سے عاری وطن پرستی قابل قدر نہیں ہے، جو قیام اور جہاد امت اسلامیہ کی کمر توڑ کر اسلام کے دشمنوں کو تقویت بخشنے والا ہو، نہ صرف کوئی قدر و منزلت نہیں رکھتا ہے بلکہ ملامت کا مستحق ہے۔ ایران کے نامور شاعر حافظ شیرازی نے کیا خوب کہا ہے کہ:

’’نہ ہر کہ سر بتراشد قلندری داند‘‘
ترجمہ: ہر سر منڈوانے والا قلندر نہیں ہوتا ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔