حکومت اور تحریک انصاف میں بڑھتی ہوئی محاذ آرائی

 بدھ 26 نومبر 2014
ملک میں تبدیلی کا ماحول دم توڑ چکا ہے اور لوگ سمجھنا شروع ہوگئے ہیں کہ (ن) لیگ کی لولی لنگڑی حکومت فی الوقت نہیں جارہی۔  فوٹو: فائل

ملک میں تبدیلی کا ماحول دم توڑ چکا ہے اور لوگ سمجھنا شروع ہوگئے ہیں کہ (ن) لیگ کی لولی لنگڑی حکومت فی الوقت نہیں جارہی۔ فوٹو: فائل

لاہور: پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے 30 نومبر کو اسلام آباد میں پاور شو کی تیاریوں نے حکومت کی صفوں میں خوف و ہراس پھیلا رکھا ہے جس کا اظہار وفاقی وزراء اور مسلم لیگ(ن) کے رہنماؤں کے بیانات اور پریس کانفرنسز میں دیکھا جاسکتا ہے۔

حکومت عوام کے سامنے بھرپور تاثر دینے کی کوشش کر رہی ہے کہ تحریک انصاف کی سرگرمیوں سے کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے ۔ اس تاثر کو حقیقت سے قریب تر بنانے کیلئے وفاقی وزراء عمران خان اور ان کے ساتھیوں کے بارے طنزیہ اور ہتک آمیز جملے بھی کہہ رہے ہیں۔ حکومت کے دعوے اور دکھاوے اپنی جگہ، مگر حقیقت یہ ہے کہ حکومت کے قدموں کے نیچے سے زمین تیزی سے کھسک رہی ہے۔

14 اگست سے پہلے والی حکومت اب کہیں دکھائی نہیں دے رہی ۔ مسلم لیگ(ن) کا شیر 11 مئی 2013 ء سے لے کر 14 اگست2014 ء تک جنگل کا بادشاہ تھا لیکن اب وہ چڑیا گھر کا شیر بن کر رہ گیا ہے ۔’’بادشاہ گر‘‘طاقتوں کی خبر رکھنے والے تمام بھیدی یہ جانتے ہیں کہ گزشتہ تین ماہ کے دوران صورتحال اس حد تک حکومت کیلئے مشکل ہو گئی تھی کہ عمران خان اقتدار کے رتھ پر سوار ہوتے ہوتے رہ گئے ۔ بظاہر تو 30 نومبر کو عمران خان کے پاس دھماکہ خیز اعلان کرنے کا آپشن دکھائی نہیں دے رہا۔

خیبر پختونخوا اسمبلی تحلیل کرنے کا ٹرمپ کارڈ عمران خان کے پاس موجود ہے لیکن تحریک انصاف کی مرکزی قیادت کی اکثریت اسمبلی تحلیل کرنے کے خلاف ہے۔ تحریک انصاف خیبر پختونخوا کے متعدد اراکین اسمبلی استعفے دینے سے بھی انکار کر چکے ہیں جبکہ کے پی کے میں تحریک انصاف کی حکومت ابھی تک عوام میں اپنی افادیت اور نتائج کے اعتبار سے وہ مقام حاصل نہیں کر سکی جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ جماعت اسلامی بھی اسمبلی تحلیل کرنے کی شدید مخالف ہے لہذا اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن استعمال کرنا اس وقت عمران خان کیلئے ممکن دکھائی نہیں دیتا۔

ملک بھر میں پہیہ جام کرنے کی اپیل سے بھی پی ٹی آئی کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے ۔ دھرنے کے ابتدائی ایام میں عمران خان نے سول نافرمانی کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن ان کا یہ اعلان خفت کا سبب بنا۔ عوام کے ردعمل سے قبل خود پارٹی قیادت اور کارکنوں نے اسے مسترد کردیا تھا۔ سول نافرمانی کی تحریک کے اعلان کی ناکامی کو لیکر میڈیا میں بھی عمران خان پر شدید تنقید کی گئی تھی۔

یہ درست ہے کہ اس وقت عمران خان مقبولیت کی چوٹی پر ہیں اور عوام کی بڑی اکثریت ان کے موقف کی اصولی حمایت کرتی ہے تاہم مہنگائی، بیروزگاری، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے مارے عوام کسی ایسی تحریک کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے ان کے روزمرہ کاروبار اور طرز زندگی پر منفی اثرات مرتب ہوں۔ ایک ایسا آپشن ہے جسے عمران خان 30 نومبر کو استعمال کرسکتے ہیں ،وہ ہے 20,25 ہزار کارکنوں کو دھرنے کے پنڈال میں مستقل بنیاد پر بٹھائے رکھنا۔ڈی چوک میں دھرنے کی اصل طاقت عوامی تحریک تھی کیونکہ تحریک انصاف کے کارکنوں کی بہت محدود تعداد مستقل طور پر دھرنے میں بیٹھی تھی۔

یہی وہ کمزوری تھی جسے کیمو فلاج کرنے کیلئے تحریک انصاف کو عوامی تحریک کے ساتھ کھڑا ہونا پڑا اور پارلیمنٹ ہاوس اور پی ٹی وی ہیڈ کوارٹر پر دھاوا بولنے کی بدنامی کے چھینٹے تحریک انصاف کے دامن کو بھی داغدار کر گئے ۔تحریک انصاف کی قیادت سوچ رہی ہے کہ اگر 30 نومبر کو ملک بھر سے کارکنوں کی بڑی تعداد ڈی چوک پہنچ جاتی ہے تو ان میں سے 50 ہزار کے لگ بھگ کارکنوں کو دھرنے کے پنڈال میں مستقل پڑاؤ کروالیا جائے تاکہ حکومت پر دباؤ بڑھ سکے۔

تحریک انصاف کے ایک اہم رہنما نے بتایا کہ ملک بھر سے اس مقصد کیلئے نوجوانوں کے خصوصی گروپ بنا دیئے گئے ہیں ، ان کے قیام کیلئے خیموں، گرم بستر، کھانے پینے کا انتظام بھی کر لیا گیا ہے تاہم ان تیاریوں کو حتی المقدور حکومت اور میڈیا کی نظروں سے پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ تحریک انصاف کے 50 ہزار یا اس سے زائد کارکن اگر مستقل دھرنا دیکر بیٹھ جاتے ہیں تو کیا حکومت دوبارہ اس دباؤ میں آئے گی جو 14 اگست کے دھرنے کی شروعات پر موجود تھا۔ اس کا جواب ’’ناں‘‘میں سامنے آتا ہے۔

ملک میں تبدیلی کا ماحول دم توڑ چکا ہے۔ لوگ سمجھنا شروع ہوگئے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) کی لولی لنگڑی حکومت فی الوقت نہیں جا رہی اور فیصلہ آئندہ انتخابات میں ہی ہونا ہے جو کہ 2015/16 میں ہو سکتے ہیں اور فیصلہ کن معرکہ پنجاب کے شہری علاقوں میں لڑا جائے گا۔ مسلم لیگ(ن) کو اپنی کمزوریوں اور آنے والی دشواریوں کا اندازہ ہے اسی لئے اس کا رویہ شدید جارحانہ ہوتا جا رہا ہے اور یہ خوف محسوس ہونے لگا ہے کہ 30 نومبر سے قبل یا بعد میں ایسا تصادم نہ ہو جائے جو کہ تمام نظام کو لپیٹ دے ۔ ایسا ہوا تو پھر ہر سیاسی جماعت کی شکست ہو گی اور فاتح ایک ہی قوت ہوگی۔

وفاقی حکومت نے نئی حکمت عملی کے تحت عمران خان کے قریبی ساتھیوں کے خلاف محاذ کھولنے کا آغاز کردیا ہے، پہلے لاہور کے صدر عبدالعلیم خان کے خلاف ایف آئی اے کے ذریعے مقدمات بنائے گئے اور اب جہانگیر ترین کو ٹارگٹ کیا جا رہا ہے۔ دو روز قبل وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے جہانگیر ترین کی ملکیتی کمپنی ’’جے ڈبلیو ڈی‘‘ کے جہاز کو عمران خان کیلئے استعمال کرنے کا معاملہ میڈیا کے سامنے اٹھایا جس پر جہانگیر ترین نے جوابی پریس کانفرنس کر کے حکومت کے الزامات کا بھرپور توڑ کیا اور ایسی دستاویزات دکھائیں جن کے مطابق جہانگیر ترین اور ان کے اہل خانہ اگر جہاز کو ذاتی استعمال میں لاتے ہیں تو اس کے اخراجات کمپنی کو ادا کرتے ہیں۔

جہانگیر ترین ملک بھر میں شاید واحد ایسے شوگر مل مالک ہیں جو کاشتکاروں کو سب سے پہلے اور مکمل ادائیگی کرتے ہیں۔ ان کی شوگر مل تمام حکومتی واجبات بروقت ادا کرتی ہیں ۔ میاں شہباز شریف کے پہلے دور وزارت اعلی میں جہانگیر ترین ان کے مشیر برائے زراعت تھے اس وقت پنجاب میں جعلی زرعی ادویات کے کاروبار نے زراعت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔ جہانگیر ترین نے زرعی ادویات کے خلاف ایسے اقدامات کئے کہ آج پنجاب میں کہیں منظم پیسٹی سائیڈ مافیا کا وجود نہیں ہے۔

چوہدری پرویز الٰہی کے مشیر بنے تو ’’سندر انڈسٹریل اسٹیٹ‘‘کا منصوبہ تخلیق کیا اور آج سندر اسٹیٹ صوبے کا سب سے اہم ترین صنعتی مقام ہے۔ وفاقی وزیر بنے تو ’’جم اینڈ سٹون‘‘،’’ماربل اینڈ گرینائٹ‘‘ کمپنیاں تشکیل دیں۔ ڈیری ڈویلپمنٹ پر کام کیا۔ فرنیچر سازی کی صنعت کو نئی جدتوں سے روشناس کروایا جبکہ ان کا بنایا ’’انجیئرنگ ڈویلپمنٹ بورڈ‘‘آج بھرپور ثمرات دے رہا ہے۔ جہانگیر ترین نے سماجی شعبے میں بھی گرانقدر خدمات سر انجام دی ہیں۔

لودھراں میں ’’ایل پی پی‘‘ کے نام سے ان کی این جی او 1999 سے سرگرم عمل ہے اور 150 سے زائد دیہات میں سیوریج کا نظام تعمیر کیا ہے ،متعدد ڈیری فارمز بنا کر روزگار فراہم کیا جارہا ہے، ان کی ایجوکیشن فاونڈیشن نے لودھراں کے 85 پسماندہ سرکاری سکولوں کو اڈاپٹ کرکے 15 کروڑ روپے کی لاگت سے اپ گریڈ کیا ہے۔ 150 اساتذہ کی خدمات فراہم کی گئی ہیں،دو نئے ماڈل سکول بھی تعمیر کئے گئے ہیں۔

تقریبا 15 ہزار سے زائد بچے مستفید ہو رہے ہیں۔ رحیم یار خان میں گنے کے کاشتکاروں کو اپنی فصل کی پیداوار بڑھانے کیلئے جدید سائنسی امداد فراہم کی جا رہی ہے جس کے نتیجے میں فی ایکڑ پیداوار 400 سے بڑھ کر 800 من ہو چکی ہے۔ سیاسی جنگ میں ایکدوسرے پر سچے یا جھوٹے الزامات کے تیر برسائے جاتے ہیں مگر یہ خیال ضرور رکھنا چاہیے کہ جو افراد اور ادارے عوام کی فلاح و بہبود کیلئے حقیقی معنوں میں کام کر رہے ہیں ان کے خلاف بے بنیاد پراپیگنڈہ نہ کیا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔