گلوبل وارمنگ پر قابو پانے کیلئے تیزی سے بڑھتے درجہ حرارت کو روکنا ضروری ہے، سائنسدان

ویب ڈیسک  بدھ 26 نومبر 2014
زمین کا مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور موسمیاتی تبدیلیوں میں تیزی نے سائنسدانوں کو پریشان کردیا ہے  فائل: فوٹو

زمین کا مسلسل بڑھتا ہوا درجہ حرارت اور موسمیاتی تبدیلیوں میں تیزی نے سائنسدانوں کو پریشان کردیا ہے فائل: فوٹو

لندن: زمین کا مسلسل بڑھتا ہوا  درجہ حرارت اور موسمیاتی تبدیلیوں میں تیزی نے سائنسدانوں کو پریشان کردیا ہے اسی لیے تو  دنیا کےسائنسدان سر جوڑ کر بیٹھ گئے ہیں کہ ان سے کیسے نمٹا جائے تاہم ان کا کہنا ہے کہ زمین کو گرم درجہ حرارت سے بچانے والے تجویز کردہ اقدامات  سے اربوں انسان متاثر ہوسکتے ہیں جب کہ سائنسدان اس بات پر بھی متفق ہیں کہ اگر فوری اقدامات نہ کئے گئے تو گلوبل وارمنگ  پر قابو پانا مشکل ہوجائے گا۔

زمین کے درجہ حرارت میں مسلسل اضافے کو روکنے کے لیے دنیا بھر کے سائنسدان لندن میں جمع ہوئے جس میں 3 جدید ترین تحقیقات پر بحث کی گئی جس  میں یونیورسٹی آف  لیڈز، برسٹل اور آکسفورڈ کے سائنسدان اور ماہرین نے شرکت کی ۔ سب کی توجہ کا مرکز جیو انجینئرنگ کا منصوبہ تھا جس کے تحت مصنوعی بادلوں کا سایہ اور کاربن  ڈائی آکسائیڈ کو جذب کرنے جیسے اقدامات شامل ہیں۔ جیو انجینئرنگ کا سب سے اہم منصوبہ انتہائی بلندی سے طیاروں کے ذریعے سلفر کے ذرات  کا اسپرے ہے جس سے آتش فشاؤں کی طرز پر ٹھنڈا کرنے والے مادے پیدا کئے جائیں گے یا پھر مصنوعی درخت اگائیں جائیں گے جو کاربن ڈائی آکسائیڈ جو جذب کرلیں گے۔  برسٹل یونیورسٹی کے ڈاکٹر مٹ وٹسن کا کہنا تھا کہ بحث کا مرکزی نکتہ یہ نہیں تھا کہ جیو انجینئرنگ کے منصوبے کیسے کام کریں گے تاہم سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ ان منصوبوں کے اثرات انتہائی تباہ کن اور ان کی پیچیدیوں سے اربوں انسان متاثر ہو سکتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں اگرچہ یہ منصوبہ اچھا نہیں لگا تاہم زمین کے درجہ حرارت کو بڑھنے سے روکنے کے لیے اس سے بہتر کوئی منصوبہ نہیں ہوسکتا۔

اجلاس کے دوران کمپیوٹر پر مختلف منصوبوں اور ٹیکنالوجی کے قابل استعمال ہونے سے متعلق کئی ماڈلز پیش کئے گئے، ماہرین کے مطابق سب سے بہتر منصوبہ جیو انجینئرنگ کا ہی تھا جس کے تحت  صحرا، سمندر اور بادل  کے انعکاسی عمل کو مزید مؤثر بنا کر انہیں اس قابل بنایا جائے گا کہ جو شمسی تابکاری کو زمین پر پہنچنے سے روک سکے گا، اجلاس کے دوران ایک دوسرا ماڈل بھی پیش کیا گیا جس کے تحت برف سے ڈھکے آرکٹیک کی فضا میں سلفیٹ کے ذرات  کو انجیکٹ کیا جائے گا جو برف پگھلنے کےعمل کو کم کردے گا۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ان سب ماڈلز پر چند ماہ یا چند سالوں میں  عملد درآمد ممکن نہیں اس کے لیے 10 سال سے لے کر 20 سال کا عرصہ درکار ہے، اس کے ساتھ ساتھ ان منصوبوں پر عمل سے دنیا بھر میں بارشوں کا پیٹرن متاثر ہوگا اور چند خطوں پر تباہ کن اثرات  مرتب ہوں گے، ماہرین کے مطابق ان ماڈلز سے سورج کی شعاعوں کو جسے ’سولر ریڈی ایشن مینجمنٹ‘ کہا جاتا ہے زمین پر پہنچنے سے تو روک دے گا اور درجہ حرارت میں بھی کمی آجائے گی تاہم  یہ انڈین مون سون کو شدید متاثر کرسکتا ہے جس سے کئی علاقے صحراؤں میں تبدیل ہوجائیں گے۔

واضح رہے کہ اسی جیو انجیئرنگ کے ایک ماڈل  ’لوہافیکس‘ کے تحت جنوبی اٹلانٹک میں 6 ٹن آئرن سلوشن کو ڈالا گیا جس سے سمندر کی سطح میں موجود پلانکٹون تیزی سے پھیلے اور انہوں نے سمندر کی تہہ میں بننے  والی کاربن کو جذب کرلیا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ان منصوبوں کے منفی اثرات سے بچاؤ کے لیے سائنسدان کیا منصوبہ بندی اور حکمت عملی اختیار کرتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔