(بات کچھ اِدھر اُدھر کی) - جب خدا چاہتا ہے

شاہ فیصل نعیم  جمعـء 21 نومبر 2014
مجھے الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ میں اُسے کیا کہوں؟ کیسے کہوں؟  بس میں اتنا ہی کہہ سکا ’’حیدر یہ تم ہو‘‘؟۔ فوٹو رائٹرز

مجھے الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ میں اُسے کیا کہوں؟ کیسے کہوں؟ بس میں اتنا ہی کہہ سکا ’’حیدر یہ تم ہو‘‘؟۔ فوٹو رائٹرز

کوئی ساڑھے پانچ بجے کا وقت ہو گاجب کہیں دور سے آتی ہوئی صدائے سحر ’’ اُٹھیں بھائی نماز کا و قت ہو گیا ہے نماز پڑھ لیں ‘‘  مجھ پہ چھائی غنودگی کو دور کرتے ہوئے سماعتوں میں ارتعاش پیدا کررہی تھی۔ مجھے ایسے لگاجیسے یہ آواز میں پہلے کئی بار سن چکا ہوں مگر نیند نے سوچنے کی مہلت ہی نہ دی کہ یہ آواز کس کی ہے؟ میں نے کب اور کہاں سنی؟ یہ صدا آہستہ آہستہ قریب آتی سنائی دے رہی تھی پھر ایک دم سے دروازے پہ دستک ہوئی ، دستک دینے والا پکار رہا تھا؛ ’’ اُٹھو بھائی نماز کا وقت ہو گیا ہے نماز پڑھ لو‘‘ ۔  مجھے اشتیاق ہوا کہ ذرا دیکھوں تو سہی یہ بندہ ہے کون ؟ میں نے جلدی سے دروازہ کھول دیا  اور سامنے وہ کھڑا تھا۔ مجھے الفاظ نہیں مل رہے تھے کہ میں اُسے کیا کہوں؟ کیسے کہوں؟  بس میں اتنا ہی کہہ سکا ’’حیدر یہ تم ہو‘‘؟

حیدر نے میری بات کا جواب دینے کی بجائے صرف اتنا کہا کہ ’’آپ بھی نماز پڑھ لیں جماعت کا وقت ہونے والا ہے‘‘۔

یہ کہتے ہوئے وہ اگلے دروازے کی طرف چل دیا۔  اورمیں دروازے میں کھڑا ہاسٹل کی رہداریوں میں پھیلی سنسانی کا جائزہ لینے لگا۔ سامنے گرلز ہاسٹل کے کچھ کمروں کی لائٹیں روشن تھیں جیسے اندھیری رات میں آسمانِ عالم پہ چند ستارے روشن ہوں ،  سامنے سڑک پہ ایک کتا بھونک رہا تھا، ساتھ والے روم کے باہر پڑی چپلوں میں ایک ننھی سی بلی محو خواب تھی میں یہ سب دیکھ رہا تھا اور حیدر اب تک صدائے سحر لگاتا وہ نکڑ والے کمرے تک پہنچ چکا تھا۔

حید ر میں آنے والی یہ تبدیلی مجھے ہضم نا ہوئی مجھے یقین ہی نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی حیدر ہے جس کےساتھ میں کبھی رہتا تھا جو نماز کا وقت ہوتے ہی سو جاتا اور اگر اسے  کہا جاتا کہ آؤ نماز پڑھنے چلیں ،تو  جواب میں صرف اتنا کہتا کہ آپ جاؤ اور میرے لئے  بھی دعا کر دینا۔ حیدر کی ہر بات لڑکی سے شروع ہوتی اور لڑکی پہ ہی ختم ہوتی ، جو ہر قسم کی فلموں کا رسیا تھا، جسے کل تک کوئی خانہ ِ خدا کی طرف بلاتا تھا آج وہ دوسروں کو بُلا رہا ہے۔  وہ چلا گیا اور میں اُس سے اس تبدیلی کا سبب نا جان سکا۔ اگلے دن میں اُس کے روم میں گیا وہ بیٹھا کچھ پڑھ رہا تھا۔ میں نے کہا  یار کوئی فلم پڑی ہے تو دے دو وقت ضائع کرنے کو دل کر رہا ہے۔ مگر اُس کا جواب سن کر میں شرمندہ سا ہو کر رہ گیا، الحمداللہ! بھائی میرے لیپ ٹاپ میں اب نا تو کوئی فلم ہےاور نا ہی کوئی گانا۔

ساتھ ہی اُس نےمجھے ایک پمفلٹ دیتے ہوئے درسِ قرآن میں جانے کی دعوت دی۔ اب میں اور انتظار نہیں کر سکتا تھامیں اس تبدیلی کا سبب جاننا چاہتا تھا۔ آپ کے قرب و جوار میں رہنے والا ایسا شخص جو ہمیشہ گندے کپڑوں میں ملبوس دیکھا جاتا ہے ایک دن اگر وہ صاف کپڑے پہن لے تو ہر کوئی پوچھنے لگتا ہے کہ میاں کہیں جا رہے ہو ؟ آج خیر تو ہے ؟ نئے کپڑے پہن رکھے ہیں۔

حیدر بھائی میں کچھ سمجھا نہیں ، آپ میں یہ تبدیلی کیسے آئی؟ میں نے سوال داغ دیا۔

وہ میری طرف دیکھتے ہوئےیوں گویا ہوا، یار کوئی خاص وجہ نہیں بس یہ سمجھ لو کہ میں خدا کا ایک بھٹکا ہوا بندہ تھا اور خدا نے چاہا کہ میں  اس کی طرف لوٹ آؤں تو یہ سب کچھ ہو گیا۔

اُس کی بات سن کر میرے  ذہن میں ایک فلم سی چلنے لگی۔ یہ اللہ والے جو ہوتے ہیں نا ان کی باتیں بڑی میٹھی ، پیاری، چاشنی خیز اور معانی و مطالب سے لبریز ہوتی ہیں۔ ایک واقعہ پیشِ خدمت ہے۔ ایک فقیر محل کے پاس سے گزر رہا تھا اور بادشاہ بالکونی میں کھڑا اُسے دیکھ رہا تھا ، بادشاہ کا دل کیا کہ وہ اس فقیر سےملے ، بادشاہ نے اپنے کارندوں کو حکم دیا کہ وہ فقیر جو محل کے قریب سے گزر رہا ہے اُسے ہماری خدمت میں پیش کیا جائے ۔ بادشاہ کے حکم کی فوراً تعمیل کی گئی اور چند لمحوں میں فقیر بادشاہ کے روبرو تھا ۔ بادشاہ نے اُس سے ایک سوال کیا۔، اے بزرگوار ! بتاؤ خدا تک کیسے پہنچا جا سکتا ہے ؟

جیسے میں تم تک  پہنچ گیا۔ فقیر نے جواب دیا

بادشاہ فقیر کی بات سن کر سوچ میں ڈوب گیا مگر اُسے بات سمجھ نا آئی اُس نے فقیر سے توضیح کی درخواست کی۔

فقیر نے کہا بادشاہ سلامت عام سی تو بات ہے ۔ فرض کریں میرا دل کرتا کہ میں آپ سے ملوں، اُس کے لئے مجھے کیاکیا کچھ کرنا پڑتا۔ پہلے میں آپ کےمحل کا پتا لیتا، کسی کارندے، وزیر، مشیر کے ساتھ تعلقات استوار کرتا جو مجھے کئی بہانوں سے ٹال مٹول میں رکھتا ، اگر اُس کا دل مہربان ہو جاتا تو میرا نام ملاقاتیوں کی فہرست میں شامل کردیا جاتا، نجانے کبھی میری باری آتی یا نا آتی اور اگر کبھی آبھی جاتی تو آپ کی مرضی تھی کہ آپ مجھے شرفِ رفاقت بخشتےہیں یا نہیں۔ مگر جب آپ نے چاہا کہ میں آپ سےملوں تو چند پل بھی نہیں لگے اور میں آپ کے سامنے ہوں ۔ خدا تک پہنچنا بھی ایسا ہی ہے جب خدا چاہتا ہے کہ اُس کا بند ہ اُس کی طرف لوٹ آئے تو پھر وقت نہیں لگتا۔

حیدر ٹھیک ہی کہہ رہا تھا کہ میں خدا کا بھٹکا ہوا بندہ تھا بس اُس نے چاہا کہ میں اُس کی طرف لوٹ آؤں  تو یہ سب کچھ ہو گیا۔ اگر ہم سب بھی اس ذات کی طرف یعنی اپنے اصل کی طرف لوٹ جائیں تو اپنے دین کے ساتھ ساتھ  ملک میں پھیلی بے راہ روی، کرپشن، لوٹ مار ، ناانصافی اور  قتل و غارت گردی  کا یقنناَ خاتمہ ہوجائے گا، اور پھر ہمیں بحیثیت ایک قوم دنیا میں ترقی سے کوئی نہیں روک سکتا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔