نیا عمرانی معاہدہ

مقتدا منصور  پير 3 نومبر 2014
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

پاکستان اس وقت شدید نوعیت کے سیاسی انتشار (Termoil) اور سماجی تضادات کا شکار ہے جو اس کی قومی سلامتی اور بقا کے لیے خطرناک شکل اختیار کرتا جا رہا ہے۔ پاکستان میں ایک طرف نسلی و لسانی تفاوت میں اضافہ ہو رہا ہے، تو دوسری طرف فرقہ وارانہ آویزش میں شدت آ رہی ہے۔ سنگین ہوتی صورتحال بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری اور خونریزی کا سبب بنتی نظر آ رہی ہے۔

اس کا سبب یہ ہے کہ ریاستی ڈھانچہ فرسودگی کی آخری انتہائوں کو چھو رہا ہے اور بڑے پیمانے پر تبدیلیوں کا متقاضی ہے۔ مگر ان تبدیلیوں کی راہ میں آئین کی بعض شقیں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں، جب کہ آئین میں وقت، حالات اور جدید تقاضوں کے مطابق تبدیلیوں کی راہ میں ملک میں جاری سیاسی کلچر رکاوٹ بنا ہوا ہے۔ نتیجتاً پورا معاشرہ ایک عجب افراتفری یا ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو چکا ہے اور ریاست زدپذیری کی آخری حدود کو چھو رہی ہے۔ اس صورتحال کو سمجھنے اور جرأت مندانہ فیصلے کرنے پر کوئی آمادہ نہیں ہے۔

اس وقت جو مسئلہ پورے ملک بالخصوص کے لیے سب سے زیادہ حساس اور سنگین بن گیا ہے، وہ ملک میں مزید انتظامی یونٹوں کی تشکیل ہے۔ سندھ میں بعض قوم پرست حلقے نئے یونٹوں کی تشکیل کو سندھ دھرتی کی تقسیم قرار دیتے ہوئے طاقت کے ذریعے اس کا راستہ روکنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ جس کے نتیجے میں بدترین خونریزی کے امکانات کو رد نہیں کیا جا سکتا۔ اس خطے کی تاریخ کی المناکی کا یہ عالم ہے کہ جب برصغیر کے مسلمان اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں، تو 68 برس قبل تاریخ کی بدترین خونریزی ہوتی ہے، لاکھوں کی تعداد میں خواتین کی بے حرمتی ہوتی ہے اور اربوں روپے کی جائیداد برباد ہوتی ہے۔

44 برس قبل جب بنگالی عوام نے اپنے حقوق کی بات کی اور ان حقوق کے حصول کے لیے عوامی لیگ کو اپنی نمایندگی کا حق دیا تو ان کی بات کو سنجیدگی کے ساتھ سننے کے بجائے ان پر فوج کشی کی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں سقوط ڈھاکا کا المیہ تاریخ کے صفحات پر ثبت ہو گیا۔ آج ملک میں آباد مختلف لسانی اکائیاں، جن میں ہزارہ وال، سرائیکی وسیب اور اردو بولنے والے نئے انتظامی یونٹوں کی بات کرتے ہیں، تو ان اسباب کا جائزہ لینے اور ان تکالیف کو دور کرنے کے بجائے جو اس مطالبہ کا سبب بنے ہیں، دھونس اور دھمکی کی راہ اختیار کی جاتی ہے۔

یہ صورتحال تنائو اور تصادم کا سبب بن رہی ہے، جس میں سب سے زیادہ نقصان غریب محنت کش طبقات کو پہنچے گا۔ حیرت اس بات پر ہے کہ وہ حلقے جو قیام پاکستان سے پہلے برٹش انڈیا کے دور میں اور پھر قیام پاکستان کے بعد صوبائی خود مختاری کے لیے سب سے زیادہ رطب اللسان رہے ہیں، آج اقتدار و اختیار کی نچلی سطح تک منتقلی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

یہ وہ حلقے ہیں، جو کبھی یہ دعوے کیا کرتے تھے کہ کسی خطے یا علاقے کی تقسیم سے اس کا کلچر اور تاریخ ختم نہیں ہوتی، آج انتظامی ڈھانچہ میں تقسیم کو حساس مسئلہ بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ اگر اس دعوے کو تسلیم کرلیا جائے کہ پاکستان میں موجود تمام صوبے مقدس گائے ہیں اور ان کی تقسیم کے نتیجے میں ان سے وابستہ قوموں کے جذبات مجروح ہونے کے خدشات ہیں، تو پھر مقامی حکومتی نظام کو رائج کرنے میں کیا رکاوٹ یا قباحت ہے؟ لیکن عجب طرفہ تماشا ہے کہ یہ قوتیں نہ تو انتظامی یونٹوں کے قیام کی اجازت دینے پر رضامند ہیں اور نہ ہی مقامی حکومتوں کے ذریعے اقتدار و اختیار نچلی سطح تک منتقل کرنے پر آمادہ ہیں۔ یہ طرز عمل لازمی طور پر مختلف شراکت داروں کے درمیان ٹکرائو کی راہ ہموار کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ مگر کوئی بھی حلقہ صورتحال میں پیدا ہونے والی اس سنگینی کا ادراک کرنے پر آمادہ نہیں ہے۔

مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ جو لوگ پرویز مشرف کے متعارف کردہ مقامی حکومتی نظام کو آمر کا نظام قرار دیتے ہوئے رد کرتے ہیں، وہ ایک اور آمر جنرل ضیاء کے بلدیاتی نظام کو نافذ کرنے کے لیے بے چین رہتے ہیں۔ اس دہرے معیار کی وجہ صاف ظاہر ہے، کیونکہ جنرل ضیاء کے بلدیاتی نظام میں بیوروکریسی منتخب نمایندوں کے تابع ہوتی ہے اور صوبائی حکومت کی اختیارات پر مرکزیت قائم رہتی ہے، جب کہ مقامی حکومتی نظام میں ضلع ریاستی انتظام کے تیسرے درجہ کے طور پر سامنے آتا ہے، جس کی مزید تین پرتیں ہوتی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ سیاسی جماعتوں میں موجود فیوڈل Mindset جو اقتدار و اختیار کی مرکزیت پر یقین رکھتا ہے، مختلف حیلوں بہانوں سے ریاستی وسائل اور اقتدار و اختیار کے ذرایع پر اپنا کنٹرول قائم رکھنے کے لیے لسانی عصبیت پھیلانے سے بھی گریز نہیں کرتا۔

دراصل پاکستان کی موجودہ صورتحال کا ایک سبب جمہوری اقدار سے انحراف اور ریاست کے منطقی جواز کی خودساختہ تفہیم ہے۔ اس سلسلے میں معروف تاریخ دان اور سماجی دانشور ڈاکٹر مبارک علی پاکستان میں جمہوریت کی ناکامی کے دو اسباب بیان کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سول اور ملٹری بیوروکریسی کا کردار اور فیوڈل سیاستدان اس ملک میں جمہوریت اور جمہوری اداروں کی تشکیل اور ان کے استحکام کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔

ڈاکٹر مبارک کے مطابق دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد نوآبادیاتی نظام اپنے اختتام کو پہنچا، لیکن ایشیا اور افریقہ کی آزاد ہونے والی بیشتر ریاستیں جمہوری اداروں اور روایات کو مستحکم کرنے میں اس لیے ناکام رہیں، کیونکہ یہ معاشرے جمہوریت اور جمہوری اقدار کو فروغ دینے کے لیے ذہنی طور پر تیار نہیں تھے۔ اس کی دو وجوہات ہیں۔ اول، ان معاشروں میں موجود قبائلی اور جاگیردارانہ معاشرت کی جڑیں گہری ہونے کے باعث جمہوریت اور جمہوری نظم حکمرانی کا فہم و ادراک پیدا نہیں ہو سکا۔ دوئم، نو آبادیاتی تسلط سے آزادی کے چند برسوں کے اندر ہی ان ممالک میں فوجی آمریتیں قائم ہو گئیں، جن کی وجہ سے نوآبادیاتی دور سے ورثے میں ملنے والے تھوڑے بہت جمہوری ادارے بھی گہنا گئے۔

بعض مغربی دانشوروں کا بھی یہی خیال ہے کہ بہت سی ایسی نوآبادیات تھیں، جنھیں قبل از وقت آزادی میسر آ گئی۔ حالانکہ ان کی قیادتیں سیاسی طور پر بلوغت کی اس منزل تک نہیں پہنچ پائی تھیں، جہاں وہ اپنے معاشروں میں جمہوریت اور جمہوری کلچر کو اس کے حقیقی فکری رجحان کے ساتھ چلا سکیں۔ پاکستان کے بارے میں بھی مغربی دانشوروں کا یہی خیال ہے کہ معاشرتی ڈھانچے کے سخت گیر قبائلی اور جاگیردارانہ کلچر میں جکڑے ہونے کی وجہ سے جمہوری اقدار کے لیے گنجائش پیدا نہیں ہو پا رہی۔

اس کے علاوہ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری اداروں پر وہ قوتیں حاوی ہیں جو اپنی سرشت میں آمرانہ طرز عمل کی حامل ہیں۔ یہاں اس رویے کی دو مثالیں کافی ہوں گی۔ 1995ء میں پختونخوا کے ایک بڑے خانوادے کی لڑکی نے پنجاب کے نوجوان کے ساتھ پسند کی شادی کر لی تھی، جس پر اس خاندان کے بڑے لوگوں نے اس لڑکی کو حنا جیلانی کے دفتر کے باہر بیدردی کے ساتھ قتل کرا دیا۔

مرحوم اقبال حیدر نے اس قتل کے خلاف سینیٹ میں عزت کے نام پر قتل کے خلاف قرارداد پیش کی تو ان کا ساتھ صرف سینیٹر جمیل الدین عالی اور سینیٹر اعتزاز احسن نے دیا، باقی سینیٹرز نے اس قرارداد کو قبائلی روایات سے متصادم قرار دیتے ہوئے اس کی مخالفت کی۔ دوسرا واقعہ گزشتہ دور میں پیش آیا جب بلوچستان کے ضلع جعفر آباد میں سات لڑکیوں کو کاروکاری کے الزام میں زندہ دفن کیا گیا، تو اس وقت کے ڈپٹی چیئرمین سینیٹ نے اسے بلوچستان کی قبائلی روایات کا حصہ قرار دیتے ہوئے اس عمل کو جائز قرار دیا۔

چلیے پاکستان کے جغرافیہ میں موجود صوبوں کو تقسیم یا ان میں انتظامی یونٹوں کے قیام کی بات نہیں کرتے، لیکن کیا مقامی حکومتی نظام کا قیام بھی ان کی تقدیس میں کمی کا باعث ہے؟ اگر ایسا نہیں ہے تو پھر ضلع کی سطح پر اختیارات کی تفویض میں کیا قباحت ہے؟ کیا دنیا بھر میں بڑے شہروں کے لیے میٹروپولیٹن کارپوریشنز قائم نہیں ہیں؟ کیا ان شہروں کا انتظام خودمختاری مقامی حکومتوں کے ذریعے نہیں چلایا جارہا ہے۔

حیرت کی بات یہ ہے کہ جب ملک کی موجودہ صورتحال پر گفتگو کے دوران محترمہ شیما کرمانی نے کراچی کے لیے ایک خودمختار انتظامی ڈھانچے کی بات کی تو محنت کشوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم کے ایک ذمے دار عہدیدار نے نہ صرف ان کی مخالفت کی بلکہ دھمکی آمیز رویہ بھی اختیار کیا۔ حد یہ کہ اس تنظیم کے سربراہ اپنے عہدیدار کو ٹوکنے کے بجائے اس کے طرز عمل پر خاموشی اختیار کیے رہے۔ یہ روش اور طرز عمل ملک میں تصادم اور ٹکرائو  میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ سنجیدہ اور متین حلقے ملک میں نئے عمرانی معاہدے(Social Contract) لانے کی کوشش کریں۔ تا کہ سماج کے ہر طبقے کو درپیش مسائل اور اس کی شکایات کے ازالے کا بندوبست کیا جاسکے۔ معاشرے کے مختلف طبقات یا گروہوں کی جانب سے نشاندہی کردہ مسائل اور بعض انتظامی اقدامات پر اٹھائے جانے والے تحفظات کو نظر انداز کرنا، یا ان پر خوشی اختیار کرنا یا پھر مطالبات پیش کرنے والوں کو ہدف تنقید بنانا عصبیتوں کی نئی فصل پروان چڑھانے کا سبب بنتا ہے۔ جس سے بچنے کی کوشش کرتے ہوئے تمام حلقوں اور گروپوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ اور ان کی شکایات کے ازالے کے اقدامات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ یہ صرف ایک نئے عمرانی معاہدے کے ذریعے ہی ممکن ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔