مستقبل کے معمار یا ناسور

لطافت علی جوہر  ہفتہ 22 نومبر 2014

بچے قدرت کا حسین تحفہ اور نعمت ہونے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کا قیمتی سرمایہ بھی ہوتے ہیں۔ یہ ہمارا قیمتی سرمایہ اور مستقبل کے معمار جن سے ہمارے روشن مستقبل کی امیدیں وابستہ ہیں بڑی بے دردی کے ساتھ گلیوں کوچوں میں آوارگی کی نذر ہوکر ضایع ہوتا ہوا نظر آئے تو دل بے اختیار خون کے آنسو روتا ہے۔

ہمارے ملک میں بدقسمتی سے اس اہم مسئلے پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔ عدم توجہی، بے دھیانی اور ریاست کی طرف سے کوئی واضح پالیسی اور منصوبہ بندی، قانون سازی اور عملداری نہ ہونے کے باعث بچوں کے بہتر ماحول اور سازگار مستقبل کی کوئی ضمانت نہیں دی جاسکتی اور تبدیلی کی ساری امیدیں، آسرے، وعدے اور دلاسے دم توڑتے نظر آرہے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے قائدین اور باشعور لوگوں کے معیار اور پیمانے بھی عجیب ہیں، ہمارے پاس سب سے لاوارث مخلوق بھی عورتیں اور بچے ہیں جنھیں مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔

اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا میں ہر سال 60 کروڑ بچے غربت، جنگ، قحط و بدحالی کے باعث لقمہ اجل بن جاتے ہیں جب کہ اس سے پہلے ہر سال دنیا بھر میں 55 لاکھ نوزائیدہ بچے اسپتالوں میں صحت کی بہتر سہولتیں اور دیکھ بھال نہ ہونے کے سبب فوت ہوجاتے ہیں۔ 25 کروڑ بچے محنت و مزدوری کرکے پیٹ پالتے ہیں۔40 کروڑ بچے منشیات کے عادی ہیں۔ 41 کروڑ بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کیا جاتا ہے۔ 10 کروڑ بچے بے سہارا ہیں۔ ایڈز اور دیگر جان لیوا بیماریوں کے سبب یتیم ہونے والوں کی تعداد ایک کروڑ ہے۔ 11 کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں۔ 40 ہزار شادیاں 5 سے 6 سال کے بچوں سے کرائی جاتی ہیں۔ ایسی صورت حال میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟

اقوام متحدہ کے عالمی ادارے کی جانب سے جاری کردہ رپورٹس کے مطابق پاکستان میں 40 فیصد بچے غربت کی لکیر سے نچلی سطح والی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ پاکستان میں 3 سے 18 سال کے 2.5 ملین بچے بے گھر ہیں جنھیں ہم اسٹریٹ چائلڈ(Street Child) کہتے ہیں جن میں 70 فیصد بچے منشیات کی لعنت کا شکار ہیں۔ پاکستان کے شہر لاہور میں تقریباً 70 ہزار بچے بھیک مانگتے ہیں جب کہ کراچی میں یہ تعداد دگنی ہے۔ صحت کی سہولتیں میسر نہ ہونے اور مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کے باعث 7 ہزار بچے پیدائش کے کچھ ماہ بعد فوت ہوجاتے ہیں۔ 18 سال سے کم عمر کے 2 کروڑ بچے تعلیم حاصل کرنے سے مکمل طور پر محروم ہیں، ہر سال تقریباً6 ہزار بچے اغوا، قتل، جنسی تشدد کے باعث خودکشی اور قبائلی جھگڑوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کے ہر شہر میں بچوں کی بڑی تعداد منشیات کی لعنت میں مبتلا ہے۔

خوشیاں اور مسکراہٹیں بکھیرتے یہ بچے جو کھلونوں اور محبتوں کے طلب گار ہوتے ہیں ان کے حصے میں زمانے کی ذلتیں اور سماج کی رسوائیاں، اخلاقی برائیاں اور منشیات جیسی لعنت کا اصل سبب ان کے گھر سے جنم لیتا ہے۔ اقوام متحدہ کے ادارے ’’منشیات اور جرائم‘‘ نے لوگوں میں منشیات کی لعنت سے نجات دلانے کے لیے ایک ’’آگہی مہم‘‘ چلائی جس کا موضوع ’’منشیات بچوں کا کھیل نہیں‘‘ منتخب کیا۔ جس کے بعد عالمی ادارہ (UN) کے منتظمین نے سخت تشویش ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ اگر دنیا کے اندر بچوں میں منشیات کا استعمال روکا نہ گیا تو یہ بڑی تباہی پھیلانے والا ’’سماجی بم‘‘ (Social Bomb) ثابت ہوگا۔ پاکستان میں نشے کے عادی بچوں کی تعداد تقریباً 2 ملین ہے۔

رپورٹ کے مطابق پنجاب میں 70 ہزار بچے منشیات کے عادی ہیں جب کہ صوبہ سندھ کے شہر کراچی میں یہ تعداد دو لاکھ کے لگ بھگ ہوگی۔ رپورٹ میں لاہور کے حوالے سے بتایا ہے کہ اس وقت 40 ہزار بچے روڈز، سڑکوں، راستوں اور مارکیٹوں کے آس پاس بھیک مانگ رہے ہیں اور ایسے بچوں کی بڑی تعداد نشہ استعمال کرتی ہے اور نشے کے عادی ان بچوں کا معاشرے سے تعلق ٹوٹ جاتا ہے اور ناکردہ جرائم اور گناہوں کے الزام میں یہ بچے اپنا اعتبار گنوا بیٹھتے ہیں جس کی وجہ سے والدین، رشتے دار اور دوستوں کی حقارت و نفرت کا مرکز بن جاتے ہیں۔

نشے کی طلب، معاشرے کی ذلت بھری نگاہیں اور معاشرے کے حقارت اور نفرت آمیز رویے انھیں جرائم کی دنیا میں دھکیل دیتے ہیں۔ معاشرہ ان سے نفرت تو کرتا ہے لیکن ان کے اسباب جاننے کی کوشش نہیں کرتا۔ نشہ کرنے والے بچوں کی بڑی تعداد غریب طبقے سے تعلق رکھنا بھی ایک قابل غور عوامل ہے اور نشے کا استعمال کا بڑا سبب ان کے گھر کا ماحول بھی ہے۔ غریب گھرانوں میں غربت کے علاوہ کافی ایسے عوامل ہیں جو بچے کو گھر سے دور کردیتے ہیں۔

غربت کے ساتھ ساتھ جہالت اور بیروزگاری بھی انھیں کئی مسائل میں جکڑ لیتی ہے ان میں خاص طور پر گھر والوں کا بچوں کے ساتھ ناروا سلوک اور منفی رویے لعنت و ملامت، طعنے و تشنے برداشت نہ کرنا بھی ہے، بدقسمتی سے گھر، محلے اور اسکول میں مناسب تربیت نہ ہونے کے سبب ہمارے معاشرے میں برداشت کا مادہ اور برداشت کی قوت ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہم کبھی بھی کمزوروں کو برداشت نہیں کرتے اور ان پر حکم چلا کر نفسیاتی تسکین حاصل کرتے ہیں۔ میاں بیوی کے درمیان جھگڑے کی شرح امیر طبقے سے غریب طبقے میں زیادہ ہوتی ہے۔ مرد ہمیشہ اپنی طاقت کی دھاک اور اثر بٹھانے کے لیے عورتوں اور بچوں پر تشدد کرتا رہا ہے۔

ایسی صورت میں بچے ہی سب سے زیادہ تشدد کا شکار ہوتے ہیں اور جلد ہی اس کے منفی اثرات قبول کرلیتے ہیں۔ غریب خاندان مایوسی کا شکار ہوکر بے بسی اور وسائل کی عدم دستیابی کو قسمت کا لکھا سمجھ کر خود پر مسلط کرلیتے ہیں۔ بہتری کی جانب کوشش کرنے کے بجائے تمام مصیبتوں اور پریشانیوں کو مقدر سمجھ کر قبول کرتے ہیں جب کہ بچے اس دوران کئی ذہنی خواہ جسمانی طور پر ارتقائی منازل طے کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں۔ کافی بچے ماحول اور حالات سے سمجھوتہ کرلیتے ہیں جب کہ بیشتر بچے تبدیلی چاہتے ہیں اور یہ تبدیلی انھیں گھر سے باہر ہی نصیب ہوتی ہے۔

بچے خوشی، لذت اور تسکین حاصل کرنا چاہتے ہیں جو انھیں گھر میں نہیں مل سکتی اور گھر سے باہر وہ غلط ہاتھوں میں چلے جاتے ہیں جو انھیں نشے کا عادی بناکر ان کے ساتھ جنسی تشدد اور غیر اخلاقی برائیاں کرتے ہیں اور بچے ان برائیوں میں لذت، سکون اور راحت محسوس کرتے ہوئے آہستہ آہستہ ان جرائم کے عادی ہو جاتے ہیں۔ نشے کے عادی ہر بچے کے گھر کے حالات مختلف ہوتے ہیں لیکن ایک عنصر سب میں مشترک ہے وہ ہے تشدد۔

14 فیصد بچے گھر کے ماحول والدین اور بھائیوں کو دیکھتے ہوئے نشے کو اپناتے ہیں اور 35 فیصد بچوں کو جبری طور پر نشے کا عادی بنایا جاتا ہے 40 فیصد بچے دوستوں کی صحبت اور گلی محلے کے دوستوں کے ذریعے نشہ استعمال کرتے ہیں۔ 10 فیصد بچوں کے ہاتھ پاؤں توڑ کر انھیں فقیر بناکر بھیک منگوائی جاتی ہے۔ معاشرے کی ایسی ستم ظریفی پر ارباب اختیار خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور وہ خود اس فرسودہ نظام کا حصہ بنے ہوئے ہیں اور یہ سلسلہ جیسا کہ تیسا چلتا رہتا ہے اور رہے گا جب تک اس کے خلاف کوئی موثر حکمت عملی یا اقدامات نہ کیے جائیں اور وہ دن دور نہیں جب ان مظلوموں کی داد رسی ہوگی اور ہر نئے طلوع ہونے والے سورج کی طرح وہ غلامی کے طوق دلدل سے آزاد ہوں گے اور ایک صبح کی نوید دیتے ہوئے اپنی آزاد و خوشحال زندگی گزاریں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔