وبا سے محبت

اقبال خورشید  جمعرات 27 نومبر 2014

اگر آپ مشرف کیس میں ہونے والی پیش رفت سے پریشان ہیں، سید منور حسن کے بیان پر حیران ہیں، عمران خان کے مطالبات نے ہلکان کر رکھا ہے، پی پی کی سنجیدگی نے لطیفوں کا سامان کر رکھا ہے، امریکا بہادر کی افغانستان میں موجودگی پر پژمردہ اور مودی جی کی کامیابیوں پر افسردہ ہیں، تو پھر یہ کالم آپ کے لیے نہیں۔ قطعی نہیں!

بک اسٹالز سے معروف بزنس مین کی آپ بیتی کس نے غائب کروائی، عقیدے کو کاروبار بنانے کی راہ کس نے سُجھائی، علم دشمنوں نے کلام اقبال کی کیا صورت بنائی، کس دورِضیاع میں دلیل اور منطق کی موت ہوئی، خرد پسندوں کا انتقال کب ہوا، دایاں بازو انتہاپسندی کی کھل کر مذمت کیوں نہیں کر سکا؛ کم از کم یہ کالم آپ کو اِن گنجلک سوالوں کا جواب نہیں دینے والا۔ اس کے لیے اور قلم کار میسر، جن کی پیش گوئیوں سے سجی تحریریں متجسس اور متذبذب قارئین کی تسکین کے لیے خوب کارگر۔

راقم الحروف تو آپ کو فقط یہ اطلاع پہنچانے کا آرزومند کہ آج کل گبرئیل گارسیا مارکیز کا ناول ’’وبا کے دنوں میں محبت‘‘ زیر مطالعہ ہے۔ وقت اچھا کٹ رہا ہے اور خواہش ہمکنے لگی ہے کہ ہر کوئی اِس لاطینی امریکی ادیب کو پڑھنے کے مرض میں مبتلا ہو جائے۔ ہر کسی کو مطالعے کی لت پڑ جائے، کتاب کلچر پھر سانس لینے لگے، لائبریریاں آباد ہوں، کتاب اٹھا کر یار لوگ غل غپاڑے بھول جائیں۔ سیاست دانوں، حکمرانوں کے کھوکھلے دعوؤں سے منہ موڑ کر مستنصر حسین تارڑ کے ساتھ کسی سفر پر نکل جائیں۔ اسد محمد خان کی کہانیوں میں زندگی پائیں۔ مرزا اطہر بیگ کے چیستانی قصّوں میں گم ہو جائیں۔ ہوزے سارا ماگو، اورحان پامک کے ناول چاٹ جائیں کہ وبا کے دنوں میں کتابوں سے محبت ہی سب سے موثر دوا ہے۔

ادب بے شک گھاٹے کا سودا، ادیبوں کی ناقدری تسلیم شدہ حقیقت، ناشروں کی چال بازیاں بھی عروج پر؛ مگر اب بھی کچھ جیالے خاموشی سے ادبی جراید نکال رہے ہیں، کچھ متوالے، اپنی جیب سے سہی، کتابیں چھپوا رہے ہیں، کچھ دیوانے اُنھیں سر جھکائے پڑھنے میں مصروف۔ سچ پوچھو تو یہ عزیز قابل تقلید ہیں۔

ایسے ہی ایک صاحب اُدھر کوئٹہ میں بیٹھے ہیں۔ نام ہے؛ ڈاکٹر شاہ محمد مری۔ اِس نابغۂ روزگار شخصیت کا تذکرہ الگ دفتر کا متقاضی۔ فقط ان کے پرچے ’’سنگت‘‘ کی بات کی جائے، تو تحریر بے انت ہو جائے۔ ہم تو صرف اُن کا شکریہ ادا کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس پرچے کے ذریعے بلوچستان میں ادب کی آبیاری میں جٹے ہیں۔ دیگر صوبوں کو باخبر رکھتے ہیں کہ اُدھر کیا لکھا جا رہا ہے، کیسا لکھا جا رہا ہے۔ ہم تو بلوچستان میں بیٹھے اردو ادیبوں کے قائل۔ اُنھیں خراج تحسین پیش کرنے کے چکر میں سوشل میڈیا پر آڑے ہاتھوں لیے گئے۔ لسانی عینک بھی ایک مرض ہے۔

لاہور اور کراچی جیسے مراکز میں ہونے والی سرگرمیاں تو اخبارات اور رسائل میں جگہ پا لیتی ہیں، مگر خدا لگتی کہیں، چھوٹے شہروں میں بڑا کام ہو رہا ہے۔ ابھی کچھ روز ہوئے، گوجرانوالا سے معروف شاعر، جان کاشمیر ی کا پرچہ ’’قرطاس ‘‘موصول ہوا۔ 32 واں شمارہ۔ متواتر نکلنے والے اس پرچے میں شعری حصہ متوازن، افسانوی حصہ جان دار۔ نئے تخلیق کاروں کی بھی خبر دے رہا ہے۔ پیش کش اور قیمت، دنوں مناسب۔ جان کاشمیر ی کچھ علیل ہیں۔ خدا اُنھیں اور ’’قرطاس‘‘ کو زندگی دے۔

مانسہرہ کی طرف نظر کیجیے۔ وہاں سے جان عالم ’’شعر و سخن‘‘ نکالتے ہیں، اور تواتر سے نکالتے ہیں۔ مختصر اور پُر فکر اداریے، فکشن اُن کی توجہ کا خاص مرکز، قارئین کے لیے اچھا مواد ہوتا ہے۔ اس بار بھی بارہ افسانے ہیں۔ گزشتہ شمارے میں تو ہمیں کراچی کے تخلیق کاروں کا غلبہ نظر آیا تھا۔ بڑے سائز میں نکلنے والا یہ پرچہ ایک امید ہے، جیسے قائم رہنا چاہیے۔

ہندوستان سے حالات کشیدہ سہی، مگر دونوں طرف کے ادیب ایک دوسرے کے لیے نیک جذبات کے حامل۔ امن کے خواہاں۔ غلط فہمیاں تو ہو ہی جاتی ہیں۔ اب کچھ روز ہوئے، ایکسپریس میگزین کے لیے لکھنؤ سے آئے نقاد اور فکشن نگار، ڈاکٹر انیس اشفاق کا انٹرویو کیا، جنھوں نے پاکستان آمد کو زندگی کا خوش گوار ترین لمحہ قرار دیا، یہاں ملنے والی محبت کو اثاثہ ٹھہرایا۔ میٹھی میٹھی باتوں کے دوران تقسیم سے متعلق بھی رائے دی، جو کچھ تلخ تھی۔ ایک معاصر اردو اخبار کے سینئر کالم نگار کو یہ رائے ناگوار گزری۔ اپنے کالم میں ڈاکٹر صاحب پر خوب تنقید کی۔ انیس اشفاق تو یہاں ہیں نہیں، اور پھر ہم بھی کون سے اُن کے ترجمان۔ البتہ یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ انسان ہو یا زندگی؛ دونوں کے مثبت پہلوؤں پر توجہ مرکوز رکھنا بھلا۔ ہم تو جے پور، راجستھان سے موصول ہونے والے پرچے ’’استفسار‘‘ کی تعریف میں کنجوسی سے کام نہیں لیں گے، جس کے مدیران ہیں: شین کاف نظام اور عادل رضا منصوری۔ نظم اور نثر کے حصوں میں، معیار اور جغرافیے، دونوں اعتبار سے توازن۔ قیمت ہمیں انتہائی مناسب لگی۔ جو چیز زیادہ بھائی، وہ مجید امجد کا گوشہ تھا، جسے دیکھ کر خواہش ہوئی کہ ’’استفسار‘‘ کا سلسلہ جاری رہے۔

’’عالمی رنگ ادب ‘‘ کا 36 واں شمارہ کچھ ہی روز پہلے ڈاک سے ملا۔ مدیر اعلیٰ؛ ڈاکٹر اختر ہاشمی۔ مدیر اعزازی؛ شاعر علی شاعر۔ کراچی سے جو پرچے تواتر سے نکل رہے ہیں، اُن میں نمایاں۔ پیش کش کا ڈھب بھی مناسب۔ پرچے میں ’’اجرا ‘‘ کے مدیر، احسن سلیم کا انٹرویو بھی شامل۔ احسن سلیم ’’ادب برائے تبدیلی‘‘ کا عَلم اٹھائے ہوئے ہیں۔ اُن کے اپنے پرچے میں اِس موضوع پر صحت مند بحث چھڑی ہے۔ ’’اجرا‘‘ کے تازہ شمارے میں اُنھوں نے ایک ادبی کانفرنس منعقد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ بڑا جرات مندانہ اقدام ہے۔ خدا اُنھیں کامیاب کرے۔ ساتھ ہی دعا ہے کہ ادبی جراید نکلتے رہیں، تخلیقات کا معیار بلند ہو، تخلیق کار لفظ کی اہمیت سمجھیں، اور معاشرے کو پڑھنے لکھنے کی لت پڑ جائے، جو بلاشبہ ایک صحت مند لت ہو گی۔ نقصان کوئی نہیں، اور بھلائی کا قوی امکان۔ مطالعہ تو ایسی وبا ہے، جس سے محبت لازم۔

تو دوستو، اگر آپ جاننا چاہتے تھے کہ پیپلز پارٹی والے شیخ رشید سے کیوں ناراض ہیں، شیخ صاحب اُنھیں ناراض کر کے اتنے خوش کیوں ہیں، 30 نومبر کو کیا ہونے والا ہے؛ تو اس کالم نے آپ کو ضرور مایوس کیا ہو گا۔ مگر یقین کریں، اگر راقم الحروف آپ کو ان سوالوں کے جواب دے بھی دیتا، تب بھی آپ مایوس ہی ہوتے۔ مبارک ہو، آپ مایوسی سے بچ گئے۔ اب کوئی کتاب اٹھائیں، نئے سفر پر نکل جائیں۔ کتاب ہی سب سے عمدہ رفیق!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔