روسی سوشلسٹ انقلاب کا احوال

زبیر رحمٰن  بدھ 26 نومبر 2014
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

گزشتہ دنوں روسی سوشلسٹ انقلاب کی 97 ویں سالگرہ کرا چی پریس کلب میں دو تنظیموں نے منائی۔ ایک پی ٹی یو ڈی سی اور دوسری عوا می ورکرز پارٹی نے۔ پہلے جلسے میں کرامت علی نے انتہائی مایوسی اور بیگانگی کا برملا اظہار کیا جب کہ فہمیدہ ریاض نے حوصلہ افزا انقلاب کے حق میں منظوم نظم پیش کی۔

جب کہ لال خان نے انقلاب کا دفاع کر تے ہو ئے محنت کشوں کی بین الاقوامی یکجہتی پر زور دیا۔ دوسرے جلسے میں فانوس گجر، فاروق طارق اور عابد حسن منٹو نے سوشلسٹ انقلاب کے حق میں اور حاصلات پر روشنی ڈا لی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ روسی سوشلسٹ انقلاب دنیا کے بڑے انقلابوں میں سے ایک تھا۔ قو می ریاست کو قائم رکھنے کے لیے علاج، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور رہائش دینا ریاست کی ایک حد تک ذمے داری بنتی ہے کہ وہ استحصالی یا اعلیٰ طبقات کی نگہبانی کر سکے۔

سوویت یونین ایک سوشلسٹ ریاست کے طور پر قائم ہو نے کے بعد یکے بعد دیگر مما لک میں سوشلسٹ انقلابات آتے رہے۔1917 میں موجودہ رشین فیڈریشن میں انقلاب کے بعد بالٹک ریاستیں، پھر1920سے1927 تک کوہ قاف، ایشا کوچک، وسطی ایشیا، پھر دوسری عالمی جنگ کے بعد مشرقی یورپ اور منگولیا، کوریا، منچوریا، چین، ویت نام، کمبوڈیا، لا ؤس، موزمبیق، بینن، ایتھو پیا، زمبابوے اور پھر مشرق وسطیٰ کے ممالک عراق، الجزائر، مصر، لیبیا وغیرہ وغیرہ میں سوشلسٹ انقلا بات برپا ہو ئے۔ ان ملکوں میں عوام کو سرما یہ دارانہ نظام سے بہتر سہولتیں مہیا کی گئیں، جس طرح سرمایہ داری میں رہتے ہو ئے سوشل ڈیموکریسی میں بہتر سہولتیں دی جاتی ہیں۔

سوویت یو نین میں بھی انقلاب کے بعد عوام کو بنیادی سہولتیں دی جا تی رہیں۔ لیکن طبقات کا خاتمہ ہوا اور نہ ہی عوام کو حقیقی آزادی یا امداد باہمی کا آ زاد معاشرہ میسر آیا۔ یہاں مختلف انداز میں طبقاتی تفریق نہ صرف باقی رہی بلکہ پروان بھی چڑھتی رہی۔ مثال کے طور پر زار شاہی کے دور میں اس کی خفیہ پو لیس جو کچھ کر تی تھی وہی کام روس کی سوشلسٹ حکومت کی چیکا (خفیہ پو لیس) کر تی تھی۔ پہلے آمرانہ حکمرانی زار شاہی نے کی تھی، انقلاب کے بعد وہی آمرانہ طرز لینن، ٹراٹسکی اور زینا ویو نے اپنایا اور بعد ازاں اسٹالن نے جاری رکھا اور یہ کام غلطی، اچانک یا طریقہ کارکی وجہ سے نہیں رونما ہوا بلکہ یہ ریاست کے وجود کا ناگزیر نتیجہ ہے۔

کامریڈ ایما گولڈ مان1917میں امریکا سے ملک بدر کیے جانے کے بعد جب اپنے مادر وطن روس میں واپس آئیں تو وہ کہتی ہیں کہ بالشویکی کس طرح اپنے مخالفین کو ذبح کر رہے ہیں اور میری طویل جدوجہد جو ایسی چیزوں کے خلاف تھی۔ میں نے ایک کامریڈ کو لینن سے اپنی ملاقات کا احوال بتایا اور دعوے کا ذکر کیا کہ جیلوں میں صرف راہزن اور انقلاب مخالف لوگ اسیر ہیں۔ مجھے تو یہ بات ناقابل یقین معلوم ہو ئی کہ ایسا شخص جو ایسا توانا ذہن رکھتا ہو اتنا گر جائے اور ایسی ذلت آمیزکذب بیانی پر اتر کر اپنے اقدام کو جا ئز قرار دے۔

ماہم ایکس نے اپنے سر کو انکار میں ہلایا۔ اس نے کہا کہ بات صاف ہے کہ تم لینن کی عادتوں سے نا واقف ہو۔ اپنی ابتدا ئی تحریروں میں وہ بر سوں اس بات کا داعی رہا اور وکا لت کر تا رہا کہ اس کے سیاسی مخالفین پر اس نوعیت کے حملے ہو نے چا ہئیں، ایسے ذرایع استعمال کیے جا ئیں ’’ایسا کرو کہ لوگ ان سے کرا ہت محسوس کریں، نفرت کریں اور مخلوقات میں شرم ناک ترین سمجھے جا ئیں۔‘‘ اس نے یہ چالیں اس وقت بتا ئی تھیں جب اس کے شکار اپنا دفاع کر سکتے تھے۔

اب وہ زخم پر نمک چھڑکنے کے بعد توہین کیوں نہ کرے جب پورا روس اس کا اکھاڑا ہے؟ ’ہاں باقی ماندہ ریڈیکل دنیا کو‘ میں نے اضافہ کیا لینن میں انقلابی مسیحا نظر آتا ہے، میں بھی اسے یہی سمجھتی تھی اور یہی میرا کامریڈ الیکزینڈر برکمین بھی سمجھتا تھا۔ ہم امریکا میں اس کے ابتدائی مجا ہدین میں سے تھے۔ اب بھی ہم اس بات کو سخت گراں پا تے ہیں کہ خود کو بالشویکی سحر سے آزاد کر لیں اور اس کی آدم بو سے بھی‘۔ بالشویک اس کے مدعی ہیں کہ ہر قسم کی دہشت جس میں تھوک کے بھاؤ گردن زنی، لوگوں کو یرغمال بنانا انقلابی ضرورت کے لیے جا ئز ہے۔ کو رولینکو کے نزدیک یہ انقلاب کے بنیادی تصورات کی بدترین تعبیر ہے۔ اس کے علاوہ اخلاقی اقدار کے بھی خلاف ہے‘۔ وہ مزید کہتا ہے کہ ’میں ہمیشہ سے ان اصولوں کا حا می ہوں‘۔ ’انقلاب کا مطلب انسانیت کا اظہار اور انصاف ہے۔ آمریت نے دونوں معاملے میں اسے برہنہ کر دیا ہے۔

وطن کے اندر کمیو نسٹ سلطنت روزانہ انقلاب کو اس کی روح سے محروم کر تی رہتی ہے اور اپنے اعمال سے یہ ثابت کر رہی ہے جو من ما نی ہو نے کے علا وہ بر بریت میں زار کے عہد کو شر ماتی ہے۔ مثلا اس کے مسلح سپاہی اتنے با اختیار ہیں کہ مجھے گرفتار کر سکتے ہیں۔ کمیونسٹ چیکا بھی مجھے گولی مارکر ہلاک کر نے کا اختیار رکھتی ہے۔ با ایں ہمہ با لشویکوں کی بے باکی ملاحظہ کیجیے کہ وہ علی الا علان عالمی انقلاب کا بھی اعلان کر تے ہیں۔ فی الحقیقت ان کے روس پر کیے جا نے وا لے تجربات بیرونی دنیا میں سما جی تبدیلیوں کو ایک طویل عرصے تک مسخ کر کے رکھ دیں گے۔ یورپی سرمایہ دار اپنے رجعت پسندانہ حر بوں کے لیے خونخوار روسی آمریت سے بڑھ کر اور کون سا جواز پیش کریں گے۔

انقلاب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ را ئج موجودہ سر مایہ دارانہ نظام میں موجود طبقات کو ختم کرنا، نسل انسانی کو یکجا کر نا، فطری اتحاد یوں کو حقیقی دوستی میں بدلنا، سا ری دولت سارے لوگوں کے حوالے کر نا۔ مرکزیت کا خاتمہ اور مقامیت کو ترجیح دینا، ذاتی ملکیت کو ختم کر کے سب کو جینے کا حق دینا۔ یہ سارے کام ریاست، عدات، میڈیا اور اسمبلی نہیں بلکہ عبوری عوامی کمیٹیاں اور عوامی پنچایتیں یا خود کار انجمنیں انجام دے سکتی ہیں۔ ریاست کو اگر ختم نہ کیا گیا تو وہی سب کچھ ہو گا جو سوشلسٹ ریاستوں میں ہوا۔ وہاں کمیو نسٹ پارٹی کی مر کزی کمیٹی کے لیے الگ سہولتیں، کارکنوں کے لیے الگ اور عوام کے لیے الگ۔ اس لیے کہ جب اپنے کو عوام سے جدا کر لیتے ہیں تو پھر قا نون، آئین اور محافظوں کی ضرورت پڑتی ہے ورنہ امداد با ہمی کے آ زادانہ معاشرے میں اس تفریق کی کو ئی گنجائش نہیں۔

سوویت یونین میں سوشلزم کے را ئج ہو نے کے بعد دنیا کے درجنوں ملکوں میں سوشلزم آ یا۔ ریاست کا خاتمہ کر دینے سے سا ری دنیا ایک نسل انسانی کی برادری یا کمیونسٹ سماج میں تبدیل ہو چکی ہو تی۔ مگر ریاست کو ختم نہ کر نے کی وجہ سے ان ملکوں میں کمیونزم کے بجائے سرما یہ داری واپس آ گئی۔ جیسا کہ کمیو نسٹ مینی فیسٹو میں کہا گیا ہے کہ جب پرولتا ریہ اپنا ہدف پورا کریگا تو آ زاد سماجی تنظیموں کے ذریعہ امداد با ہمی کا معاشرہ قا ئم ہو گا۔ اب یہ کون بتائے گا کہ ہدف اور مقاصد کب اور کیسے پورے ہونگے۔ کہیں بیس سال، کہیںتیس، کہیںچا لیس پھر پچاس اور ستر سال گزر نے کے باوجود پرولتاریہ اپنا وہ ہدف حاصل کر نے کے بجا ئے سوشلسٹ ریا ست پھر ایک بار سر مایہ دارانہ ریاست میں تبدیل ہو گئی۔ ان خدشات اور رد انقلاب سے نجات کا اور عوام کی آ زادی کا واحد راستہ ایک بے ریاستی آزاد عالمی سماج کی تشکیل میں مضمر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔