(میڈیا واچ ڈاگ) - خُودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

محمد زمان باجوہ  جمعـء 21 نومبر 2014
ہمیں اپنے درمیاں ایسے بے شمار لوگ مل سکتے ہیں جو قدرت نے کی بے شمار نعمتوں کی عدم دستیابی کے سبب خودداری کی اعلی مثال قائم کرتے ہیں۔ ایسے افراد ہمارے لیے سوچنے اور سمجھنے کا سامان پیدا کرتے ہیں کہ ہم اُن کی راہ پر کیوں نہیں چلتے؟۔ فوٹو: فائل

ہمیں اپنے درمیاں ایسے بے شمار لوگ مل سکتے ہیں جو قدرت نے کی بے شمار نعمتوں کی عدم دستیابی کے سبب خودداری کی اعلی مثال قائم کرتے ہیں۔ ایسے افراد ہمارے لیے سوچنے اور سمجھنے کا سامان پیدا کرتے ہیں کہ ہم اُن کی راہ پر کیوں نہیں چلتے؟۔ فوٹو: فائل

ہمارے ملک میں ہر طرف افراتفری کا عالم اور ایک گھٹن کا سا سماں ہے۔ ہر طرف مایوسی چھائی ہے کہ گویا معلوم ہوتا ہے کہ وطن عزیز کا ہر شخص اپنے حالات سے پریشان ہے پھر چاہے وہ دنیا کی ہر آسائش سے مستفید ہی کیوں نہ ہورہا ہو مگر جب اُس سے حالات کا پوچھا جائے تو جواب کچھ اِس طرح کا ہوتا ہے کہ دنیا بھر کے دکھ درد اِسی کے سر آگئے ہیں۔

مگر گزشتہ شَب اِنٹرنیٹ پر ایک ویڈیودیکھنے کا اتفاق ہوا جس نے معاشرے پر چھائے مایوسی کے اندھیروں کا مکمل خاتمہ کردیا اور یہ  وڈیو کم از کم میرے لیے تو  ایک خوشگوار جھونکے کی مانندہے اور مجھے بہت کچھ سوچنے پر مجبور کر دیا۔

یہ ویڈیو کراچی کے محمد زاہد کی ہے جو پیدائشی نابینا ہے مگر اس نے اپنی اس جِسمانی کمزوری کو کبھی اپنے فرائض کی راہ میں رکاوٹ نہیں سمجھا اور خود ہی زندگی کی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا۔ محمد زاہد نے نوکری کے لیے مختلف اداروں اور فیکٹریوں کا رخ کیا مگر نابینا پن کی وجہ سے کہیں بھی نوکری نہیں ملی۔ لوگوں نے خدا ترسی اور ہمدردی میں رقم دینے کی کوشش کی مگر اس نے شکریہ کے ساتھ انکار کیا اور محلے میں ہی اخبار فروشی کا فیصلہ کیا اور آج وہ ایک مُطمئن زندگی گزار رہا ہے۔

جب میں نے زاہد کو بات کرتے سنا تو خود میں عجب اعتماد پایا، کس اعتماد کے ساتھ وہ لوگوں کوتلقین کررہاتھا کہ کسی کے سامنے ہاتھ نہ جھکایا جائے، خودداری کی شاید زاہد اعلی مثال ہے اور ہم میں سے بیشتر افراد زاہد کی گفتگو کو سننے کے بعد خود کے اندر کہیں نہ کہیں شرمندگی محسوس کریں گے کہ ہم اپنے رب کی تمام تر نعمتوں کے بعد بھی کسی نہ کسی جانب مدد کے منتظر ہوتے ہیں کہ شاید کام آسانی سے ہوجائے۔

ایسی ہی ایک اور مثال گوجرانوالہ کے سبزی فروش چاچا بشیر کی ہے۔ جس کے پیدائشی طور پر دونوں ہاتھ نہیں ہیں مگر وہ بھی گلی گلی سبزی بیچ کر اپنے بچوں کا پیٹ پال رہا ہے۔کراچی کا احمد نامی ٹیلی فون آپریٹر ہے جس نے ایک ٹریفک حادثے میں اپنے دونوں بازو کھو دیے مگر اپنی قوتِ ارادی سے دوبارہ زندگی کی دوڑ میں رواں دواں ہے۔

یہ تینوں اور ان جیسے بہت سے با ہمت افراد کہنے کو تو ہمارے معاشرے میں آٹے میں نمک کے برابر ہیں مگر ان کی مثال ہمارے لیے نا صرف انفرادی بلکہ اجتماعی زندگی کے لیے مشعل راہ ہے۔ اگر یہ لوگ اپنی جسمانی کمزوری کو بالائے طاق رکھ کر زندگی کی دوڑ میں شامل ہو سکتے ہیں تو وہ لوگ جن کو اللہ تعالٰی نے ایک بھرپور اور تندرست جسم عطا کیا ہے وہ کیوں کر مایوسی کی راہ پر چل نکلے ہیں۔وہ کیونکر اپنی چھوٹی چھوٹی مجبوریوں کو کوہ ہمالیہ بنا لیا کرتے ہیں اور لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے میں کوئی عار نہیں سمجھتے۔ وہ نا صرف اپنی خودی کا سودا کر ہرے ہیں بلکہ ہمارے معاشرے پر بھی ایک بھاری بوجھ ہیں۔

پاکستان کے حکمرانوں اور عوام کے لیے ان باہمت لوگوں کی زندگی ایک مثال ہے۔ یہ بیس کروڑ تندرست جسموں اور دماغوں کی سرزمین ہے۔ دنیا کے سب سے ذیاد ذہین لوگ یہاں بستے ہیں۔ یہ ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ سال میں چار موسم ہیں اور دنیا میں نوجوانوں کی سب سے بڑی تعداد پاکستان میں بستی ہے۔ مگر اس کے باوجود ہم اپنے مسائل کے حل اور مالی امداد کے لیے غیروں کی طرف دیکھتے ہیں اور ان کے سامنے جھولی پھیلاتے ہیں۔ ہم نا صرف غیروں کے ناجائز مطالبات مانتے ہیں بلکہ ان کا بوجھ پہلے سے غربت، مہنگائی اور بدامنی میں پسی عوام کے سر ڈالتے ہیں۔

میرا طریق امیری نہیں، فقیری ہے

خودی نہ بیچ، غریبی میں نام پیدا کر

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔