خطرہ بڑھ رہا ہے!

مزنہ مجید  جمعـء 21 نومبر 2014
جراثیم کے خلاف اینٹی بائیوٹکس مؤثر نہیں رہیں؟۔ فوٹو: فائل

جراثیم کے خلاف اینٹی بائیوٹکس مؤثر نہیں رہیں؟۔ فوٹو: فائل

عام بیماریوں کے ساتھ ساتھ مختلف اقسام کے جراثیم کی وجہ سے انسانی صحّت کو لاحق خطرات کے پیشِ نظر طبی ماہرین اور محققین نئی اینٹی بائیوٹکس ادویہ تیار کرنے پر توجہ دے رہے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ ادویہ مختلف جراثیم کا مقابلہ کرنے میں ناکام ہو رہی ہیں اور ان کے خلاف جسم کی مزاحمت بڑھتی جارہی ہے۔ اس لیے طبی ماہرین قدرتی ماحول میں پائے جانے والے اجزا کی مدد سے اینٹی بائیوٹکس تیار کرنے کی طرف متوجہ ہوئے ہیں۔

برطانیہ میں طبی محققین قدرتی ذخائر میں موجود بعض اجزا تلاش کرکے ایسی ادویہ تیار کرنے کی کوشش کررہے ہیں، جن کی مدد سے طاقت ور جراثیم کا مقابلہ کیا جاسکے اور یہ بیماریوں کا مؤثر علاج بھی ہوں۔ طبی محققین سمندر اور صحراؤں میں موجود قدرتی اجزا کی تلاش کے مختلف پروجیکٹس پر کام کر رہے ہیں۔ برطانیہ میں حیاتیات کے پروفیسر میروِن بِب دنیا کے مختلف ماہرین جینیات اور کیمیا دانوں کی مدد سے نئی اینٹی بائیوٹکس کی ایجاد کے لیے قدرتی اجزا کے استعمال کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ سمندروں اور زمین میں موجود قدرتی اجزا بیماریوں کے علاج میں نہایت مددگار ثابت ہوں گے۔ نئی اینٹی بائیوٹک ادویہ تیار کرنا نہایت ضروری ہے، کیوں کہ جراثیم ہمارے لیے بڑا چیلنج بن چکے ہیں۔ پروفیسر میرون کے مطابق ’’قدرتی کیمیائی اجزا دوا سازی کے لیے آئیڈیل نہیں رہے اور اب اس سلسلے میں غور و خوض کیا جانا ضروری ہے۔‘‘

ماہرین ایسی ادویات کے غیر مؤثر ہونے کا خطرہ محسوس کررہے ہیں، جو آپریشن کے بعد انسانی جسم کو انفیکشن اور بیماریوں سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے نہایت ضروری ہیں۔ تپِ دق کے خاتمے میں ناکامی کی ایک وجہ اس بیماری میں دی جانے والی ادویہ ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اب بے اثر ہوتی جارہی ہیں اور مریضوں کا جسم ان کے خلاف مزاحمت کے قابل ہو رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جرمنی میں طبی ماہرین جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ ادویات پر خصوصی توجہ دے رہے ہیں، جب کہ دیگر طبی ماہرین بھی قدرتی اجزا کی مدد سے ادویہ سازی کے لیے میدان عمل میں ہیں ۔

بین الاقوامی ریسرچرز کی ایک ٹیم بحراوقیانوس کی گہرائیوں اور ناروے کے برفانی علاقوں میں قدرتی ذخائر تلاش کرنے کا کام انجام دے رہی ہے۔ ان محققین کو امید ہے کہ سمندر کی تہ میں موجود کیچڑ میں چھپے اجزا نئے جرثوموں کے خلاف دوا کی شکل میں استعمال کیے جاسکیں گے۔ طبی محققین پتے چاٹنے والی چیونٹیوں اور سنڈیوں کی مدد سے بھی اینٹی بائیوٹیکس تیار کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایبولا، ڈینگی، نیگلیریا اور اس قسم کے نہایت خطرناک جراثیم اب تک کئی انسانوں کو موت کے منہ میں دھکیل چکے ہیں، طبی سائنس کو ان کی صورت میں ایک بڑے چیلنج کا سامنا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔