مٹی سے برتن بناتے بناتے خود مٹی ہو گیا

رانا نسیم / محمد عمر فاروق کمالوی  اتوار 16 نومبر 2014
 ابتر معاشی حالات کے باعث خود پڑھا نہ بچوں کو پڑھا سکا: کوزہ گر خان محمد کی بپتا فوٹو : فائل

ابتر معاشی حالات کے باعث خود پڑھا نہ بچوں کو پڑھا سکا: کوزہ گر خان محمد کی بپتا فوٹو : فائل

 کوزہ گری (مٹی کے برتن بنانا) کی صنعت دنیا کی قدیم صنعتوں میں سے ایک ہے۔ گو کہ 24 ہزار قبل از مسیح مٹی سے انسانوں اور جانوروں کی مورتیاں بنائی گئیں، 14 ہزار قبل ازمسیح انڈیا اور میسوپوٹیمیا میں مقیم لوگوں نے مٹی کی ٹائل یعنی اینٹ بھی بنائی، لیکن مٹی کے برتنوں کا باقاعدہ استعمال ایک ہزار قبل ازمسیح اس وقت ہوا جب انسان نے اپنے لئے پانی اور خوراک کو محفوظ کرنے کی ضرورت محسوس کی۔

یونان میں کوزہ گری کی صنعت نے بہت تیزی کے ساتھ ترقی کی، برتنوں پر نقش و نگار بنانے کے ساتھ نت نئے ڈیزائن بھی متعارف ہوئے۔ دسویں صدی میں بغداد کوزہ گری کا ایک بڑا مرکز بن چکا تھا، جہاں برتنوں پر رنگ و روغن کے ساتھ ان میں چمک پیدا کرنے کے لئے پہلی بار مسالا بھی تیار کیا گیا، یوں رفتہ رفتہ کوزہ گری کو دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہو گئی۔ گھروں میں زیادہ تر مٹی کے برتنوں کا استعمال ہونے لگا، ٹھنڈے اور فرحت بخش پانی کے لئے گھڑے استعمال ہونے لگے، پانی پینے کے لئے مٹی کا پیالہ اور دال سبزی چولہے پر چڑھانے کے لئے مٹی کی ہنڈیا استعمال کی جاتی تھی۔

مگر آج وقت گزرنے کے ساتھ مٹی کے برتن بنانے کا فن ختم ہوتا جا رہا ہے، جس کی وجہ دھات، پلاسٹک اور چائنا مٹی کے بڑے پیمانے پر تیار ہونے والے برتن ہیں۔ اب گھروں میں مٹی کے برتنوں کا استعمال تقریباً ختم اور نتیجتاً اس قدیم فن کو زندہ رکھنے والا فنکار (کوزہ گر) بھی مالی مسائل سے دوچار ہو چکا ہے اور اسے اپنی آئندہ نسل کو منتقل کرنے پر تیار نہیں۔ ایسے ہی کوزہ گر سے ’’ایکسپریس‘‘ نے ایک نشست کا اہتمام کیا، جس کی روداد یہاں پیش کی جا رہی ہے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ کی تحصیل کمالیہ کے رہائشی 55 سالہ خان محمد کا خاندان کئی پشتوں سے کوزہ گری کے پیشہ سے وابستہ ہے۔ خان محمد کے والد کا نام امیر محمد تھا اور ان کے چار بچے (تین بیٹیاں اور ایک بیٹا) تھے۔ خان محمد ابھی بچپنے کی شرارتوں میں ہی مصروف تھے کہ ان کے والد دنیا سے چل بسے تو یوں کچی عمر میں ہی گھر کی ساری ذمہ داری ان کے ناتواں کندھوں پر آن پڑی۔ اس ضمن میں بات کرتے ہوئے خان محمد نے بتایا کہ ’’ والد کی وفات کے بعد ہمارے معاشی حالات بہت خراب ہو چکے تھے، کیوں کہ گھر میں کوئی کمانے والا تھا نہ والد نے وراثت میں جائیداد چھوڑی تھی۔

لہٰذا پڑھنے کے بجائے میں نے مزدوری کو ترجیح دی۔ پھر جب میرے بچے ہوئے تو میں نے انہیں پڑھانے کی کوشش کی لیکن صبح سے لے کر رات گئے تک سر توڑ کوشش (کام) کے باوجود چند روپے کمانے والا کہاں تک ان کا ساتھ دے سکتا تھا؟ لہٰذا وہ بھی پانچویں یا آٹھویں جماعت سے آگے نہ بڑھ سکے اور آج مختلف مزدوریاں کرنے میں مصروف ہیں۔‘‘ کوزہ گری کا شعبہ اختیار کرنے کے بارے میں بتاتے ہوئے خان محمد کا کہنا تھا کہ ’’ کوزہ گری ہمارا وراثتی پیشہ ہے، میرے آباؤ اجداد کئی نسلوں سے یہ کام کرتے آ رہے ہیں۔ میں نے 15سال کی عمر میں یہ کام شروع کیا اور اسے سیکھنے میں مجھے تین سال لگ گئے اور آج یہ کام کرتے ہوئے مجھے بھی 40 سال ہو چکے ہیں۔ کوزہ گری میں میرے استاد میرے بہنوئی ہیں، کیوں کہ والد تو فوت ہو چکے تھے۔‘‘

مٹی سے برتن بنانے کے عمل کے بارے میں کوزہ گر گویا ہوا کہ ’’ جس مٹی سے برتن بنتے ہیں وہ عام مٹی نہیں ہوتی، صرف چکنی یا سرخ مٹی سے ہی برتن بنائے جاتے ہیں، گارا، ریتلی یا سخت مٹی سے برتن نہیں بن سکتے۔ یہ مٹی شہر سے تو نہیں ملتی لیکن ہمارے شہر سے باہر ماموں کانجن روڈ پر دستیاب ہوتی ہے، جسے حاصل کرنے کے لئے ہم کسی بھی ریڑھی والے کو پیسے دیتے ہیں اور وہ آگے کسی اور سے خرید کر اپنا منافع رکھتے ہوئے ہمیں گھر تک پہنچا دیتا ہے۔ ہمارے علاقے میں چوں کہ یہ آسانی سے دستیاب ہے، اس لئے اس کا ریٹ بہت زیادہ نہیں ، تین سو روپے میں مٹی کی ایک ریڑھی مل جاتی ہے۔

تاہم دیگر علاقوں میں اس مٹی کی قیمت ہزاروں روپے میں بھی ہے۔ مٹی سے برتن بنانے کے لئے سب سے پہلے اس میں پانی ڈال کر اسے آٹے کی طرح گوندھا جاتا ہے، ہاتھوں اور پاؤں سے اس قدر مٹی کو گوندھا جاتا ہے کہ پانی اچھی طرح اس میں مکس ہو جائے اور مٹی کا کوئی حصہ بھی سخت نہ رہے، اس میں کوئی کنکر یا کوئی اور چیز نہ ہو کیوں کہ ایسی صورت میں اس مٹی سے کوئی برتن نہیں بنایا جا سکتا۔ اس کے بعد جو برتن بھی بنانا ہے، اس کے حساب سے گوندھی ہوئی مٹی اٹھا لی جاتی ہے، بالکل روٹی کے پیڑے کی طرح کہ جیسے بڑی روٹی بنانی ہے تو بڑا پیڑا اور اگر چھوٹی بنانی ہے تو چھوٹا پیڑا بنا لیا جاتا ہے۔

برتن کا وزن ڈیمانڈ کے مطابق ہوتا ہے، اس کے لئے ہمیں مٹی کا وزن نہیں کرنا پڑتا بلکہ اندازے سے ہی بالکل برابر وزن کا برتن بنا دیتے ہیں۔ پھر اس کے بعد ان برتنوں کو آوی (بھٹی) میں پکایا جاتا ہے۔ آوی میں پہلے زمین پر اوپلوں کی ایک تہہ لگائی جاتی ہے، پھر برتنوں پر دوبارہ کچھ اوپلوں کو توڑ کر چڑھانے کے بعد انہیں ڈھانپ دیا جاتا ہے۔ بعدازاں آوی کے نیچے کی طرف سے آگ لگا دی جاتی ہے جو آہستہ آہستہ سلگتی ہوئی اوپر کی طرف چڑھتی چلی جاتی ہے اور کچھ روز بعد برتن پک کر تیار ہو جاتے ہیں۔ ہم سال کے بارہ ماہ یہ کام کرتے ہیں، کبھی کبھار مال آرڈر پر بھی تیار کرتے ہیں۔ میں مٹی سے ہر قسم کا برتن یعنی گھڑا، کنڈی، کنالی، گلدان، گملا، ہانڈی اور ان کے ڈھکن وغیرہ بنا لیتا ہوں۔‘‘

ظروف سازی کی صنعت اور آمدن کے بارے میں خان محمد کا کہنا تھا کہ ’’ دیکھیں جی! آج ہمارے گھروں میں مٹی کے برتنوں کا استعمال نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے، جس کی وجہ سے آمدن بہت کم ہو چکی ہے۔ مٹی سے بنے برتنوں میں اب صرف گھڑے اور گملے کا استعمال باقی رہ گیا ہے۔ گھروں اور نرسریوں میں پودوں کے لئے گملے استعمال ہو رہے ہیں اور لوڈشیڈنگ کے باعث گھروں میں فریج نہ چلنے کے باعث لوگ ٹھنڈے پانی کے لئے گھڑوں کا استعمال کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہانڈی بھی کسی حد تک استعمال ہوتی ہے لیکن وہ گجرات جیسے علاقوں کی مخصوص ہوتی ہے، ہمارے علاقے میں تو اس کا مکمل طور پر رواج ختم ہو چکا ہے۔

آمدن کی بات کریں تو پہلے زمانے میں مہنگائی نہیں تھی اور برتنوں کی فروخت بھی زیادہ تھی، اس لئے آمدن اچھی خاصی ہو جاتی تھی، لیکن آج کے دور میں مہنگائی بہت زیادہ جبکہ کام نہ ہونے کے برابر رہ گیا ہے۔ آج میری ماہانہ آمدن صرف 8 سے 9 ہزار بنتی ہے۔ اب آپ بتائیں کہ ان پیسوں میں بجلی، پانی اور گیس وغیرہ کے بل دوں یا اپنا اور اپنے خاندان کے پیٹ کا دوزخ بھروں؟ دکاندار حضرات ہم سے ایک گھڑا 35 سے 40 روپے کے درمیان خرید کر بازار میں 60 سے 100 روپے کا فروخت کرتا ہے اور بعض اوقات دکاندار اس سے بھی کہیں زیادہ پیسے کماتے ہیں۔

اسی طرح ہمارے پاس چھوٹے پنیری والے گملے کی قیمت پانچ اور ڈیزاننگ والے کی 40 روپے ہے لیکن دکاندار اسے بہت زیادہ مہنگا فروخت کرتے ہیں۔ اچھا یہاں ایک بات یہ بھی ہے کہ بعض اوقات ہمارے ساتھ ایسا بھی ہوتا ہے کہ برتن بنا کر آوی میں لگا دیئے تو اچانک بارش آ گئی، جس سے سارا مال خراب ہو جاتا ہے، پھر آگ زیادہ یا کم ہو جائے تب بھی برتن تباہ ہو جاتے ہیں۔ ہمارے پاس اتنے وسائل ہی نہیں کہ بارش کی صورت میں اس آوی کو سنبھال لیا جائے۔ یوں بھاری نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور اس نقصان کا خمیازہ ہمیں کئی کئی مہینوں تک بھگتنا پڑتا ہے۔‘‘

کوزہ گری کی وجہ سے ہونے والے جسمانی نقصان کا بتاتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’’ بیماری یا تندرستی تو اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہے، کام کرنے کی عادت بن چکی ہے۔ صبح سے لے کر شام تک پاؤں کے ذریعے چاک کو گھما کر ہاتھوں سے برتن بناتے ہیں لیکن مٹی سے برتن بناتے بناتے آج میرا جسم قبر میں جانے سے پہلے ہی مٹی بن چکا ہے، جسم کے تمام جوڑ کمزور ہو چکے ہیں، جن کی وجہ سے ان میں ہر وقت درد اور تکلیف محسوس ہوتی ہے۔

اب آپ اگر میرا یہ بازو پکڑ لیں تو میں اسے ہلا تک نہیں سکتا چھڑوانا تو بہت دور کی بات ہے۔ جب تک کچھ نہ کچھ کام کر سکتا ہوں تب تک روٹی مل رہی ہے اور جس دن ہاتھ پاؤں مکمل طور پر جواب دے گئے تو پھر اللہ ہی جانتا ہے میرے ساتھ کیا ہوگا کیوں کہ اولاد کی مرضی ہے وہ ہمیں روٹی دے یا نہ دے۔ لیکن میرا اللہ گواہ ہے کہ میں نے اپنی اولاد کو ہمیشہ حلال رزق کما کر کھلایا اور یہی وجہ ہے کہ میری اولاد فرماں برداراور نیک ہے۔‘‘ اپنی کسمپرسی پر حکومت اور حکمرانوں سے مایوس کوزہ گر نے کہا کہ ’’ حکومت سے کیا شکوہ کریں، کیوں کہ یہاں ہماری کوئی سنتا ہی نہیں۔

کسی حکمران نے آج تک کبھی پوچھا ہی نہیں کہ ہم پر کیا بیت رہی ہے؟ کوزہ گر کی چھوڑیں انہیں کوزہ گری کی فکر نہیں، جو صرف گھریلو ضروریات ہی پوری نہیں کرتی بلکہ ہماری ثقافت کا بھی اہم حصہ ہے۔ آج کوزہ گری اور کوزہ گر دونوں بدحالی کا شکار ہو کر مٹتے جا رہے ہیں لیکن کوئی اس طرف دھیان دینے کو تیار نہیں۔ میں آپ کو بتا دوں یہ ہنر اس وقت تک زندہ ہے جب تک ہمارے جیسے پرانے لوگ زندہ ہیں، میرے خیال میں یہ کام اب میرے جیسی آخری نسل کے ہاتھوں میں ہے، کیوں کہ محنت زیادہ اور آمدن نہ ہونے کے برابر ہونے کے باعث آئندہ آنے والی نسل اس سے نابلد ہے۔ میں نے خود یہ کام سکھانے کے بجائے اپنے ایک بیٹے کو فرنیچر، دوسرے کو بجلی، تیسرے کو درزی کا کام سکھایا جبکہ میرا چوتھا بیٹا ریڑھی چلاتا ہے۔‘‘

انسان ہونے کے ناطے مَن میں ابھرنے والی خواہشات کا ذکر کرتے ہوئے کوزہ گر کا کہنا تھا کہ ’’ زندگی میں خواہشات تو بہت ساری پالیں، لیکن وقت اور گھریلو حالات نے کبھی انہیں پورا کرنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا اور یونہی سلگتے سلگتے زندگی ختم ہونے کو ہے۔ بچپن اور لڑکپن کی خواہشات کو تو میں اب بھول بھی گیا ہوں تاہم اب زندگی کی آخری خواہش سوہنے (اللہ تعالیٰ) کا گھر دیکھنے کی ہے۔ میں حج کرنا چاہتا ہوں اور اپنے مالک سے دعا بھی کرتا ہوں کہ اب کی بار مرنے سے پہلے میری یہ خواہش وہ ضرور پوری فرما دے۔ اور اگر یہ خواہش پوری ہو گئی تو پھر باقی کسی خواہش کے پورے نہ ہونے کا کوئی غم نہیں رہے گا۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔