(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - نفرت کا کاروبار؟

محمد نعیم  اتوار 23 نومبر 2014
ملک میں ماضی میں بھی پاکستان مخالف وڈیو گیمز پر پابندی لگ چکی ہے۔ فوٹو: فائل

ملک میں ماضی میں بھی پاکستان مخالف وڈیو گیمز پر پابندی لگ چکی ہے۔ فوٹو: فائل

نئے دور کو مکمل طور پر ڈیجیٹل دورکہا جائے توغلط نہ ہو گا۔ اب اس دور کے بچے بھی ڈیجیٹل ہو گئے ہیں۔ دیگر معاملات کی طرح ان میں آوٹ ڈور گیمز کا رجحان ختم ہو چکا ہے۔ ان ڈور گیمز میں بھی بچے جسمانی کھیلوں کے بجائے ، کمپیوٹر اور موبائل گیمز میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں۔ اب والدین بھی اس بات پر مطمئن ہیں کہ ان کا بچہ سارا دن گھر پر ہی رہتا ہے، نہ گھر سے باہر نکلے گا نہ کسی غلط صحبت میں پڑے گا۔ نہ اس کو کوئی جانی و مالی خطرہ رہے گا۔ نہ ہم بچے کے بارے میں فکر مند رہ کر اپنا خون جلائیں گے۔

لیکن اب گیمز اور دیگر کھلونے بھی بچوں کے لیے اتنے محفوظ نہیں رہے۔ دنیا میں نفرت کا کاروبار کرنے والے اب ایسی چیزیں بڑی تیزی سے تیار کر کے دنیا میں پھیلا رہے ہیں جو ہمارے بچوں کی سوچ، فکر نظر سب کچھ بدل کے رکھ دیں گی ۔

آپ کو شاید اس بات کا علم نہ ہو کہ آج منظم سازش کے ذریعے مسلمانوں کی نئی نسلوں کے دشمن اس انداز میں گیمز تیار کر رہے ہیں کہ بچہ کھیل ہی کھیل میں دین بہت دور چلے جانے کے خدشات بڑھتے جارہے ہیں اور ان چیزوں سے اس کے لاشعور میں ایک نفرت پیدا ہو جاتی ہے۔ بچہ گیمز میں موجود کرداروں کے ہر انداز اور انہی کے طرز کے لباس کو اپنانے کی کوشش کرنے لگتا ہے۔ ویڈیو گیمز جو سی ڈیز یا کمپیوٹر پر آن لائن دستیاب ہوتی ہیں ہم سب جانتے ہیں کہ ان کے کرداروں کے لباس اور انداز و اطوار کیسے ہوتے ہیں۔ عالم اسلام کے خلاف چھیڑی گئی جنگوں کے بعد ایسی گیمز کو متعارف کروایا گیا ہے جس میں امریکی افواج جو کہ ان گیمز کی ہیرو ہوتی ہیں بدی کے کرداروں کے خلاف جنگ کرتی ہیں اور ان عناصر کو چن چن کر ختم کرتی ہیں۔ یوں وہ بچہ جس کی کمانڈ پر گیم کا ہیرو ایکشن میں آتا ہے۔ درحقیت جوائے اسٹک، ماؤس یا مختلف بٹن کا ہر ایک کلک اس کے دل میں مسلمانوں کے حلیے والے کرداروں کے لیے نفرت میں اضافہ کرتا ہے۔ بچوں کے برین واش کا یہ ایک غیر محسوس طریقہ ہے۔

میں تو سوچ رہا ہوں کہ جب سی آئی اے جیسے ادارے ہی ایسے کھلونے پھیلائیں گے تو پھر امن کہاں رہے گا۔ ہرجگہ جب نفرتوں کے بیج بوئے جائیں گے تو پھر محبت کس دل میں پھوٹے گی۔؟اگر دنیا میں امن کے ٹھیکدار یہی کچھ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں سے نفرت ہی بڑھے تو پھر وہ عالمی امن اور بھائی چارے کی بات نہ کیا کریں۔ قول کچھ اور عمل کچھ ہو تو اس کو منافقت کہتے ہیں۔

اور یقینی کیجیے کہ یہ میری طرف کوئی من گھڑت کہانی نہیں کیونکہ پاکستان میں کچھ ایسی ویڈیو گیمز کی فروخت پر پابندی عائد کی جاچکی ہے جس میں پاکستان کو دہشت گردی پر قابو نہ پانے والی ایک ناکام ریاست کے طور پر پیش کیا گیا تھا۔ ان گیمز میں میڈل آف آنز، وار فائٹر اور کال آف ڈیوٹی بلیک اوپس 2 شوٹر گیمز شامل ہیں جن میں امریکی اسپیشل فورسز کے اہلکاروں کو مختلف مشنز پر دکھایا گیاتھا۔ میڈیل آف آنرز میں دکھایا گیا ہے کہ امریکی نیوی سیلرز کراچی بندر گاہ پر اتر کر اسلحے کی ایک شمپنٹ کو تباہ کردیتے ہیں اسی دوران انہیں ایک دہشت گردی کے منصوبے کا پتا چلتا ہے جس کے بعد عالمی مہم شروع ہوجاتی ہے۔ میڈل آف آنر نامی گیم کی تیاری میں ایک ایسا کمانڈو بھی شامل رہا ہے جس نے اسامہ بن لادن کے خلاف ایبٹ آباد میں آپریشن کیا تھا۔

اسی طرح گزشتہ برس ڈنمارک کی جنگی سامان پر مشتمل کھولنے بنانے کے حوالے سے مشہور کمپنی LEGOنے اپنے نئے کھولنے جاباز پلیس کو تاریخی ترک مسجد آیا صوفیہ کے طرز پر ڈیزائن کیا ہے۔جس کے ردعمل میں ویانا میں موجود ترک مسلم کمیونٹی نے اس کے تیار کردہ نئے کھلونے پر شدید احتجاج کرتے ہوئے اس کی فروخت پر فورا پابندی لگانے اور معافی مانگنے کا مطالبہ کیا تھا۔ LEGO نے اپنا نیا کھلونا Jabba’s Palace استنبول میں واقع تاریخی مسجد، آیا صوفیہ، سے مشابہہ بنا یا جبکہ اس میں خلائی جنگوں پر مبنی فلموں کے کردار Jabba the Hutt کو دہشت گرد، قاتل اور مجرم دکھایا گیا ہے۔ کھلونے میں مختلف جانوروں کے کارٹونز کو جنگی کردار کے طور پر پیش کرنے کے علاوہ اس کے مینار سے مشابہہ واچ ٹاور میں مشین گن بھی نصب دکھائی گئی تھی۔

اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے میری والدین سے گزارش ہے کہ کھیل کود بچوں کو بہت پسند ہے لیکن اب ویڈیو گیمز میں ان کا رجحان بڑھ رہاہے۔ لہٰذا ویڈیوگیمز ، بالخصوص ایسی گیمز جو ماردھاڑ سے بھر پور ہوں بچوں کے دماغ پر اثرات مرتب کرتی ہیں ۔ جرائم سے بھرپور گیمز بچوں کی سوچ کو مجرمانہ سوچ میں تبدیل کردیتی ہیں۔ والدین بچوں کے ٹی وی اور کمپیوٹر گیمز کے استعمال پر کنٹرول رکھیں۔ بچوں کا کمپیوٹر یا ٹی وی ایسی جگہ میں ہونا چاہیے جہاں سے والدین باآسانی اس پر نظر رکھ سیکیں۔والدین کے علم میں ہونا چاہیے کہ ان کا بچہ کیا دیکھ رہا ہے۔ کیا سن رہا ہے۔ کیا کھیل رہا ہے۔ کیا کھیل یا تفریح میں اس کے لیے کوئی ایسی چیز تو نہیں جو اس کچے ذہن کو فکری یا اخلاقی اعتبار سے کسی غلط راہ پر ڈال دے ؟ کوئی گیم خریدنے سے قبل اس بات کا یقین کر لیں کہ یہ آپ کے بچے کی سوچ و فکر پر کوئی منفی اثر ڈالنے کے بجائے اس کی تعمیری صلاحیت کو بڑھائے گی اور کھیل ہی کھیل میں بچے کی ذہانت اور پیداواری صلاحیت میں اضافہ کرے گی۔اچھی یا بری عادتیں بچپن ہی میں پختہ ہوجاتی ہیں، اس لیے شروع ہی میں بچوں کو اچھے پروگرام دیکھنے کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ اگر بچے شروع ہی سے کمپیوٹر گیمز میں زیادہ وقت صرف کرتے ہیں تو بڑے ہونے کے بعد ان پر پابندی لگانا اور ان کے لیے اسے قبول کرنا دشوار ہوجاتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

محمد نعیم

محمد نعیم

بلاگر کالم نگار اور رکن کراچی یونین آف جرنلسٹ ہیں۔ کراچی اپ ڈیٹس میں بحیثیت سب ایڈیٹر کام کررہے ہیں اور بلاگز کے ذریعے تبدیلی کے خواہشمند ہیں۔ ٹوئٹر پررابطہ naeemtabssum@

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔