- پی آئی اے کا یورپی فلائٹ آپریشن کیلیے پیرس کو حب بنانے کا فیصلہ
- بیرون ملک ملازمت کی آڑ میں انسانی اسمگلنگ گینگ سرغنہ سمیت 4 ملزمان گرفتار
- پاکستان کےمیزائل پروگرام میں معاونت کا الزام، امریکا نے4 کمپنیوں پرپابندی لگا دی
- جرائم کی شرح میں اضافہ اور اداروں کی کارکردگی؟
- ضمنی انتخابات میں عوام کی سہولت کیلیے مانیٹرنگ اینڈ کنٹرول سینٹر قائم
- وزیرداخلہ سے ایرانی سفیر کی ملاقات، صدررئیسی کے دورے سے متعلق تبادلہ خیال
- پختونخوا؛ صحت کارڈ پر دوائیں نہ ملنے پر معطل کیے گئے 15 ڈاکٹرز بحال
- لاہور؛ پولیس مقابلے میں 2 ڈاکو مارے گئے، ایک اہل کار شہید دوسرا زخمی
- پختونخوا؛ مسلسل بارشوں کی وجہ سے کئی اضلاع میں 30 اپریل تک طبی ایمرجنسی نافذ
- پختونخوا؛ سرکاری اسکولوں میں کتب کی عدم فراہمی، تعلیمی سرگرمیاں معطل
- موٹر وے پولیس کی کارروائی، کروڑوں روپے مالیت کی منشیات برآمد
- شمالی کوریا کا کروز میزائل لیجانے والے غیرمعمولی طورپربڑے وارہیڈ کا تجربہ
- پاکستان اور نیوزی لینڈ کے درمیان دوسرا ٹی20 آج کھیلا جائے گا
- بابر کو ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا مشورہ
- موبائل فون صارفین کی تعداد میں 37 لاکھ کی ریکارڈ کمی
- گیلپ پاکستان سروے، 84 فیصد عوام ٹیکس دینے کے حامی
- ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے غلط استعمال پر 10کروڑ روپے جرمانہ
- معیشت2047 تک 3 ٹریلین ڈالر تک بڑھنے کی صلاحیت رکھتی ہے، وزیر خزانہ
- پٹرولیم ایکسپلوریشن اینڈ پروڈکشن کمپنیوں نے سبسڈی مانگ لی
- پاکستان کی سعودی سرمایہ کاروں کو 14 سے 50 فیصد تک منافع کی یقین دہانی
گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کیلئے تیزی سے بڑھتے درجہ حرارت کو روکنا ضروری ہے، سائنسدان
لندن: زمین کا مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور موسمیاتی تبدیلیوں میں تیزی نے سائنسدانوں کو پریشان کردیا ہے اسی لیے تو دنیا کےسائنسدان سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ ان سے کیسے نمٹا جائے تاہم ان کا کہنا ہے کہ زمین کو گرم درجہ حرارت سے بچانے والے تجویز کردہ اقدامات سے اربوں انسان متاثر ہوسکتے ہیں جب کہ سائنسدان اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو گلوبل وارمنگ پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔
زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کو روکنے کے لیے دنیا بھر کے سائنسدان لندن میں جمع ہوئے جس میں 3 جدید ترین تحقیقات پر بحث کی گئی جس میں یونیورسٹی آف لیڈز، برسٹل اور آکسفورڈ کے سائنسدان اور ماہرین نے شرکت کی ۔ سب کی توجہ کا مرکز جیو انجینئرنگ کا منصوبہ تھا جس کے تحت مصنوعی بادلوں کا سایہ اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ جیو انجینئرنگ کا سب سے اہم منصوبہ انتہائی بلندی سے طیاروں کے ذریعے سلفر کے ذرات کا اسپرے ہے جس سے آتش فشاؤں کی طرز پر ٹھنڈا کرنے والے مادے پیدا کئے جائیں گے یا پھر مصنوعی درخت اگائیں جائیں گے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ جو جذب کرلیں گے۔ برسٹل یونیورسٹی کے ڈاکٹر مٹ وٹسن کا کہنا تھا کہ بحث کا مرکزی نکتہ یہ نہیں تھا کہ جیو انجینئرنگ کے منصوبے کیسے کام کریں گے تاہم سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ان منصوبوں کے اثرات انتہائی تباہ کن اور ان کی پیچیدیوں سے اربوں انسان متاثر ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اگرچہ یہ منصوبہ اچھا نہیں لگا تاہم زمین کے درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اس سے بہتر کوئی منصوبہ نہیں ہوسکتا۔
اجلاس کے دوران کمپیوٹر پر مختلف منصوبوں اور ٹیکنالوجی کے قابل استعمال ہونے سے متعلق کئی ماڈلز پیش کئے گئے، ماہرین کے مطابق سب سے بہتر منصوبہ جیو انجینئرنگ کا ہی تھا جس کے تحت صحرا، سمندر اور بادل کے انعکاسی عمل کو مزید مؤثر بنا کر انہیں اس قابل بنایا جائے گا کہ جو شمسی تابکاری کو زمین پر پہنچنے سے روک سکے گا، اجلاس کے دوران ایک دوسرا ماڈل بھی پیش کیا گیا جس کے تحت برف سے ڈھکے آرکٹیک کی فضا میں سلفیٹ کے ذرات کو انجیکٹ کیا جائے گا جو برف پگھلنے کےعمل کو کم کردے گا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ان سب ماڈلز پر چند ماہ یا چند سالوں میں عملد درآمد ممکن نہیں اس کے لیے 10 سال سے لے کر 20 سال کا عرصہ درکار ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان منصوبوں پر عمل سے دنیا بھر میں بارشوں کا پیٹرن متاثر ہوگا اور چند خطوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے، ماہرین کے مطابق ان ماڈلز سے سورج کی شعاعوں کو جسے ’سولر ریڈی ایشن مینجمنٹ‘ کہا جاتا ہے زمین پر پہنچنے سے تو روک دے گا اور درجہ حرارت میں بھی کمی آجائے گی تاہم یہ انڈین مون سون کو شدید متاثر کرسکتا ہے جس سے کئی علاقے صحراؤں میں تبدیل ہوجائیں گے۔
واضح رہے کہ اسی جیو انجیئرنگ کے ایک ماڈل ’لوہافیکس‘ کے تحت جنوبی اٹلانٹک میں 6 ٹن آئرن سلوشن کو ڈالا گیا جس سے سمندر کی سطح میں موجود پلانکٹون تیزی سے پھیلے اور انہوں نے سمندر کی تہہ میں بننے والی کاربن کو جذب کرلیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان منصوبوں کے منفی اثرات سے بچاؤ کے لیے سائنسدان کیا منصوبہ بندی اور حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔