تو یہ امید بھی ختم؟

ثناء غوری  پير 24 نومبر 2014
sana_ghori@outlook.com

[email protected]

الیکشن میں دھاندلی کی صدائیں تو نہ جانے کب سے ہم سن رہے ہیں، اور یہ کہنا  کہ پاکستان کی تاریخ اب بھی اس دھاندلی کی بھٹکتی چیخوں سے گونج رہی ہے، غلط نہ ہو گا، لیکن حال ہی میں مختلف سیاسی جماعتوں نے اس مسئلے کو جس طرح سے پیش کیا گیا وہ یوں قابلِ تحسین ہے۔ اب سارے سیاسی نظریات اور اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا جائے تب بات سمجھ میں آ ہی جائے گی۔

یوں لگتا ہے کہ پاکستان کے عوام کی ایک  بڑی تعداد نے اب اس دھاندلی کے قصے کو ختم کرنے کی ٹھان ہی لی ہے۔  گزشتہ انتخابات میں دھاندلی  کے فلک شگاف نعروں کے سیاسی زلزلے نے عوام کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا، انتخابی اصلاحات کا سوال اب اس قدر اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ کوئی فریق اسے نظرانداز نہیں کر سکتا۔ بہ ظاہر تو لگتا ہے کہ اس دھاندلی کا قصہ ختم کرنے کے لیے سب ہی محاذ بنائے بیٹھے ہیں۔

اسے حالات کا دباؤ کہیے یا جو بھی نام دیجیے، اس وقت تمام پارٹیاں الیکشن میں بائیومیٹرک اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال پر متفق ہیں۔ چلیے جناب! یہ بات بھی خوش آئند ہے کہ کسی بات پر تو اتفاق ہوا۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ اتفاق قوم کو بہت منہگا پڑے گا۔ ایک خبر کے مطابق ووٹنگ مشین کی قیمت ستر ہزار روپے ہے، جب کہ انتخابات میں دو لاکھ پچھتر ہزار مشینوں کی ضرورت پڑے گی، جس پر انیس ارب پینتیس کروڑ روپے لاگت آئے گی۔

یقینا آپ بھی وہی سوچ رہے ہیں جو ہمارے ذہن میں ہے۔ پاکستان جو کہ ایک غریب ملک ہے اس بجٹ کو کیسے برداشت کرے گا۔ لیکن آپ بھی اپنے دل کو یہ کہہ کر تسلی دے لیجیے کہ جہاں پاکستان میں بھوک و افلاس کا راج ہے، جہاں پاکستان اپنے ہی ملک میں جنگ کر رہا ہے اور جس پاکستان میں بے روزگاری گھر گھر کا مسئلہ اور جو ناخواندگی کا شکار ملک ہے وہاں ہم ان مسائل کو حل کرنے کے بجائے میٹرو بس سروس، لیپ ٹاپ اسکیم، ایوانوں کی سجاوٹ بناوٹ، وزیروں کے محلات، بلٹ پروف گاڑیوں اور حکمرانوں اور اعلیٰ افسروں کے غیر ملکی دوروں پر اربوں روپے خرچ کر سکتے ہیں تو اس بے چاری الیکٹرانک مشین کا کیا قصور ہے، یہ تو بہرحال ہماری قومی ضرورت بن چکی ہے۔ سو اسے بھی لے ہی لیجیے اور قصہ تمام کیجیے۔

لیکن ٹھیریے! کیا فقط مشین لینے سے مسائل حل ہو جائیں گے۔ امید تو یہی تھی لیکن اس امید پر پانی پھرتا نظر آ رہا ہے۔ ہوا کچھ یوں ہے کہ الیکشن کمیشن نے بائیومیٹرک اور الیکٹرانک مشین کے استعمال کے بعد بھی اس کے نتائج کے سو فی صد درست ہونے سے انکار کر دیا ہے۔ کمیشن کا کہنا ہے کہ ان مشینوں کے ذریعے پولنگ کا عمل ساٹھ فیصد شفاف بنایا جا سکتا ہے۔

پاکستانی قوم کے مزاج میں یہ بات شامل ہو چکی ہے کہ وہ طاقت کے سامنے دیانت، اصولوں اور قاعدے قانون کو اہمیت نہیں دیتی۔ ہم موروثیت، شخصیت پرستی، وڈیرہ شاہی اور جوڑتوڑ کی سیاست کے عادی ہو چکے ہیں۔ اگر کوئی پارٹی ان رائج رجحانات سے انحراف کرتے ہوئے اپنا مقام بنانا چاہتی ہے اور وہ اس سیاسی عمل میں حصہ لے کر بہتری کی طرف آنا چاہتی ہے تو اسے یکسر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ اسے ملنے والے لاکھوں ووٹ بھی اگر اسے منتخب ایوانوں کی نشست نہ دلا سکیں تو وہ سب بے کار ہو جاتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ ووٹ کی تعداد کے لحاظ سے ہر پارٹی کو آگے آنے کا موقع ملے، یعنی متناسب نمائندگی کا اصول نافذ ہو لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو پایا۔ پاکستان میں کئی سال سے مخلوط حکومتی نظام رائج ہے۔

الیکشن کا نتیجہ منقسم مینڈیٹ کی صورت میں نکلے تو انتخابات کے فوراً بعد سیاسی منڈی لگائی جاتی ہے اور پیسے کے بل پر حکومت سازی کے لیے ووٹ حاصل کیے جاتے ہیں۔ چاہے ایک پارٹی کے پاس مخصوص علاقے میں زیادہ نمائندگی ہی کیوں نہ ہو، اگر مرکز اس پارٹی سے اختلاف کرتا ہے تو اسے حکومت کا حصہ بنے ہی نہیں دیا جاتا اور اسے حکومت بنانے سے روکنے کے لیے ہر حربہ استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے میں الزامات اور بیان بازی کا نہ رکنے والا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ کیا اس نظام کو جمہوریت کے لفظ سے تعبیر کیا جا سکتا ہے ؟ ہرگز نہیں۔۔۔۔۔ یہ فقط معصوم عوام کو بے وقوف بنانے کی سازش ہے اور بس، اس کے سوا کچھ نہیں۔

بھاری مینڈیٹ لینے کی دہائیاں تو بہت دی جا رہی ہیں، لیکن زمینی حقائق کہتے ہیں کہ مینڈیٹ تو کسی ایک جماعت کو ملا ہی نہیں۔ خرابیاں تو انتخابی نظام میں موجود ہیں۔ بائیومیٹرک اور الیکٹرانک مشینیں آ بھی گئیں تو کوئی خاص فرق نہیں ہو گا۔ ہم پھر بھی دھاندلی پر روتے رہیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ایک ایسا انتخابی نظام بنایا جائے کہ جس میں ہر ووٹ کارآمد ہو۔

چلیے صاحب پورا نظام بدل دینا ممکن نہیں، مگر اتنا تو ممکن ہے کہ اسی نظام میں رہتے ہوئے ضروری تبدیلیوں کے ساتھ اس کے قواعد پر پوری دیانت داری سے عمل کیا جائے۔ مگر ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ مسئلہ دراصل یہ ہے کہ ہمارے سیاست داں ہار ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ ان میں سے اکثر یا تو دھاندلی کا سہارا لے کر اپنی کام یابی یقینی بناتے ہیں یا واقعتاً شکست کھا کر بھی اسے تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے، ایسے حالات میں شفاف انتخابات کا انعقاد کیسے ممکن ہے۔

اصل مسئلہ اعتماد کا ہے۔ جب تک ہر ادارہ غیرجانب داری، دیانت داری اور پورے انصاف سے اپنا کردار ادا نہیں کرتا صورت حال یہی رہے گی اور ہر الیکشن مشکوک قرار پائے گا۔ اگر ٹیکنالوجی میں نقائص نہ ہوں تب بھی اپنے مرضی کے انتخابی نتائج کی خواہش مند قوتیں تیکنیکی کاری گری کے ذریعے نتائج پر اثرانداز ہوسکتی ہیں یا نہیں؟ یہ سوال بہ ہر حال موجود رہے گا لہٰذا اداروں کو مضبوط اور قابل اعتبار بنانے کی ضرورت ہے۔

شفاف اور منصفانہ انتخابات ہمارے مسائل کا حل ہیں اور ان کا انعقاد تب ممکن ہو سکتا ہے جب جوڑ توڑ اور لوٹا کریسی نہ ہو، امریکی طرز پر افراد کے بجائے جماعت کو ووٹ دیا جائے تا کہ ڈالے جانے والے ہر ووٹ کو اہمیت ملے اور اس کے نتیجے میں سیاسی جماعتوں کو نشستیں ملیں۔ اسی طرح ہم جاگیرداریت کے شکنجے سے نکل سکیں گے اور دانش وروں، اہل اور دیانت دار افراد کو اپنی نمائندگی کے لیے ایوانوں میں بھیج سکیں گے۔

الیکٹرانک نظام کے ساتھ بذریعہ موبائل یا انٹرنیٹ ووٹنگ کا سلسلہ بھی شروع کیا جا سکتا ہے، جس سے ووٹنگ کی شرح میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ تاہم اس سب سے پہلے انتخابات کے عمل میں کسی طور پر بھی شرکت کرنے والے ہر ادارے کو یہ فریضہ پوری دیانت داری کے ساتھ انجام دینا ہو گا۔ یہ فریضہ ریاست اور قوم کے لیے اس قدر اہم ہے کہ اس معاملے میں ذرا سی بھی بددیانتی اور چشم پوشی کو ملک و قوم سے غداری کے سوا کوئی نام نہیں دیا جا سکتا۔ اداروں کی دیانت داری اور غیرجانب داری ہی ان کا اعتبار قائم کرے گی، جس کے بعد کسی الیکٹرانک سسٹم کے بغیر بھی شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے گا، ورنہ کچھ بھی کر لیا جائے ایسا ہونا ایک خواب ہی رہے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔