اُدھڑی سڑکیں، تباہ حال پُل، شہر قائد جسے تاراج کردیا گیا، کون سنے گا اس کی فریاد۔۔۔؟

عبداللطیف ابو شامل  جمعرات 27 نومبر 2014
شہر ہے کہ اجڑتا اور ادھڑتا جا رہا ہے اور کوئی پرسان حال پہلے ہی کب تھا، جو اب ہوگا۔  فوٹو: فائل

شہر ہے کہ اجڑتا اور ادھڑتا جا رہا ہے اور کوئی پرسان حال پہلے ہی کب تھا، جو اب ہوگا۔ فوٹو: فائل

شہر کا شہر ہی ادھڑا پڑا ہے۔ بغیر کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے منصوبے بنتے رہتے ہیں۔ فنڈز مختص ہوتے اور پھر جاری کیے جاتے ہیں، زبانی جمع خرچ ہوتا رہتا ہے، اجلاس بھی ہوتے ہیں، جائزے بھی لیے جاتے ہیں، بریفنگ بھی ہوتی ہیں اور نہ جانے کیا کچھ۔ سچ پوچھیے تو اب سب ہی یہ بات جانتے ہیں کہ یہ فنڈز کہاں جاتے ہیں۔

افسر شاہی اور ہمارے ہردل عزیز اور محبوب راہ نماؤں جو ہمارے ووٹوں سے منتخب ہوتے ہیں کا ایک گٹھ جوڑ ہے اور اتنا پائیدار کہ اس کا کوئی توڑ نظر نہیں آتا اور اگر کبھی تحقیقات ہو بھی جائیں اور ذمے داروں کا تعین بھی ہوجائے تو ایسے میں مشہور زمانہ نسخہ ’’ لے کے رشوت پھنس گیا ہے، دے کے رشوت چھوٹ جا‘‘ یہاں سب سے زیادہ کارگر ثابت ہوا ہے۔

شہر ہے کہ اجڑتا اور ادھڑتا جا رہا ہے اور کوئی پرسان حال پہلے ہی کب تھا، جو اب ہوگا۔ کوئی ایک مسئلہ ایسا نہیں جو حل کرلیا گیا ہو۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی ڈرگ روڈ پر بنا فلائی اوور خستہ ہونے کی وجہ سے آمد و رفت کے لیے بند کر دیا گیا تھا اور ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا، متعدد بار اسے بند کیا گیا ہے اور پھر اس کی لیپا پوتی کرکے کھول دیا گیا۔ سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں اسے منہدم کرکے ازسرنو تعمیر کرنے کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ پھر اس منصوبے کا کیا بنا۔۔۔۔ ؟ یقینا سرخ فیتے کا شکار ہوگیا ہوگا۔ اب آتے ہیں جام صادق پل کی جانب۔

کورنگی کا صنعتی علاقہ جو معاشی سرگرمیوں کا مرکز ہے۔ یہاں ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں کے پیداواری یونٹ، دفاتر اور آس پاس شہری آبادی ہے۔ یہ صنعتی علاقہ حکومت کو اربوں روپے کا محصول ادا کرتا اور معاشی ترقی میں اپنا کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ لیکن اس علاقے کی صورت حال دگرگوں ہے۔ صنعت کار واویلا کرتے اور عوام چلاتے رہتے ہیں لیکن نامعلوم وجوہ کی بنا پر ان کی صدا ارباب اختیار سننے سے قاصر نظر آتے ہیں۔

قیوم آباد سے کورنگی صنعتی علاقے کو جانے والا جام صادق علی پل آمدورفت کے لیے انتہائی خطرناک ہوگیا ہے۔ یہ پل چھلنی بن گیا ہے، جگہ جگہ بڑی دراڑیں اور سوراخ ہوگئے ہیں جس کی وجہ سے کورنگی صنعتی علاقے کو جانے والے ٹرالرز اور ٹرک اکثر و بیشتر پل پر پھنس جاتے ہیں۔ جب پانی سر سے اونچا ہوجاتا ہے تو پل کی دراڑیں بھری جاتی ہیں لیکن لیپاپوتی کے کچھ دن بعد دوبارہ اس سے بڑی دراڑیں پڑجاتی ہیں۔ مال بردار ٹرالر اور ٹرک، پبلک ٹرانسپورٹ، پرائیویٹ گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں کے باعث پل پر ٹریفک جام رہنا معمول ہے۔

حکومت اور بلدیاتی اداروں نے اب تک اس اہم پل کی مرمت کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے۔ ہر دن گزرنے کے ساتھ پل کا ڈھانچا کم زور ہورہا ہے۔ کورنگی صنعتی علاقے کے صنعت کار کئی بار پل کی مکمل مرمت کا مطالبہ کرچکے ہیں۔ اس پل سے روزانہ ہزاروں چھوٹی بڑی گاڑیاں مال بردار ٹرالرز اور ٹرکوں کے علاوہ لانڈھی اور کورنگی کے مختلف علاقوں کے ہزاروں رہائشی گزرتے ہیں۔ پل پر اس قدر دراڑیں پڑچکی ہیں کہ ان گڑھوں سے شدید گرد اڑتی رہتی ہے اور پل کی صفائی بھی نہیں کرائی جاتی جس کی وجہ سے شہریوں کو شدید اذیت کا سامنا ہے۔

خدشہ ہے کہ جام صادق پل کی مکمل مرمت نہ کرائی گئی تو گاڑیاں پل سے ندی میں گرسکتی ہیں اور سنگین حادثات رونما ہوسکتے ہیں۔ جام صادق علی پل شہر کے چند بڑے پلوں میں شمار ہوتا ہے اور پورے شہر کی گاڑیاں لانڈھی اور کورنگی کے مختلف علاقوں کو جانے کے لیے اس پل کو استعمال کرتی ہیں۔ ملیر ندی میں طغیانی کی صورت میں اس پل کی اہمیت دوچند ہوجاتی ہے، کورنگی کراسنگ کی طرف سے جانے والی گاڑیاں بھی اس پل سے گزر کر جاتی ہیں۔ ویسے تو اس پل پر حادثات ہوتے رہتے ہیں، لیکن اگر حکومت نے پل کی مرمت پر فوری توجہ نہیں دی تو کسی سنگین حادثے کا خدشہ ہے۔

شہر قائد کی بیش تر سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ حسن اسکوائر سے نیپا اور کراچی یونیورسٹی سے صفورہ اور پھر ملیر چیک پوسٹ 6 تک جانے والی سڑک مکمل طور پر تباہ ہوچکی ہے۔ بعض مقامات پر کئی فٹ گہرے گڑھے بن گئے ہیں۔ درمیانی آئی لینڈ ٹوٹ چکی اور اطراف میں جگہ جگہ کچرا اور گندا پانی جمع رہتا ہے۔ اس سڑک پر ٹریفک کی روانی سست ہونے کے باعث رات کو لوٹ مار کے واقعات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔ ملیر کینٹ چیک پوسٹ نمبر 6 سے صفورہ چورنگی جانے والی یہ سڑک جگہ جگہ سے بیٹھ چکی اور مکمل غیر ہموار ہے۔

گلشن عمیر کے ساتھ مین سڑک پر ریتی بجری اور تعمیرات کا دیگر سامان پڑا رہتا ہے۔ کراچی ریس کلب کے سامنے ہائیڈرنٹ کے باعث سڑک ٹوٹ چکی ہے۔ مین صفورہ چورنگی بھی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے۔ چورنگی کے درمیان کچرے کا ڈھیر لگا رہتا ہے۔ صفورہ گوٹھ سے جامعہ کراچی تک درمیانی آئی لینڈ کہیں بھی نظر نہیں آتی۔ سڑک کے دونوں اطراف کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔ اس سڑک پر گندا پانی بھی جمع رہتا ہے۔ شہریوں نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس دیرینہ منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ برسوں سے خراب سڑک کے لیے خصوصی فنڈز کا اجراء کیا جائے تاکہ شہریوں کے لیے عرصہ دراز سے درد سر بننے والی اس سڑک کی ازسر نو تعمیر ممکن ہوسکے اور انہیں کچھ سہولت میسر آسکے۔

بندرگاہ روڈ کیماڑی، ملکی تجارتی سرگرمیوں میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ اس شاہراہ پر روزانہ سیکڑوں مال بردار گاڑیوں کی آمد و رفت جاری رہتی ہے۔ تاہم متعلقہ اداروں کی عدم توجہی سے اس سڑک پر کئی مقامات پر گڑھے پڑگئے ہیں جس سے اس شاہراہ پر ٹریفک حادثات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ کراچی کی بندرگاہ جو ملکی معیشت میں کلیدی کردار ادا کر رہی ہے۔ اس بندرگاہ کی حدود میں روزانہ ہزاروں مال بردار گاڑیوں کی آمد اور روانگی ہوتی ہے۔

بیرون ملک سے جو سامان اس بندرگاہ پر آتا ہے، وہ مال بردار گاڑیوں کے ذریعے اندرون ملک پہنچایا جاتا ہے۔ جب کہ مختلف مصنوعات جو بیرون ملک برآمد ہوتی ہیں، وہ بھی مال بردار گاڑیوں کے ذریعے اس بندرگاہ پر لائی جاتی ہیں۔ سامان کی ترسیل کے لیے بندرگاہ روڈ کی توسیع اور مرمت کئی برس پہلے سابق صدر پرویز مشرف کے دور میں کی گئی تھی جب کہ بندرگاہ سے سامان کی تیز رفتار ترسیل کے لیے جناح برج ( نیٹی جیٹی پل ) کی توسیع بھی کی گئی۔ یہ شاہراہ کیماڑی ایک نمبر سے شروع ہوتی ہے اور گھاس بندر پر یہ روڈ نیٹی جیٹی پل کے آغاز کے ساتھ ہی اختتام پذیر ہو جاتی ہے۔

نیٹی جیٹی پل سے تین راستے نکلتے ہیں، ایک راستہ ماڑی پور روڈ، دوسرا ٹاور ایم اے جناح روڈ اور تیسرا راستہ مائی کلاچی اور سلطان آباد کی طرف جاتا ہے۔ دن کے اوقات میں مال بردار گاڑیوں کا زیادہ رش ماڑی پور کی سمت ہوتا ہے کیوں کہ یہ شاہراہ یہاں سے ٹرک اڈے کے علاوہ سائٹ ایریا سے ہوتی ہوئی شاہراہ پاکستان اور پھر سپر ہائی وے سے منسلک ہو جاتی ہے۔

بندرگاہ سے رات کے اوقات میں مال بردار گاڑیوں کی اندرون شہر میں آمد شروع ہوتی ہے اور انہی اوقات میں ہی اندرون ملک سے مال بردار گاڑیاں سامان لے کر بندرگاہ پہنچتی ہیں۔ اس شاہراہ پر رات دن بڑی، چھوٹی مال بردار گاڑیوں کا تانتا بندھا ہوتا ہے۔ لیکن کئی برسوں سے بندرگاہ روڈ جیسی اہم ترین اور حساس سڑک کی مرمت پر حکومت نے کوئی توجہ نہیں دی ہے۔ جب کہ غلط پارکنگ کی وجہ سے اس شاہراہ پر ٹریفک جام رہنا بھی روز کا معمول ہے۔

پی آئی ڈی سی پل کی حالت بھی انتہائی خراب ہے۔ اس پل سے روزانہ ارباب اختیار گزرتے اور اس کی حالت دیکھتے ہیں لیکن نجانے دیکھتے بھی ہیں کہ نہیں ۔ یہ پل جو ہائی سیکوریٹی زون میں واقع ہے۔ اس کے آس پاس کا علاقہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ یہاں پنج ستارہ ہوٹلوں میں ملکی اور غیر ملکی مہمانوں کا بسیرا رہتا ہے۔ قریب ہی وزیر اعلیٰ ہاوس اور کمشنر ہاؤس واقع ہیں۔ اتنے حساس علاقے میں واقع ہونے کے باوجود یہ حکومتی عدم توجہی کا شکار ہے۔

کراچی کے باسی توقعات باندھنے اور خواب دیکھنے کے عادی ہوگئے ہیں۔ اس شہر کی جو صورت حال ہے اس میں شہریوں کو داد دینی چاہیے کہ وہ خواب دیکھنا نہیں چھوڑتے۔ کیا ارباب اختیار اپنے شہریوں جن سے وہ روزانہ اربوں رپوں کا محصول وصول کرتے ہیں ان کے چند خوابوں کو تعبیر دے کر سرخ رو ہو سکتے ہیں۔۔۔؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔