(پاکستان ایک نظر میں) - دیوانہ خواب فروش

مرزا یاسر رمضان  پير 24 نومبر 2014
خواب بک رہے تھے اور ہاتھوں ہاتھ بک رہے تھے۔ لوگ اس کے خواب خرید رہے تھے کیونکہ ان سب کے خواب بھی اس دیوانے کے خواب سے جڑے تھے۔ فوٹو: فائل

خواب بک رہے تھے اور ہاتھوں ہاتھ بک رہے تھے۔ لوگ اس کے خواب خرید رہے تھے کیونکہ ان سب کے خواب بھی اس دیوانے کے خواب سے جڑے تھے۔ فوٹو: فائل

کیا خواب! 

خواب کون خریدتا ہے۔؟   سب اپنے خواب دیکھتے ہیں اور پھر انھیں پورا کرتے ہیں  ۔

کس کے پاس اتنا وقت کے وہ کسی اور کے خواب لے ۔ حضوروالا سوتے جاگتے جتنے  مرضی خواب دیکھ لو  ۔ پیسوں کے عوض بھی کوئی خواب خریدتا ہے کیا۔  اور خواب بھی دیوانے کے۔ سوچ رہے ہو گے کہ آپ کو کیسے پتہ کے خواب دیوانے کے ہیں۔  تو حضور آخر کوئی دیوانہ ہی یہ کام کر سکتا ہے ورنہ  خواب کون بیچتا ہے ۔اپنی خاموشی کا تسلسل توڑتے ہوئے  میں نے بتایا کہ:

کچھ ہی وقت پہلے کی بات ہے ایک خواب فروش نے صدا لگائی کہ

’خواب لے لو خواب‘

اس خواب فروش کی صدا میں اتنا دم تھا کہ بہت سے اور لوگوں کی طرح  اس نے  مجھے بھی اپنی  طرف متوجہ کیا۔تمام  لوگ خواب فروش کے گرد کھڑے اس پر اور اس کہ  خوابوں  پر تبصرے فرما رہے تھے ۔

خواب بھی کوئی بیچتا ہے کیا۔؟

کہاں سے لائے ہو یہ خواب ۔؟

کس کے لیے ہیں یہ خواب۔؟

جو اتنے ہی نایاب ہیں تو بیچتے کیوں ہو یہ خواب ۔؟

خواب فروش جواب دیتا ہے لوگ پھرسوال کرتے ہیں۔ وہ پھرسے  جواب دیتا ہے۔ جانے کیا خاص بات تھی اس دیوانے میں کہ  کچھ لوگ خواب خریدنے کو تیار ہو جاتے ہیں  ۔ بس اب وہ جلد از جلد دیوانے کے خواب خرید کر انھیں پورا کرنا چاہتے ہیں  ۔ آواز آئی کے کیا بیکار لوگ ہیں خواب خریدتے ہیں اور وہ بھی ایک  دیوانے کے۔

ان کے پاس اپنے خواب نہیں کیا۔؟   یہ سب دیوانے ہیں ۔

مجھے ایک پل کو   “ن۔م راشد”   کا  “اندھا کباڑی”  یاد آیا۔ دیوانے  خواب فروش اور اندھے کباڑی   کے خواب میں  کچھ زیادہ فرق نظر نہیں آیا۔ ہاں اگر فرق تھا تو یہی تھا کےاندھے  کباڑی  کے خواب مفت بھی نہیں   لیے کسی نے اوراس دیوانے خواب فروش کے خواب نقد بک رہے تھے۔ ابھی اسے خواب بیچتے وقت ہی کتنا ہوا تھا۔ اس تضاد نے سوالات کا انبار لگا دیا۔ لیکن میں نے اس انبار سے صرف ایک ہی  سوال اٹھایا ۔

کہ اندھے کباڑی اور  دیوانے خواب فروش میں کیافرق تھا ۔؟

دونوں نے  ہی شہر کے گوشوں میں پڑے پا شکستہ سر بریدہ خواب چنے ۔ جن سے شہر  والے باخبرنہیں۔ اور پھر دل کی بھٹی میں تپاکر  ان کا پرانا میل اتارا ہے اور ان کے رخساروگردن چمکا ئیں ہے  ۔ دونوں نے ایک ہی طرح  شہر کے گلی کوچوں میں صدا لگائی کہ “خواب لے لو خواب”۔ دونوں کے خواب ایک ہی طرح سے  پرکھے گے کہ   جیسے  سب ہی خواب دان ہوں ۔

تو پھر دیوانہ خواب بیچنے میں کامیاب کیسے ہوا۔؟

پہلا فرق مل ہی گیا ۔ اندھے کباڑی کی معشیت کا سہارا صرف خواب ہی تھے مگر دیوانے کی معشیت کا سہارا خواب نہیں تھے۔ مجھے فرق پتہ چل گیا ۔  ہاں ۔۔۔ ہاں میں  نے جان لیا۔اندھے کباڑی کے خواب کیوں نہیں بکے۔؟  اور دیوانہ کیسے کامیاب ہوا۔ شائد اتنا ہی کافی نہیں اسی لیے میں نے  کچھ  اور بھی ڈھونڈا ہے جو دونوں خواب فروشوں میں مشترک نہیں۔

اندھا کباڑی شام ہوتے ہی حوصلہ ہار گیا تھااور خواب مفت میں دینے کو تیار تھا جس سے لوگ ڈر گے کہ کہیں یہ خواب ان کا نقصان نہ کر دیں ۔  جبکہ دیوانہ حوصلہ ہارنے والوں میں سے نہیں تھا۔ نہ  تو اس نے اپنے خوابوں کا بھاؤ گرایا اور نہ ہی صدا لگا تے ہوئے اکتایا۔ وہ مستقل مزاجی اور لگن سے خواب بیچ رہا تھا۔   خواب بک رہے تھے اور ہاتھوں ہاتھ بک رہے تھے۔ لوگ اس کے خواب خرید رہے تھے کیونکہ ان سب کے خواب بھی اس دیوانے کے خواب سے جڑے تھے۔بس پھر    میں نے بھی آگے بڑھ کر خواب خرید لیا  ۔     ’نئے پاکستان کا خواب‘ ہاں ’دیوانے کا خواب‘۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

مرزا یاسر رمضان

مرزا یاسر رمضان

بلاگر نے جامعہ گجرات سے میڈیا اسٹڈیز میں تعلیم حاصل کی ہے اور شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ان سے ٹویٹر ہینڈل @MirzaYasir17 پر رابطہ کیا جاسکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔