ایک نیا سیاسی اتحاد؟

ظہیر اختر بیدری  ہفتہ 22 نومبر 2014
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

ایک اطلاع کے مطابق حکومت نے مسلم لیگ (ن) کے توسط سے پی ٹی آئی کے خلاف ایک مشترکہ سیاسی اتحاد بنانے کے لیے مشاورت شروع کردی ہے، اس اتحاد کا مقصد تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے جارحانہ بیانات اور ان کی سیاسی سرگرمیوں کا جواب دینا ہے۔

14 اگست کے بعد حکمران سیاسی جماعت کی طرف سے یہ دوسرا اتحاد ہوگا۔ پہلا 11 جماعتی اتحاد پارلیمنٹ کے اندر بناتھا ۔ اس وقت پارلیمنٹ کے باہر 20،25 ہزار سیاسی کارکن اور عوام دھرنا دیے بیٹھے تھے اور ان دھرنوں کی قیادت عمران خان اورطاہر القادری کررہے تھے، عمران خان اور طاہر القادری نے ایک مشترکہ غلطی یہ کی تھی کہ نواز شریف کے بے مقصد استعفیٰ کو انھوں نے اپنا مرکزی مطالبہ بنالیا تھا۔دونوں رہنما ’اسٹیٹس کو‘ توڑنا چاہتے تھے اور اس مطالبے کو ملک کے 20 کروڑ عوام کی حمایت اس لیے حاصل تھی کہ یہ اسٹیٹس کو عوام کے لیے ایک آہنی شکنجہ بن گیا ہے۔

عمران خان نے اپنی اس غلطی کا ازالہ ملک کے مختلف بڑے شہروں میں جلسوں سے کیا۔ ان جلسوں کی ناقابل یقین کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ ملک کے مختلف شہروں میں رہنے والے لوگوں کو جو کئی مشکلات کی وجہ سے ڈی چوک کے دھرنوں میں شریک ہونے سے قاصر تھے اپنے اپنے شہروں میں حکومت کے خلاف اور عمران خان کے حق میں اپنے جذبات کے اظہار کا موقع مل گیا۔ عمران خان کا ہر جلسہ بلاشبہ سونامی جلسہ بن گیا اور قادری صاحب کے جلسے بھی سونامی بننے لگے۔

یہ حکومت کے خلاف ایک طرح کا ریفرنڈم تھا اگرجمہوری کے نام پر نثار ہونے والی حکومت کو جمہوری قدروں کا ذرا بھی پاس ہوتا تو وہ مستعفی ہوکر ایک عبوری حکومت کی زیر نگرانی مڈ ٹرم انتخابات کرادیتی لیکن چوں کہ حکومت عوامی مینڈیٹ کی مدت ہر حال میں پوری کرنے پر بضد ہے لہٰذا جمہوری اخلاقیات کو روندا جارہاہے۔ڈی چوک کے دھرنوں کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے بعد حکومت نے اگرچہ سکون کا سانس لیا تھا لیکن تحریک انصاف کے سونامی جلسوں نے ایک بار پھر اس کا سکون برباد کردیا ہے۔

جلسوں کی مسلسل ناقابل یقین کامیابی کو روکنا مشکل تھا ان سونامی جلسوں کو روکنے کا واحد طریقہ یہ رہ گیا تھا کہ جلسوں کے شرکا میں خوف و دہشت پیدا کردی جائے۔ سو جہلم کے جلسے میں شرکت کے لیے ریلی کی شکل میں آنے والوں پر اندھا دھند گولیاں چلاکر اس واحد آپشن کو بھی استعمال کرلیاگیا لیکن یہ آپشن بھی اس لیے ناکام ہوگیا کہ اس جابرانہ استحصالی نظام سے اکتائے ہوئے بیزار عوام نے اس حملے کی کوئی پرواہ نہیں کی اور جہلم کے جلسے میں حسب روایت بصورت سیلاب شریک ہوئے۔ ان شرکا میں ہزاروں پرجوش خواتین اور بچے بھی شامل تھے جو کسی بھی ممکنہ دہشت گردی کو خاطر میں لانے کے لیے تیار نہ تھے اور اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر عمران خان کے جلسوں میں شریک ہورہے تھے اور ’’گو نواز گو‘‘ کے فلک شگاف نعرے لگارہے تھے۔

حکومت کو بجا طور پر یہ احساس ہورہاتھا کہ عمران خان ملک بھر میں جلسوں کی مہم چلانے کے بعد کسی دن ملک بھر میں پہیہ جام ہڑتال کی کال دے سکتے ہیں اور مزید خطرہ یہ تھا کہ طاہر القادری نومبر کے تیسرے ہفتے میں پاکستان آرہے ہیں اور اس کالم کے چھپنے تک آچکے ہوں گے اور وہ بھی بھکر کے جلسے سے اپنی مہم کا آغاز کررہے ہیں۔ اگر یہ دونوں رہنما مشترکہ طور پر پہیہ جام ہڑتال کی کال دے دیں تو پھر یہ ممکنہ ہڑتال 1977 کا ری پلے بن جائے گی جس کے بعد حکومت کے لیے حالات کو کنٹرول کرنا  شاید ممکن نہ رہے۔یہی وہ خطرہ اور خوف ہے ۔

جس نے حکومت کو ایک اور مشترکہ اتحاد کے لیے مجبور کردیا ہے مشکل یہ ہے کہ پارلیمنٹ کے اندر 11 جماعتی اتحاد کے پاس نواز شریف کے استعفے کو غیر آئینی اور غیر جمہوری قرار دینے کا ایک معقول جواز تھا لیکن اب جن مطالبات کے حوالے سے جلسے جلوسوں کا سلسلہ چل رہا ہے اس میں انتخابی اصلاحات، زرعی اصلاحات، بلدیاتی الیکشن 2013 کے الیکشن میں ہونے والی دھاندلی کی آزادانہ، غیر جانب دارانہ تحقیقات اور لوٹ مار کا حساب جیسے مطالبات شامل ہیں جو نہ غیر آئینی ہیں نہ غیر جمہوری، پھر یہ نیا زیر تشکیل اتحاد اس کا دفاع کس طرح کرے گا؟صورت حال یہ ہے کہ حکومت اور اس کے اتحادی اس حد تک راندۂ عوام ہوگئے ہیں کہ وہ جہاں جاتے ہیں گو گو کے نعروں سے ان کا استقبال ہوتا ہے۔

ایسی صورت حال میں وہ کامیاب جوابی جلسے کرکے عمران اور قادری کا مقابلہ تو شاید نہ کرسکیں پھر ان کے پاس کیا آپشن رہ جائے گا؟ ایک آپشن یہ ہے کہ عمران قادری اور ان کے سرگرم ساتھیوں کو گرفتار کرلیا جائے اس کے لیے حکومت نے ان کے خلاف مقدمات بھی تیار کررکھے ہیں اور عدالتوں کی طرف سے ان کے وارنٹ بلکہ ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بھی جاری کیے جاچکے ہیں اور انھیں مفرور بھی قرار دے دیا گیا ہے۔

یہاں میں 1969 کی مزدور تحریک کا ایک حوالہ دینا چاہوں گا۔ 1969 میں یحییٰ خان نے طلبا سیاسی کارکنوں، مزدوروں کی اندھا دھند گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا تھا ہم سمیت کئی سیاسی کارکنوں، رہنماؤں، مزدوروں، طالب علموں کی پکڑ دھکڑ کا سلسلہ جاری تھا۔ سرسری سماعت کی فوجی عدالتوں سے دھڑادھڑ سزائیں دی جارہی تھیں۔ ہمارے خلاف مارشل لاء کورٹ کی طرف سے گرفتاری کے وارنٹ جاری ہوچکے تھے۔

ہمارے گھروں پر چھاپے مارے جارہے تھے اور ہم پٹھان کالونی میں جلسے کررہے تھے جہاں مزدور ہماری حفاظت کررہے تھے اور مزدوروں اور ان بستیوں کے عوام کی حمایت ہمیں حاصل تھی حکومت کو معلوم تھا کہ ہم پٹھان کالونی میں موجود بھی ہیں اور جلسے بھی کررہے ہیں لیکن ہمیں پکڑنے کی ہمت کسی ایجنسی کو نہ تھی۔

اگر حکومت آخری آپشن استعمال کرتے ہوئے عمران قادری وغیرہ کو گرفتار کرنے کی کوشش کرتی ہے تو کراچی سے میانوالی تک بپھرے ہوئے عوام کیا یہ تماشہ خاموشی سے دیکھیں گے؟ شیخ رشید کہہ رہا ہے کہ اگر عمران خان کو گرفتار کیا گیا تو ملک میں آگ لگ جائے گی۔ یہ آگ اس لیے لگ سکتی ہے کہ اس ملک کے 20 کروڑ عوام 67 سال سے جاری لوٹ مار کے نظام سے نفرت کی حد تک بیزار ہیں اور عمران خان اس نظام کو بدلنے کی بات کررہا ہے حکومت کا ممکنہ سیاسی اتحاد تو الزامات کے علاوہ کچھ نہیں کرے گا البتہ حکومت کے پاس ایک آپشن یہ ہے کہ وہ خود اس جابرانہ استحصالی نظام کو بدلنے کا نعرہ بلند کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔