رونا لیلیٰ کی آواز کا سحر

یونس ہمدم  ہفتہ 22 نومبر 2014
hamdam.younus@gmail.com

[email protected]

میں کراچی کے جس پرانے محلے میں رہتا تھا اسی محلے میں آج کا مشہور شاعر انور شعور بھی رہتا تھا ہم دونوں کی اکثر راستے میں ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں ان دنوں وہ انور افسری کے نام سے بچوں کے لیے نظمیں اور نعتیں لکھا کرتا تھا انھی دنوں بچوں کے مختلف رسالوں میں، میں بھی کہانیاں اور نظمیں لکھا کرتا تھا اس دوران مجھ سمیت کئی دوستوں نے انور افسری سے کہا کہ یار! تمہارے نام سے نسوانیت جھلکتی ہے اور یہ لڑکیوں جیسا لگتا ہے۔

پہلے تو اس نے بہت برا منایا پھر اس کی سمجھ میں یہ بات آ گئی اور اس نے اپنا نام انور شعور رکھ لیا اس تذکرے کے بعد میں پھر اپنی یادوں کے دریچے کی طرف آتا ہوں۔ بچپن میں میری آواز اچھی تھی اور میں گھر کی میلاد کی محفلوں میں نعتیں بھی پڑھتا تھا لیکن پھر میری دلچسپی موسیقی اور شاعری کی طرف بڑھنے لگی جب کہ میرے خاندان میں دور دور تک کوئی شاعر نہیں تھا۔ مجھے نو عمری ہی سے نور جہاں کے گیت بہت اچھے لگتے تھے جیسے جیسے مجھے شعور آتا گیا میری شاعری اور موسیقی سے دلچسپی بھی جنون کی صورت اختیار کرتی چلی گئی۔

میں رات کو والد صاحب سے چھپ چھپ کر ریڈیو سے گیتوں اور غزلوں کے پروگرام سنا کرتا تھا ایک رات اسلامیہ کلب سولجر بازار میں نامور گلوکارہ فریدہ خانم کی غزل کی محفل تھی میں بھی اپنے ایک دوست کے ساتھ فریدہ خانم کو سننے کے لیے بڑے شوق سے گیا غزل کی محفل رات گئے تک جاری رہی مجھے وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہو سکا۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد میرے دوست نے میرے گھر کی گلی میں چھوڑا اور جب میں نے ڈرتے ڈرتے اپنے گھر کے دروازے پر جا کر دستک دی تو کچھ توقف کے بعد میری والدہ نے ذرا سا دروازہ کھولا اور دودھ کا برتن میرے سامنے کر دیا والدہ سمجھیں کہ صبح ہو گئی اور دودھ والا آیا ہے۔

میں نے دھیمی آواز میں کہا۔ آپا میں ہوں یونس، والدہ نے میرا نام سنتے ہی برہمی سے کہا۔ کمبخت یہ تیرے آنے کا وقت ہے۔ تیرے بابو جی فجر کی نماز کے لیے مسجد گئے ہیں۔ وہ آنے ہی والے ہوں گے۔ چل جلدی سے گھر میں آ تجھے دروازے پر دیکھ لیا تو پھر تیری خیر نہ ہو گی۔ میں تو تنگ آ گئی ہوں تیری باتیں چھپاتے چھپاتے، میں تیزی سے گھر میں داخل ہوا اور فٹافٹ جوتے اتار کر اور چادر اوڑھ کر اس طرح لیٹ گیا جیسے دیر سے سو رہا ہوں، پھر نہ جانے مجھے کب نیند آئی اور صبح اپنے والد کی گرجدار آواز سن کر ہڑبڑا کر اٹھ گیا۔ والد صاحب صلواتیں سنا رہے تھے نالائق دیر تک سوتا رہتا ہے۔ نہ روزے کا نہ نماز۔ چل اٹھ باہر دیکھ تیرا کوئی دوست آیا ہے۔ میں نے اپنے آپ کو فوراً سمیٹا اٹھ کر سیدھا باہر گیا۔ میرا فن کار دوست امیر احمد خان پریشان انداز میں کھڑا تھا۔

مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا۔ یار! تیرے والد تو غصے کے بڑے تیز ہیں۔ میں تو تیرے لیے ایک خوش خبری لے کر آیا تھا۔ وہ ساری کافور ہو گئی۔ میں چلتا ہوں تو بس تیار ہو کر ریڈیو اسٹیشن آ جا۔ باقی باتیں اب وہیں ہوں گی اور یہ کہہ کر امیر احمد خان فوراً سے پیشتر روانہ ہو گیا۔ میں بھی سمجھ گیا تھا کہ آج میرے والد کا نزلہ اس پر بھی گر گیا ہے۔ خیر میں جلدی جلدی تیار ہوا اور پہلی فرصت میں ریڈیو اسٹیشن پہنچ گیا میرے اصرار کرنے پر امیر احمد خان نے وہ سارا قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ جب میں نے تمہارے گھر کے دروازے پر دستک دی تو اتفاق سے تمہارے والد صاحب ہی باہر آئے۔ میں نے سلام کر کے کہا۔ انکل! میں ہمدم کا دوست ہوں۔ اس کو لینے آیا ہوں۔ تمہارے والد نے پہلے سر سے پیر تک مجھے غور سے دیکھا پھر پوچھا کون ہمدم؟ میں یہ سن کر سٹپٹا گیا۔ میں نے دوبارہ کہا انکل! میں ہمدم کا کالج کا دوست ہوں۔ انھوں نے پھر پوچھا ارے بھئی! کون ہمدم؟ میں نے گلہ صاف کرتے ہوئے اور ہمت کر کے پھر کہا جی وہ ہمدم۔ تمہارے والد بولے یہاں کوئی ہمدم نہیں رہتا۔ تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔

اس گلی میں ایک جیسی کئی پرانی بلڈنگیں ہیں۔ تم شاید بلڈنگ بھول گئے ہو۔ میرے منہ سے بے ساختہ نکلا انکل! میں تو یونس ہمدم کو اکثر اسی گھر کے دروازے پر چھوڑتا رہا ہوں۔ جب انھوں نے یونس کا لفظ سنا تو پھر وہ بولے اچھا اچھا تم سید یونس علی کی بات کر رہے ہو۔ اب اس نے اپنا نام بھی اول فول رکھ لیا ہے ابھی بھیجتا ہوں۔ پھر وہ اندر گئے اور تم باہر آئے تو میرے پہلے ہی اوسان خطا تھے تم سے کیا بات کرتا۔ پھر اس نے کہا۔ یار ہمدم تیرے گھر والے تو تیرے شاعر ہونے سے بے خبر اور تیرے تخلص سے بھی لاعلم ہیں۔ پیارے آگے جا کے تیرا کیا حشر ہو گا۔ میں نے ہنستے ہوئے امیر احمد خان سے کہا۔ یار میرے والد اوپر سے جتنے سخت ہیں اندر سے اتنے نرم بھی ہیں۔

جب میں کسی دن اپنی لکھی ہوئی ایک نعت سنا دوں گا وہ خوش ہو جائیں گے بس تو وہ خوشخبری سنا۔ جو مجھے گھر سنانے آیا تھا۔ امیر احمد نے بتایا کہ وہ چند روز پہلے موسیقار ناشاد کی نئی فلم ’’پھر صبح ہوگی‘‘ کے گیت کی ریہرسل میں گیا تھا۔ وہ جلد ہی ریکارڈ ہونے والا ہے۔ یار ناشاد صاحب ایک بنگالی گلوکارہ رونا لیلیٰ کو اس فلم میں روشناس کرا رہے ہیں، بارہ تیرہ سال کی عمر میں کیا آواز ہے اتنی کم عمر کی ایسی سریلی گلوکارہ میں نے پہلے کبھی نہیں سنی۔ اور ہاں ناشاد نے میرا بھی اس سے اور اس کی والدہ سے تعارف بڑا زبردست کرایا ہے۔ وہ ہمارے موسیقی کے گھرانے سے بھی خوب اچھی طرح واقف ہیں۔ میں نے ان سے گھر پر ملنے کا ٹائم لے لیا ہے کل ان کے گھر شام کو چلنا ہے۔ تو اپنا گانا تیار رکھ کل کی ملاقات میں ریکارڈنگ کی بات بھی کر لیں گے رونا لیلیٰ بہت خوش ہو گی یہ سن کر اسے دوسری فلم گانے کے لیے ملے گی۔ اور پھر دوسرے دن شام کو میں اور موسیقار امیر احمد خان رونا لیلیٰ کے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہوئے تھے۔

کچھ دیر کے بعد ایک عمر رسیدہ خاتون کے ساتھ دو سانولی سلونی لڑکیاں بھی ڈرائنگ روم میں داخل ہوئیں اور سلام کر کے صوفے پر بیٹھ گئیں ان کی ممی نے ان دونوں لڑکیوں سے تعارف کراتے ہوئے کہا یہ میری بڑی بیٹی ڈینا لیلیٰ ہے اور چھوٹی رونا لیلیٰ ویسے تو یہ دونوں ہی بہت اچھا گاتی ہیں مگر میری بیٹی رونا لیلیٰ کی آواز کو ناشاد نے بہت پسند کیا ہے اگلے ہفتے رونا لیلیٰ اپنا پہلا گیت ان کی فلم ’’پھر صبح ہو گی‘‘ کے لیے ریکارڈ کرائے گی۔ امیر احمد خان ریہرسل کے دوران رونا لیلیٰ کو سن چکا تھا اس نے رونا کی تعریف کرتے ہوئے کہا آنٹی! رونا لیلیٰ واقعی بہت ہی سریلی ہے۔ ناشاد صاحب کی فلم کے بعد اس کے چرچے تو گلی گلی ہوں گے۔

پھر امیر احمد خان نے کہا آنٹی! ہم بھی اپنی فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ کا گانا رونا سے گوانا چاہتے ہیں۔ فلم کی ہیروئن نئی اداکارہ سنگیتا ہے جسے ڈھاکہ کے ہیرو اور ہدایت کار رحمان نے اپنی فلم ’’کنگن‘‘ میں ہیروئن لیا تھا۔ رونا لیلیٰ کی ممی نے کہا۔ امیر خان صاحب ہمیں پیسوں سے زیادہ دلچسپی نہیں ہے۔ بس ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ رونا لیلیٰ اچھے موسیقاروں کے ساتھ کام کرے۔ آپ بھی مشہور گھرانے کے موسیقار ہو۔ رونا آپ کی فلم کے لیے بھی خوشی سے گائے گی۔ پھر میں نے اس گیت کے بول سنائے جو رونا لیلیٰ کی آواز میں ہم ریکارڈ کرنا چاہتے تھے۔ امیر احمد خان نے اپنی آواز میں گیت کا مکھڑا گا کر سنایا۔ جس کے بول تھے:

یہ ہم سے روٹھنا کیسا یہ ہم سے بے رخی کیسی

جو تم ہی روٹھ جاؤ گے تو پھر دل کو خوشی کیسی

رونا لیلیٰ اور اس کی ممی دونوں نے گیت کا مکھڑا اور دھن کو پسند کیا۔ اور پھر دس پندرہ دن کے بعد وہ دن بھی آ گیا جب ایسٹرن اسٹوڈیو میں فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ کے گیت کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی۔ گیت کے دو ورژن تھے۔ ایک احمد رشدی کی آواز میں اور دوسرا رونا لیلیٰ کی آواز میں، مگر پہلے دن رونا لیلیٰ والا گیت ریکارڈ کیا جا رہا تھا دوسرے دن انترے بدل کر گیت کا دوسرا ورژن احمد رشدی کی آواز میں ریکارڈ ہونا تھا۔ ایسٹرن اسٹوڈیو میں فلم ’’تم سا نہیں دیکھا‘‘ کی مہورت رونا لیلیٰ کی آواز میں صدا بند کیے گئے گیت سے کی گئی تقریب میں کافی مہمان مدعو کیے گئے تھے، پریس کے بھی کافی لوگ تھے اور پاکستان کے مشہور کلاسیکل گلوکار استاد امراؤ بندو خان (پرائڈ آف پرفارمنس) فلم کی مہورت کے مہمان خصوصی تھے۔

ریکارڈنگ کے بعد گیت مہمانوں کو سنوایا گیا جسے سب نے پسند کیا اور سب ہی نے رونا لیلیٰ کی جادو بھری آواز کی تعریف کی اور اس کے روشن مستقبل کی پیشن گوئیاں بھی کیں جو آگے جا کر سچ ثابت ہوئیں، رونا لیلیٰ جب کراچی کی چند فلموں کے گیت گانے کے بعد لاہور گئی تو لاہور کی فلم انڈسٹری نے بھی رونا لیلیٰ کو ہاتھوں ہاتھ لیا رونا لیلیٰ کی سحر انگیز آواز نے لاہور کے بڑے بڑے موسیقاروں کو حیرت زدہ کر دیا موسیقار ایم اشرف نذیر علی، خلیل احمد، کمال احمد، نثار بزمی کے ساتھ ساتھ ڈھاکہ سے آئے ہوئے اور فلمسٹار شبنم کے شوہر روبن گھوش نے بھی رونا لیلیٰ کی آواز کو اپنی فلموں کی ضرورت بنا لیا اور اس آواز نے میڈم نور جہاں کو بھی چونکا دیا تھا ہر بڑے موسیقار نے رونا لیلیٰ کی دلکش آواز سے اپنی دھنوں کو سجایا۔ اور رونا لیلیٰ کی مدھر آواز نے بے شمار لافانی گیتوں کو جنم دیا اور ایک طویل عرصے تک رونا لیلیٰ لاہور کی فلم انڈسٹری پر چھائی رہی اور اس نے بڑی بڑی گلوکاراؤں کو گھر بٹھا دیا تھا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔