یہ چند بیوقوفوں کا ٹولہ ہے

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 26 نومبر 2014

حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے سو سال پہلے ایک رومی شاعر پیلوس سائرس نے کہا تھا، ہم ان ہی لوگوں کو پسند کرتے ہیں جو ہمیں پسند کریں۔ چنانچہ اگر آپ لوگوں کے دلوں میں گھر کرنا چاہتے ہیں تو اس کا پہلا اصول یہ ہے کہ دوسرے لوگوں میں سچے دل سے دلچسپی لیجیے۔

آپ نے کبھی سوچا ہے کہ دنیا میں کتا ہی ایک ایسا جانور ہے جسے اپنا پیٹ بھرنے کے لیے محنت نہیں کرنا پڑتی مرغی کو انڈے دینا پڑتے ہیں، گائے کو دودھ دینا پڑتا ہے، بلبل کو گانا پڑتا ہے لیکن کتا صرف آپ سے محبت کا اظہار کر کے اپنی روزی کما لیتا ہے، حالانکہ کتے نے فلسفے یا نفسیات پر کوئی کتاب نہیں پڑھی ہوتی اور اسے اس کی کوئی ضرورت بھی نہیں ہوتی ہے کیونکہ وہ فطر ی جبلت کے طفیل اس راز سے واقف ہوتا ہے۔ تاہم ہم سب جانتے ہیں کہ دنیا میں بے شمار لوگ ایسے ہیں جو زندگی بھر یہ غلطی کرتے ہیں اور اسی کو شش میں لگے رہتے ہیں کہ لوگ ان کی ذات میں دلچسپی لیں ہمارے سارے سیاست دان ان ہی بے شمار لوگوں میں شامل ہیں۔

یاد رہے اس سے کام نہیں چلتا ہے لوگوںکو آپ سے زیادہ اپنے آپ سے دلچسپی ہوتی ہے۔ لوگ آپ میں کو ئی دلچسپی کیوں لیں جب پہلے خود آپ ان میں دلچسپی کا اظہار نہیں کریں گے۔ ویانا کے مشہور ماہر نفسیات الفرید ایڈلر نے ایک کتاب لکھی تھی جس کا نام ہے مقصد زندگی۔ وہ اس کتاب میں لکھتے ہیں دنیا میں سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا اس شخص کو کرنا پڑتا ہے اور دوسرے لوگوں کو بھی نقصان اسی شخص سے پہنچتا ہے جو اپنے بھائی بندوں میں کوئی دلچسپی نہیں لیتا ایسے لوگ ہی بنی نوع انسان کی ناکامیوں کا سر چشمہ ہیں۔

ایک مرتبہ نیویارک یونیورسٹی میں افسانہ نگاری کے امتحان کے کورس کے دوران مشہور رسالہ ’’کولیر‘‘ کے مدیر نے ایک لیکچر دیا اس نے کہا کہ میں اپنی میز پر بکھری پڑی درجنوں کہانیوں میں سے کسی ایک کو اٹھا کر چند پیراگراف ہی پڑھ کر بتا سکتا ہوں کہ افسانہ نگار کو لوگوں سے واقعی محبت ہے یا نہیں۔ اس نے کہا اگر مصنف لوگوں سے محبت نہیں کرے گا تو لوگ بھی اس سے محبت نہیں کریں گے۔

اس نے کہا اگر آپ کامیاب افسانہ نگار بننا چاہتے ہیں تو آپ کو لوگوں سے محبت کرنا پڑے گی۔ تھرسٹن نام کا ایک شخص دنیا بھر کے جادو گروں کا بے تاج بادشاہ اور شعبدے بازوں کا سردار کہلاتا تھا وہ چالیس برس تک دنیا میں گھومتا رہا لوگوں کو شعبدے دکھاتا اور ورطہ حیرت میں ڈالتا تھا۔ اس کا تماشا دیکھنے کے لیے چھ کروڑ سے زیادہ انسانوں نے ٹکٹ خریدے اور اس نے آٹھ کروڑ سے زیادہ نفع کمایا اس کی کامیابی میں اس کی تعلیم کا کوئی دخل نہ تھا کیونکہ وہ بچپن ہی میں گھر سے بھاگ گیا تھا آوارہ پھرا گھاس پھوس میں سویا در در بھیک مانگتا رہا، ریلوے کی ملازمت کے دوران سفری ہوٹل سے باہر جھانک جھانک کر ریلو ے لائن کے ارد گرد لگے ہوئے سائن بورڈوں کو دیکھ دیکھ کر پڑھنا سیکھا۔

اس نے کہا تھا کہ وہ انسانی فطرت سے واقف تھا اور اسے لوگوں سے سچا لگاؤ تھا اس نے بتایا تھا کہ اکثر جادوگر حاضرین پر ایک نظر ڈال کر اپنے آپ سے کہتے ہیں۔ ’’یہ چند الوؤں کا جھمگٹا ہے چند بے وقوفوں کا ٹولہ ہے میں انھیں اچھی طرح بے وقو ف بنا سکتا ہوں‘‘ لیکن وہ اسٹیج پر اس وقت تک قدم نہ رکھتا تھا جب تک وہ اپنے دل سے کئی بار یہ نہ کہہ لیتا کہ ’’میں اپنے حاضرین سے محبت کرتا ہوں میں اپنے حاضرین کو دل و جان سے چاہتا ہوں‘‘ دنیا کے اکثر جادوگروں کی طرح پاکستان کے سیاست دانوں کی اکثریت یہ سو چ رکھتی ہے کہ یہ عوام چند الوؤں کا جھمگٹا ہے چند بے وقوفوں کا ٹولہ ہے میں انھیں اچھی طرح سے بے وقوف بنا سکتا ہوں۔

وہ عوام کو اس سے زیادہ کچھ اور نہیں سمجھتے 67 سالوں سے ہمارا سماج دراصل اسی گمرہ کن آزمائش میں مبتلا ہے ہر سیاست دان کو یہ موقع حاصل ہے کہ وہ اٹھے جیتے اور لوٹنا کھسوٹنا شروع کر دے۔ پاکستان دنیا کا واحد نیم جمہوری ملک ہے جہاں سیاست دان تمام تر اپنی ذمے داریوں سے مبرا ہیں تمام سانحات سے لاتعلق، ملکی و قومی مسائل سے نا آشنا، لوگوں سے بے پرواہ ہیں جن کا واحد مقصد لوٹ مارکرنا اور شام ہوتے ہی مختلف ٹی وی چینلز پر بیٹھ کر تماشا لگانا رہ گیا ہے۔ یاد رہے تماشوں کا بھی کوئی مقصد ہوتا ہے کوئی نہ کوئی خیر کا پہلو ہوتا ہے اس کے لیے بھی تیاری کی جاتی ہے محنت کی جاتی ہے معلومات حاصل کی جاتی ہے پڑھا جاتا ہے۔

یہ سر شام ہونے والے واحد تماشے ہیں جن کا کوئی مقصد نہیں ہو تا جس کے لیے کسی تیاری یا محنت کی ضرورت نہیں پڑتی جس میں کوئی خیر کا پہلو نہیں ہوتا بس صرف اور صرف بے مقصد باتیں، باتیں، باتیں اور صرف باتیں۔ یہ سیاست دان ملک اور قوم کو مشکلوں اور بحرانوں سے کیا نکالیں گے جو خود مشکل اور بحران ہیں جن کا دن رات کا خفیف ترین حصہ بھی اس خیال میں نہیں گزرتا کہ پاکستان کسی مرض میں مبتلا ہے دراصل وہ اپنے مرض کے علاج و معالجے میں اس قدر مصروف رہتے ہیں کہ انھیں اپنے ملک اور قوم کے مرض کے بارے میں غور کرنے کا موقع ہی نہیں ملتا، یہ لوگ جو اپنے گھروں کا نظام درست نہیں کر سکتے، جو اخلاقی طور پر انتہائی پست ہیں۔

سیاست میں آنے کے بعد اپنے ملک کا نظام ٹھیک کرنے اور لوگوں کو اخلاقیات کا درس دینے کے لیے نکلے پڑے ہیں یہ سب کے سب بونے ہیں نہ تو ان کا کوئی ویژن ہے نہ ہی ان میں سمجھ داری ہے، نہ ان میں اخلاق یا قابلیت ہے ان کی سوچ اور عمل صرف انتخابی سیاست تک محدود ہے اس سے زیادہ نہ یہ کوئی سو چ رکھتے ہیں اور نہ ہی اس سے زیادہ سوچنے کی صلاحیت ان میں موجود ہے یہ صرف اپنے علاقے کی پولیس ضلعی انتظامیہ، علاقائی پٹواری تک ذہنی طور پر قید ہیں نہ ہی ان سب حضرات کو مطالعے یا لکھنے پڑھنے میں کوئی دلچسپی ہے اور نہ ہی انھیں ملک و قوم کی ترقی ، خوشحالی، مسائل، منصوبوں میں کوئی دلچسپی ہے، ان کی روح لنگڑی، دماغ اپاہج زبان مفلوج اور ہاتھ پیر شل ہیں یہ کیسے ملک اور قوم کی رہنمائی کر سکتے ہیں جو ملک اور قوم کا پیسہ لوٹ لوٹ کر اپنی جیبیں بھر ر ہے ہیں آپ ان کی ہر سانس میں ریا کاری اور دغا بازی کا تعفن محسوس کر سکتے ہیں۔

مشتاق احمد یوسفی کہتے ہیں ’’میرا خیال ہے کہ حالات حاضر ہ پر تبصر ہ کر تے وقت جو شخص اپنا بلڈ پریشر اور گالی پر قابو رکھ سکے وہ یا تو ولی اللہ ہے یا پھر خود حالات کا ذمے دار ہے‘‘ ان سب حضرات کے لیے عرض ہے کہ عوام کو بے وقوف سمجھنے والو عوام تم سے زیادہ ذہین، سمجھ دار بااخلاق، ایماندار اور تم سے زیادہ ویژن رکھنے والے ہیں انھیں نہ صرف اپنے مسائل بلکہ ملکی مسائل سے بھی اچھی طرح آگاہی حاصل ہے اور ساتھ ساتھ وہ تمہاری ریاکاری سے بھی واقف ہیں، انھیں یہ بھی معلوم ہے کہ تم ان کے غم میں آنسو اس لیے بہاتے ہو کہ تم اپنا الو سیدھا کر سکو۔ پاکستان کے عوام ایسے لیڈر کے منتظر ہیں جو حضرت عمرؓ کا سا اخلاص رکھتا ہو۔ جو قائداعظم جیسی سو چ کا حامل ہو جو لنکن جیسا جذبہ رکھتا ہو۔ جس میں خمینی جیسی جرأت ہو، جس کے سینے میں کمال اتاترک کا سپاہیانہ جذبہ ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔