فیصلہ ہمیں کرنا ہے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 1 نومبر 2014

18ویں صدی میں ہندوستان کیا دنیا کے کسی حصے میں بھی رعایا کی تعلیم ریاست کی ذمے داری نہیں سمجھی جاتی تھی۔ علم دوست شہزادے اور امراء اپنے خرچ سے مدرسے قائم کرتے رہتے تھے، صوفیائے کرام کے اپنے حلقے اور دائرے تھے، جن میں مریدوں کی تعلیم و تربیت اور کھانے، رہنے کا انتظام مفت تھا، پہلا سرکاری مدرسہ سلطان شہاب الدین غوری نے 1191 میں اجمیر میں قائم کیا تھا، پھر بختیار خلجی نے بنگال میں بہت سے مدرسے کھولے۔

سلطان التمش نے 1227 میں اچھ میں اور 1237 میں دہلی میں مدرسے قائم کیے، مغلوں کے دور میں ملتان، ٹھٹھہ، سیالکوٹ، جونپور، پٹنہ اور دہلی تعلیم کے بڑے مرکز تھے، شاید ہی کوئی شہر یا بستی ایسی تھی جہاں مدرسے اور مکتب موجود نہ ہوں۔ مسلمانوں کے عہد میں ذریعہ تعلیم فارسی تھا۔

اکبر بادشاہ کے عہد میں جہاں اور بہت سی اصطلاحیں ہوئیں وہاں پرانے تعلیمی نظام کے پہلو بہ پہلو سیکولر تعلیم کو رواج دینے کی کو شش بھی کی گئی، اس نے بلاامتیاز عقیدہ ہندوؤں اور مسلمانوں کے لیے یکساں اسکول کھولے جن میں طالب علموں کو ریاضی، اخلاقیات، زراعت، جیومیٹری، نجومیات، اصول حکومت، طب، منطق، کیمسٹری، طبعیات اور تاریخ کی تعلیم دی جاتی تھی مگر سیکولر تعلیم کی پالیسی کو اکبر کے جانشینوں نے ترک کردیا اور روایتی تعلیم پھر سے رائج ہوگئی۔ اور مسلمانوں کی تعلیم میں دنیاوی علوم کی حیثیت گھٹا کر دینیات کی اہمیت بڑھا دی گئی جس میں مذہبی جنونیت کا عنصر غالب تھا۔ ان ہی پالیسیوں کا نتیجہ تھاکہ مغل ریاست اور معاشر ہ تیزی سے زوال پذیر ہوئے۔ اسلامی فکر میں جمود کا بنیادی سبب تو یہ تھا کہ خود مسلم معاشرہ جمود کا شکار ہوگیا تھا۔

تلاش و تحقیق، تجربہ اور مشاہدے کے شوق کی پرانی روایت کو نہ صرف ترک کردیا گیا بلکہ وہ قرون وسطی کے روشن خیال مسلمان مفکروں کو ناپسند کرنے لگے اور ان کی تصنیفات کا مطالعہ ممنوع کر دیا گیا تھا۔ بقول علامہ اقبال یہ امت خرافات میں کھوگئی، سیکولر خیالات کی نشر و اشاعت روایت پسند ملاؤں کو سخت ناگوار گزری، وہ ہرگز نہیں چاہتے تھے کہ عوام میں اچھے اور برے کا شعور پیدا ہو اور وہ عقل سے کام لیں، انھوں نے یہ شوشہ چھوڑا کہ جدید علوم کی تعلیم کا مقصد لوگوں کو دراصل عیسائی بنانا ہے اور مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنا ہے۔علما اس خوش فہمی میں مبتلا رہے کہ انسانی علم و حکمت 13 ویں صدی سے آگے نہیں بڑھی ہے مگر ہندو لڑکے انگریزی اسکولوں میں پڑھنے لگے۔ یہ تعلیم آگے چل کر ان کے بہت کام آئی اور وہ مسلمانوں پر سبقت لے گئے۔

مسلمانوں کے ایک ہزار سالہ دور حکومت میں تعلیم کبھی بھی مربوط اور منصوبہ بند سرگرم نہ رہی۔ ان کے بنائے قلعے، محل، باغات اور مقبرے تو آج بھی دکھائی دیتے ہیں لیکن اسکول، کالج، لائبریریاں اور تحقیقی اداروں کا کہیں نشان نہیں ملتا، انھیں صرف اپنی ریاست کے پھیلاؤ اور سونے چاندی کے انبار لگانے سے دلچسپی تھی، یہاں ابھی تک الف لیلیٰ سعدی و شیرازی، عربی، فارسی کی گردان رٹ کر مولوی منشی فاضل تیار ہو رہے تھے، چنانچہ اس زمانے کے نظام تعلیم پر Alxander Duff نے تبصرہ کیا کہ ’’ ہندوستانی تعلیم موشگافیوں پر مشتمل ایک بے کار مابعد الطبیعات کا نام ہے۔‘‘ ہندوستان کے مسلم عوام صدیوں تک علمی تاریکی میں ڈوبے رہے۔

اگر ہندوستانی مسلمانوں میں سرسید پیدا نہ ہوتے یا لارڈ میکالے ہندوستان نہ آتا تو آج ہم مسلمانوں میں تعلیم اور جدید علوم کی پڑھائی کا نشان مشکل سے ملتا۔ سرسید اس نتیجے پر پہنچ گئے تھے کہ جدید مغربی تعلیم و علوم کے بغیر بدحال ملت اسلامیہ کے سب دیگر نعرے بے معنیٰ ہیں، صدیوں پرانے رسم و رواج اور عادات ان کے ایمان کا جزو بن چکے ہیں، وہ بے معنی تعصبات کے زیرا ثر چل رہے ہیں وہ سماجی حیثیت، تعلیم اور معاشی خوشحالی میں نہایت خوفناک پستی میں گر چکے ہیں، انھوں نے محسوس کرلیا تھا کہ مسلمانوں کے تمام سیاسی اور سماجی امراض کا علاج جدید تعلیم میں مضمر ہے۔

سرسید نے علی گڑھ یونیورسٹی کا ماحول لبر ل اور سیکولر رکھا، مذہبی شدت پسندی، فرقہ وارانہ تعصب اور عدم رواداری کا کوئی وجود نہ تھا، اس پر مذہبی لوگوں نے سرسید کو کافر قرار دے دیا۔ علماء کی اکثریت سرسید، علامہ اقبال اور قائداعظم کے افکار کے خلاف کانگریس کی حامی رہی اور پاکستان بننے کے بعد انھی لوگوں نے پاکستان کو قومی لبرل ریاست بنانے کے برعکس ایک اسلامی ریاست بنانے کا پروپیگنڈہ شروع کردیا۔ قیام پاکستان سے قبل نظریہ پاکستان کی اصطلاح کا کوئی وجود نہ تھا، مفاد پرستوں کا اصل کارنامہ ہی یہ تھا کہ انھوں نے انتہائی چابکدستی سے دو قومی نظریے کو نظریہ پاکستان کی اصطلاح میں تبدیل کردیا۔ دو قومی نظریہ قیام پاکستان سے قبل کا تھا جب کہ نظریہ پاکستان قیام پاکستان کے بعد ایجاد ہوا۔

قائداعظم نے اعلان پاکستان سے صرف 3 دن پہلے 11 اگست 1947 بروز پیر پاکستان کی پہلی آئین ساز اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ تقسیم ضروری تھی، اب جب کہ یہ تقسیم ہوچکی ہے تو یہاں اب فرقہ واریت کی کوئی گنجائش نہ ہوگی پاکستان ایک ایسی ریاست ہوگی جہاں ہر کسی کو تہذیبی، قومیتی اور مذہبی آزادی ہوگی۔ کسی کو کسی پر کوئی فوقیت نہ ہوگی، سب برابر کے شہری ہوں گے۔ جسٹس محمد منیر کے بقول اس تاریخی تقریر کو دبانے کا ہمیشہ رحجان رہا ہے اور اس کے سات سال بعد میرے سامنے اسے کسی شیطانی خیال کا شاخسانہ قرار دیا گیا۔

محترمہ فاطمہ جناح اکثر کہتی تھیں کہ مذہب، حکومت اور عوام کے حقوق کے متعلق قائد کے خیالات کھل کر عوام کے سامنے آنے چاہیں۔ اب ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ بحیثیت قوم ہم کیاچاہتے ہیں؟ کیا ہم جدید مہذب ریاست کے زیر سایہ ترقی یافتہ، خوشحال، تعلیم یافتہ قوم بننا چاہتے ہیں یا ہمیں اندھیرے زیادہ مرغوب ہیں، جہاں جہالت کو کھلی چھوٹ ہے اور علم پر ہزار پابندیاں ہیں، وقت بڑی تیزی سے ہم کو پیچھے کی طرف پھینک رہا ہے، ہمارا کوئی مستقبل نہیں اور نہ کوئی منزل، ہم ماضی سے لپٹے آج میں زندہ ہیں، جذباتی نعروں اور فریبانہ بیانات میں نصف سے زائد صدی ضایع کر چکے ہیں، ہمارے نوجوانوں کو آج بھی جہالت پر مبنی نظریہ حیات اور متعصب تاریخ پڑھائی جا رہی ہے، ہم تبدیلی اور ترقی کے عمل کو خود روک رہے ہیں، ایک طرف جہالت، تعصب، نفرت، پسماندگی ہے، تو دوسری طرف تعلیم، علم، خوشحالی، ترقی، ذہانت، تجربہ ہے۔ فیصلہ ہمیں کرنا ہے کہ ہمیں کس جانب جانا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔