بنگلہ دیش، متحدہ پاکستان کے حامی بھارت نواز حکمرانوں کے زیر عتاب

عبید اللہ عابد  اتوار 23 نومبر 2014
جماعت کی پوری قیادت کوپاکستان سے علیحدگی کی جنگ71ء میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔  فوٹو: فائل

جماعت کی پوری قیادت کوپاکستان سے علیحدگی کی جنگ71ء میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ فوٹو: فائل

عصر حاضر میں بنگلہ دیش کے سوا شاید ہی دنیامیں کوئی ایسا ملک ہوجہاں سیاسی مخالفین کوچن چن کر پھانسیوں پر لٹکایا جارہا ہو یا 80، 90 برس کے لئے جیلوں میں بھیجا جارہا ہو اور پھر وہاں بدترین جسمانی اور نفسیاتی تشدد کرکے موت کے گھاٹ اتارا جارہا ہو۔

ملک کے بانی شیخ مجیب الرحمٰن کی بیٹی اور وزیراعظم بیگم حسینہ واجد کو سب سے زیادہ غم وغصہ جماعت اسلامی پر ہے۔ جماعت کی پوری قیادت کوپاکستان سے علیحدگی کی جنگ71ء میں جنگی جرائم کا مرتکب قرار دیا گیا ہے۔ یہ مقدمات ایسے’’انٹرنیشنل وارکرائمز ٹریبونل ‘‘ میں چلائے جارہے ہیں جو عالمی قوانین انصاف سے متصادم ہے، مختلف غیرملکی حکومتوں اورانسانی حقوق کی تنظیموں نے اسے غیرقانونی قرار دیا ہے۔

یاد رہے کہ اس ٹریبونل کے پہلے سربراہ جسٹس محمد نظام الحق تھے ، جنھوں نے20 برس قبل( جب وہ وکیل تھے)،ایک ’عوامی عدالت‘ لگاکر جماعت اسلامی کے رہنماؤں کو سزائے موت دینے کا اعلان کیا تھا۔ٹریبونل کا سربراہ بننے پر وہ بے حد خوش تھے کہ اب وہ اپنا دیرینہ خواب پورا کرسکیں گے تاہم پھراچانک انھیں استعفیٰ دیناپڑا، بھلاکیوں؟ یہ بھی ایک دلچسپ کہانی ہے جو ممتازبین الاقوامی جریدے ’اکانومسٹ‘ نے شائع کی۔

اس کہانی نے ٹریبونل کی حقیقت اور حسینہ واجد کے منصوبے کی قلعی کھول کر رکھ دی۔ہوایوں کہ جسٹس نظام الحق نے بریسلز میں ایک بنگالی قانون دان ضیاء الدین سے بذریعہ سکائپ طویل گفتگوکی، مختلف نشستوں میں ہونے والی اس گفتگوکا مجموعی دورانیہ 17گھنٹے تھا جبکہ دونوں کے درمیان 320ای میلز بھی ہوئیں۔ یہ ساری گفتگو اور ای میلز ’اکانومسٹ‘ تک پہنچ گئیں۔

ان میں جسٹس نظام نے کہا:’’حسینہ واجد حکومت تو چاہتی ہے کہ میں جلد سے جلد فیصلہ دوں، اور اس خواہش میں یہ لوگ پاگل لگتے ہیں۔ تم ہی بتاؤ، جب استغاثہ نالائقوں پر مشتمل ہے اور ان سے صحیح طریقے سے کیس پیش نہیں ہورہا، تو اس میں مَیں کیا کروں؟ مَیں انھیں کمرہ عدالت میں ڈانٹتا ہوں، مگر ساتھ ہی پرائیویٹ چیمبر میں بلا کر کہتا ہوں، بھائی! ناراض نہ ہوں، یہ سب ڈراما ہے تاکہ غیر جانبداری کا کچھ تو بھرم باقی رہے۔ پھر انھیں یہ بتانا پڑتا ہے کہ وہ کیا کہیں۔ اب تم ہی رہنمائی دو میں کس طرح معاملے کو انجام تک پہنچاؤں‘‘۔

یہ گفتگو ثبوتوں کے ساتھ ’اکانومسٹ‘ لندن کے خصوصی نمائندے نے جریدے کو اشاعت کے لئے بھیج دی ، جریدہ نے فون کر کے جسٹس نظام سے پوچھا کہ ہمارے پاس یہ رپورٹ ہے، وہ جواب میں کہنے لگے: ’’ایسا نہیں ہوسکتا، ہم تو عدالتی معاملات اپنی بیوی کے سامنے بھی زیربحث نہیں لاتے‘‘۔ پھر’اکانومسٹ‘ نے دسمبر 2012ء کے ایک شمارے میں خلافِ معمول رسالے کے مدیر نے اپنے ادارتی نوٹ کے ساتھ ساری کہانی شائع کردی جس نے بنگلہ دیش میں تہلکہ مچادیا۔ یوں جسٹس نظام کو مستعفی ہونا اور حسینہ واجد حکومت کو سبکی کاسامناکرناپڑا تاہم اس کا بدلہ مخالفین پر ظلم وستم کا سلسلہ مزیدتیز کرکے لیا۔

بھارت نوازحکمران جماعت کادعویٰ رہا ہے کہ جنگِ1971ء میں پاکستانی فوج اور جماعت اسلامی نے مل کر 30لاکھ افراد قتل کئے تھے۔ حکومت مخالفین کاکہناہے کہ ہلاکتوں کی تعداد کئی گنا بڑھاچڑھا کر پیش کی گئی ہے۔ یہ امر خاصادلچسپ ہے کہ حسینہ واجدحکومت کو اچانک 42برس بعد ان لوگوں پر مقدمہ چلانا یادآیاجنھیں اس نے اپنے سابقہ دور حکومت میں کابینہ میں شامل کر رکھاتھا اور سب سے بڑی بات کہ جن کے بارے میں بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد بنگلہ دیش کی حکومت نے پاکستان سے معاہدہ کیاتھا کہ بنگلہ دیش کے ان شہریوں پر مقدمات نہیں چلائے جائیں گے جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے خلاف اورمتحدہ پاکستان کے حق میں تھے۔

اقوام متحدہ نے بھی حسینہ واجدحکومت کے قائم کردہ اس وارکرائمز ٹریبونل کے بارے میں تحفظات ظاہرکئے کہ یہ بین الاقوامی قانونی معیار پر پورا نہیں اترتا۔ ملک کے اندر بھی اس ٹریبونل پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ حسینہ واجد نے ٹریبونل جماعتِ اسلامی سے نمٹنے کے لئے قائم کیاتھا۔ 2010ء میں قائم ہونے والے اس خصوصی ٹریبونل کے تمام ججز کا تعلق بنگلہ دیش ہی سے ہے جبکہ اسے ’’انٹرنیشنل وار کرائمز ٹریبونل ‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ انسانی حقوق کے بین الاقوامی اداروں نے بھی ٹریبونل کو بین الاقوامی معیار کے منافی قراردیاہے۔ جس معیارکا ٹریبونل ہے، اسی معیار کے ججز اور ویسے ہی گواہان۔ فرق صرف یہ ہے کہ سن 71ء جو نوجوان مکتی باہنی(بھارت میں عسکری تربیت پانے والا گروہ) کے افراد کے ہاتھوں بدترین تشدد کا نشانہ بنے، وہی پھانسیوں کے پھندوں میں جھول رہے ہیں۔

جماعت اسلامی کی تقریباً پوری قیادت کوسزائے موت سنائی جاچکی ہے۔ جماعت اسلامی کے چوتھے سینئر ترین رہنما عبدالقادر ملا کو پھانسی دی جاچکی ہے۔ عبدالقادرملاسے کہاگیا کہ وہ صدرمملکت سے رحم کی اپیل کرنے کا حق استعمال کریں تاہم انھوں نے ایسا کرنے سے انکارکردیا۔

انھوں نے پھانسی سے پہلے اپنی اہلیہ کے نام خط میں لکھا کہ ان(بنگلہ دیشی حکمرانوں) جیسے لادینوں نے کئی پیغمبروں کو بغیر کسی جرم کے قتل کیا،نبی کریم ﷺ کے کئی ساتھی جن میں خواتین بھی شامل تھیں،انہیں نہایت بیدردی کے ساتھ ماراگیا،ان شہادتوں کے بدلے میں اللہ تعالی نے سچائی کے راستے میں آسانی پیداکی اوراسلام کوفتح سے ہمکنار کیا، مجھے یقین ہے کہ اللہ تعالی میرے معاملے میں بھی ایساہی کرے گا۔ یہ بات میں روزاول سے کہہ رہاہوں کہ ہمارے خلاف جوبھی اقدامات کئے جارہے ہیں وہ دہلی کی میزپرتیارکئے جاتے ہیں،عوامی لیگ اگر واپس ہٹنا بھی چاہے تواب ان اقدامات سے پیچھے نہیں مڑسکتی کیونکہ اس باروہ صرف دہلی کے آشیربادہی سے اقتدارمیں آئی ہے۔

انھوں نے مزید لکھاکہ کسی بھی آزاد، فطری ٹرائل اورانصاف کی توقع ایسے لوگوں سے نہیں کی جاسکتی لیکن قوم اوردنیابھرکے لوگ جانتے ہیں کہ سچ کیاہے،میری موت جبرکی اس حکومت کے خاتمے کاسبب بنے گی۔ میں نے سورہ توبہ کی آیت نمبر17سے24 کا مطالعہ کیا،آیت نمبر19میں واضح اندازمیں لکھاہے کہ اللہ کی راہ میں اپنی جان اورمال کے ساتھ جہادکرنا،خانہ کعبہ کی خدمت اورحاجیوں کوپانی پلانے سے زیادہ افضل ہے۔

اس کامطلب یہ ہے کہ اللہ کی راہ میں اس لیے لڑناکہ اسلام کا نظام قائم ہو اور ناانصافی کے خلاف لڑتے ہوئے مرناطبعی موت مرنے سے افضل ہے،اگراللہ تعالیٰ کی ذات مجھے جنت میں افضل درجہ دیناچاہتی ہے تومیں بخوشی اس موت کوگلے لگانے کیلئے تیار بیٹھا ہوں، کیونکہ جلادوں کے ہاتھوں غیرمنصفانہ موت توجنت کا پروانہ ہے۔

یہ گھاٹے کاسودانہیں ہے۔ جب نبی کریمﷺشہادت کے اعلیٰ مرتبہ کی بات کرتے تھے تواپنی خواہش کا اظہار کرتے تھے کہ انہیں بارباریہ زندگی ملے اور بار بار اللہ کی راہ میں شہید ہوتے رہیں،وہ لوگ جو شہید ہوچکے ہیں وہ جنت کے اعلیٰ درجوں میں بیٹھ کراللہ کے حضور اس خواہش کااظہارکریں گے کہ یاخالق ومالک! ہمیں ایک بار پھر اس دنیا میں بھیج تاکہ ہم ایک بار پھر تیری راہ میں شہیدہوں،اس سچی ذات کے الفاظ سچے ہیں اوراس کی طرف سے بھیجے گئے صادق کے الفاظ بھی سچے ہیں، اگر ان پر کوئی شک ہے توہمیں اپنے ایمان اورعقیدے پرشک کرناچاہیے‘‘۔

ٹریبونل نے جماعتِ اسلامی کے ایک دوسرے رہنما مولانا ابوالکلام محمد یوسف کوبھی ان کی عدم موجودگی میں سزائے موت سنائی تھی۔ وہ پہلے شخص تھے جنہیں بنگلہ دیشی حکومت کی جانب سے تین برس قبل بنائے جانے والے انٹرنیشنل کرائمز ٹریبونل نے مجرم قرار دیا تھا۔ ان کا کچھ عرصہ بعد ا نتقال ہوگیا۔سابق امیر جماعت پروفیسرغلام اعظم کو 90برس قید کی سزاسنائی گئی، ان کی عمر92 سال تھی، ان کا 23 اکتوبر 2014ء کو انتقال ہوگیا، لواحقین کا کہنا ہے کہ بزرگی کی اس عمر میں بھی ان پر بدترین تشدد کیاگیا۔ بعدازاں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے امیرمطیع الرحمن ظامی، نائب امیر محمد قمر الزمان اور دیگرمرکزی رہنماؤں دلاورحسین سعیدی،علی احسن مجاہد ،میرقاسم علی،اشرف الزماں خان اور چودھری معین الدین کوبھی سزائے موت سنائی جاچکی ہے۔

ٹریبونل نے انھیں تشدد اور قتلِ عام کے الزامات میں قصور وار ٹھہرایا تاہم یہ تمام رہنماان الزامات کو جھوٹ قراردیتے ہیں۔ محمد قمرالزمان کے بارے میں خیال ظاہرکیاجارہاہے کہ انھیں جلد ہی پھانسی دیدی جائے گی،کیونکہ انھوں نے بھی عبدالقادر ملا کی طرح صدرمملکت سے رحم کی اپیل کرنے سے انکارکردیاہے۔سوال یہ ہے کہ پھانسی پانے والے رہنما عبدالقادرملا کی یہ بات درست ہے کہ حسینہ واجد جماعت اسلامی کے خلاف یہ سب کچھ بھارت کے ایماپر کررہی ہے؟ اگرایساہے تو کیوں؟

جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے حوالے سے سابق بھارتی وزیراعظم من موہن سنگھ کا یہ بیان پڑھئے، جو انھوں نے بنگلہ دیش کا دورہ شروع کرنے سے پہلے30جون2011ء کو نئی دہلی میں بنگلہ دیش اور بھارت کے ایڈیٹروں سے گفتگو کرتے ہوئے دیا تھا:’’بنگلہ دیش سے ہمارے اچھے تعلقات ہیں، لیکن ہمیں اس چیز کا لحاظ رکھنا پڑے گا کہ بنگلہ دیش کی کم از کم 25 فی صد آبادی علانیہ طور پر جماعت اسلامی سے وابستہ ہے اور وہ بہت زیادہ بھارت مخالف ہے۔ اس لیے بنگلہ دیش کا سیاسی منظرنامہ کسی بھی لمحے تبدیل ہوسکتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ یہ عناصر جو جماعت اسلامی پر گرفت رکھتے ہیں، بنگلہ دیش میں کب کیا حالات پیدا کردیں‘‘۔

اس وقت کے بھارتی وزیراعظم کا بیان بنگلہ دیشی حکومت کے لئے پالیسی بیان کا درجہ رکھتاتھا ، اس کا مطلب اس کے علاوہ کیاہوسکتاتھا کہ ڈھاکہ حکومت جماعت اسلامی کے خلاف جو کچھ کررہی ہے، اس پر شاباش لیکن ڈومور… ڈومور… ڈومور۔ اگرمزیدلوگوں کو پھانسی کے پھندوں میں نہ لٹکایاگیاتو بنگلہ دیش سے مزیداچھے تعلقات بھی ممکن نہیں ہوں گے۔حالیہ نومبر کے دوسرے عشرے میں بھارتی حکمران بھارتیہ جنتاپارٹی کے رہنما سدارتھ ناتھ سنگھ نے کلکتہ میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ مغربی بنگال کی حکمران ممتابینرجی ریاستی انتخابات جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی مدد سے جیت کر حکمران بنی ہیں۔ ان کے خیال میں ممتابینرجی نے بنگلہ دیش کی سرحد سے ملحقہ علاقے سے75 نشستیں حاصل کی ہیں۔

گزشتہ برس بنگلہ دیشی حکومت کے وزیر بے محکمہ سرنجیت سین گپتا نے کہا: ’’ہمیں1972ء کا اصل دستور بحال کرنا چاہیے۔ یاد رہے، اس دستور میں ایک پارٹی سسٹم اور غیرسرکاری اخبارات پر پابندی کا قانون ہے۔ جماعت اسلامی پر ہرسطح پر پابندی لگانی چاہیے اور اس کے رہنماؤں کو موت کی سزا دی جائے‘‘۔ اسی وزیر نے شیخ مجیب کے سابق ساتھی قانون دان اور بنگلہ دیش کے اوّلین وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال حسین اور نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہاتھا: ’’یہ لوگ جماعت اسلامی کے رہنماؤں کے لیے سزائے موت کی تائید نہ کرکے قومی جرم کا ارتکاب کررہے ہیں‘‘ (روزنامہ انڈی پنڈنٹ، ڈھاکہ، 12فروری 2013ء )۔

تاہم دوسری طرف بنگلہ دیش کے سابق وزیر بیرسٹر شاہ جہاں عمر، جو ماہر معاشیات، بنگلہ دیش نیشنلسٹ پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق وزیراعظم خالدہ ضیا کے مشیر بھی رہے ہیں، کا کہناہے: ’’میں ذاتی سطح پر جماعت اسلامی کے بارے میں 1971ء کے حوالے سے کوئی اچھی رائے نہیں رکھتا۔ لیکن اس لمحے جب بنگلہ دیش میں دانشوروں اور صحافیوں کی بڑی تعداد جماعت اسلامی پر سنگ باری کر رہی ہے، میں سمجھتا ہوں کہ مجھے سچ کہنے میں بزدلی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے۔ بہت سے مقامات پر، بہت سے لوگوں سے ملنے کے بعد مجھے یہ کہنے میں کوئی ہچکچاہٹ نہیں ہے کہ عوامی لیگ خود دہشت گردانہ کارروائیاں کرکے، ان جرائم کا الزام جماعت اسلامی پر دھر رہی ہے۔

مزید یہ کہ ، بے شمار تحریروں اور تصانیف کے مطالعے کے بعد، جب میں (بنگلہ دیش کے حوالے سے) بھارت کے موجودہ طرزِعمل کا جائزہ لیتا ہوں، تو مجھے صاف دکھائی دیتا ہے کہ1971ء میں (مشرقی پاکستان پر مسلط کردہ) جنگ بھارت کی مسلط کردہ تھی، اور جو فی الحقیقت بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ (RAW) کا پراجیکٹ تھا۔ اسی طرح جب میں عوامی لیگ اور ذرائع ابلاغ کو جماعت اسلامی بنگلہ دیش کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا کرتے ہوئے دیکھتا ہوں، تو مجھے اس یلغار کے پسِ پردہ محرکات کو سمجھنے میں کوئی مشکل پیش نہیں آتی کہ بنگلہ دیش میں فی الواقع جماعت اسلامی ہی وہ منظم قوت ہے، جو بھارت کی بڑھتی ہوئی دھونس اور مداخلت کو روکنے میں اہم کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

گویا کہ1971ء میں ہماری آزادی کے حصول کی جدوجہد کے دشمن، آج ہماری آزادی کے تحفظ کے بہترین محافظ ہیں۔ میرا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ جماعت اسلامی کی سیاسی جدوجہد کی مخالفت کرنے کے باوجود میں محسوس کرتا ہوں کہ اس پارٹی کا وجود ہماری آزادی کے تحفظ کے لیے اشد ضروری ہے۔ بھارت نے ہمارے صحافیوں، سیاست دانوں، قلم کاروں اور فوجیوں کو خرید رکھا ہے، لیکن میں واشگاف کہوں گا کہ وہ جماعت اسلامی کو خریدنے میں ناکام رہا ہے‘‘۔ یادرہے کہ شاہ جہاں عمر نے پاکستان سے علیحدگی کی جدوجہد میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیاتھا، ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے انھیں بنگلہ دیش کے دوسرے سب سے بڑے قومی اعزاز ’بیراتم‘ سے نوازا گیا۔

آخر میں یہ بھی پڑھ لیجئے کہ پنڈت جواہر لال نہرو کی بیٹی اندرا گاندھی اپنی مجلسوں میں کہا کرتی تھی: ’’میری زندگی کا حسین ترین لمحہ وہ تھا، جب میں نے پاکستان میں مداخلت کر کے بنگلہ دیش بنایا‘‘ اس کے بعد یہ سوال کھل جاتاہے کہ جماعت اسلامی جس نے پاکستان کے دونوں حصوں کو متحد رکھنے کی جدوجہد کی تھی، کے رہنمائوںکوپھانسیوں پر کیوں لٹکایا جارہاہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔