(پاکستان ایک نظر میں) - مداخلت کون کررہا ہے؟ پاکستان یا بھارت؟

محمد عثمان فاروق  جمعرات 27 نومبر 2014
دہشتگردی کیخلاف تمام تر قربانیوں کے بعد آج پاکستان کو ہی دہشتگردی کا گڑھ قرار دیا جارہا ہے۔ اِس لیے حکومت سے التجا ہے کہ خاموشی اختیار کرنے کے بجائے جارحانہ موقف اپناتے ہوئے دنیا پر واضح کردے کہ پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو نقصان کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ فوٹو: فائل

دہشتگردی کیخلاف تمام تر قربانیوں کے بعد آج پاکستان کو ہی دہشتگردی کا گڑھ قرار دیا جارہا ہے۔ اِس لیے حکومت سے التجا ہے کہ خاموشی اختیار کرنے کے بجائے جارحانہ موقف اپناتے ہوئے دنیا پر واضح کردے کہ پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کو نقصان کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ فوٹو: فائل

اکیس بائیس نومبر کو بھارت میں ہونے والی HT Summit Conference ہندوستان ٹائمز سربراہی کانفرنس کے اجلاس میں جب افغانستان کے سابق صدر حامد کرزئی کھلے عام پاکستان کو افغانستان میں دہشتگردی کی وجہ قرار دے رہے تھے اسی وقت ہال میں بیٹھے اسرائیلی پولیٹیکل آفیسر Assaf Moran مسلسل اپنے ٹوئیٹر اکاونٹ پر حامد کرزئی کوشاباشیاں دے کر گویا انکے بیانات پر اپنی مہر تصدیق ثبت کررہے تھے اور جب حامد کرزئی نے یہ کہا کہ اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجود گی سے ثابت ہوگیا کہ امریکہ کو دہشتگردی کے خلاف جنگ افغانستان کی بجائے پاکستان کے اندر لڑنی چاہیئے تب تو بھارتی صحافیوں کے وارے نیارے ہوگئے اور حامد کرزئی کے منہ سے یہ پاکستان مخالف جملے ابھی پوری طرح نکلے بھی نہ تھے کہ ہال میں بیٹھے بڑے بڑے بھاتی صحافیوں نے حامد کرزئی کے اس بیان کو اپنے ٹویٹراکاونٹس کے ذریعے نشر کرنا شروع کردیا۔

اس کانفرنس کے ختم ہوتے ہی یعنی اتوار 23 نومبر کو افغانستان میں والی بال میچ کے دوران دھماکہ ہوتا ہے اور پچاس کے قریب معصوم افغان شہری شہید ہوجاتے ہیں۔ پھر کیا تھا، بھارتی میڈیا پر افغان صدر کے پاکستان کو دہشتگرد قراردینے اورافغانستان میں دھماکے کی خبروں کو ایک ساتھ چلا کر پاکستان کے خلاف جھوٹے پراپیگنڈوں کا محاذ کھول دیا جاتا ہے۔

اگر تھوڑا سا غور کیا جائے تو اس سارے کھیل کا تال میل کھل کرسامنے آجاتا ہے۔ سابق افغان صدر کا بھارت میں پاکستان کو افغانستان میں دہشتگردی کی وجہ قرار دینا پھر اسرائیلی سفارت کار اور بھارتی صحافیوں کا اس بیان کو اچھالنا اور اگلے ہی دن افغانستان میں دھماکہ ہونا اوربھارتی میڈیا کا پاکستان پر ہلا بول دینا،  یہ سب ایسے موقع پر ہوا جب ممبئی حملے کی برسی کو دو دن باقی تھے۔ وہی ممبئی حملہ جس کے بارے میں بھارتی وزرات داخلہ کے افسر’’ستیش ورمہ‘‘ بیان حلفی بھارتی سپریم کورٹ میں داخل کرواچکے ہیں کہ یہ حملہ دراصل بھارت کی برہمن ہندو اسٹیبلشمنٹ کا کام تھا جن کا مقصد بھارت میں دہشتگردی کے خلاف سخت قانون بنوانا اور پاکستان کو عالمی سطح پر دباو میں لانا تھا۔ ستیش ورمہ کا یہ بیان ٹائمز آف انڈیا سمیت بھارت کے صفحہ اول کے اخبارات میں بھی چھپ چکا ہے ۔

میرے ذاتی خیال میں  ستیش ورمہ کی بات کو یکسر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ اِس میں کہیں نہ کہیں حقیقت ضرور ہے اور یہ حقیقت اِس بات کی جانب بھی نشاندہی کررہی ہے کہ بھارت ماضی میں بھی اپنے ملک میں خود دہشتگردی کرواکر اسکا الزام پاکستان کے سر تھوپتا رہا ہے اور شاید اب یہی کام افغان انٹیلی جنس ’’این ڈی ایس‘‘ نے بھی اپنے وطن میں شروع کردیا ہے۔ دوسری طرف اگر پاکستان کے اندر نظر دوڑائیں تو کراچی سے لے کر بلوچستان تک جو بھی اسلحہ یا علیحدگی پسند دہشتگرد پکڑے جاتے ہیں انکا تعلق کسی نا کسی حوالے سے افغان انٹیلی جنس این ڈی ایس یا پھر افغانستان میں موجود بھارتی سفارت خانوں سے نکلتا ہے۔ بلوچستان کے وزیرداخلہ سرفراز بگٹی کئی بار کھلے عام کہہ چکے ہیں کہ بلوچستان میں جو دہشتگرد باردوی سرنگیں بچھانے اور ٹرینوں پر ہونے والے حملوں میں ملوث ہیں انکو افغانستان میں موجود بھارتی ایجنسیوں کا افغان یونٹ اوراین ڈی ایس مدد اور اسلحہ فراہم کررہے ہیں۔ کراچی  کا حال بھی کچھ مختلف نہیں کہ رینجرز پولیس کئی بار پریس کانفرنسوں کے ذریعے متعدد بار یہ انکشاف کرچکے ہیں کہ بھارت کراچی میں خانہ جنگی کروانے کے لیے مسلسل مدد اور اسلحہ فراہم کررہا ہے ۔

اگر اس سارے منظر نامے پر غور کریں تو تصوریر کچھ یوں بنتی ہے کہ بھارت ایک طرف اپنے افغان سفارت خانوں اورافغان انٹیلی جنس این ڈی ایس کو استعمال کرتے ہوئے پاکستان میں دہشتگردی کو مکمل اسپانسر  کررہا ہے اور دوسری طرف بھارت اور افغانستان میں ہونے والے دہشتگردی کے واقعات کا الزام پاکستان کے سرتھوپ کر دنیا بھر میں پاکستان کو بدنام بھی کرنے کی کوشش کررہا ہے اوراس کام میں اسرائیل بھارت کی مکمل حمایت کررہا ہے ۔

اپنی الیکشن مہم میں امن کے نعرے لگانے والے نریندر مودی جی اسطرح بدل چکے ہیں کہ گویا گجرات میں مسلمانوں کو زندہ جلانے والا نریندر مودی پھر سے زندہ ہوگیا ہو کیونکہ بھارتی میڈیا مسلسل یہ بات کہہ رہا تھا کہ نریندر مودی واضح طور پر بدل چکے ہیں لیکن جس طرح نریندر مودی کے آتے ہی بارڈر پر جھڑپوں کا عمل تیز ہوا، پھر امن مذاکرات معطل ہوئے اور پاکستان پر الزامات لگانے میں مزید تیزی آگئی، اس سے یہی لگتا ہے کہ نریندر مودی کبھی نہیں بدلے تھے اور نریندرمودی کی کابینہ پر نگاہ دوڑائیں تو ساری حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے۔ نریندر مودی کا نیشنل سکیورٹی ایڈوائز’’اجیت کمارڈول‘‘ نہ صرف بھارتی انٹیلی جنس کا سابقہ افسر ہے بلکہ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد یہ شخص ’’ آر ایس ایس‘‘ کے عسکری ونگ کا سربراہ رہ چکا ہے۔  اس پرگجرات قتل عام اور سانحہ سمجھوتہ ایکسپریس میں ملوث ہونے کے الزمات بھی ہیں۔

اس سارے منظر نامے میں پاکستان کو اب یہ تعین کرنا ہوگا کہ پاکستان کی افغان پالیسی کیا ہے؟ کیونکہ پاکستان میں امن کا افغانستان کی صورت حال کا گہرا تعلق ہے۔ پاکستان کو افغانستان میں اپنے پرانے دوستوں کو تلاش کرنا ہوگا ماضی کی تلخیاں بھلا کر انکو منانا ہوگا کیونکہ یہ بات اب روز روشن کی طرح عیاں ہو چکی ہے کہ پاکستان میں دہشتگردی کے لیے پڑوسی ملک بھارت نہ صرف افغان سرزمین کو استعمال کررہا ہے بلکہ الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے کے مترادف پاکستان کو ہی دہشتگردی کا منبع بھی قرار دے رہا ہے۔ ایسے حالات میں حکومت پاکستان کو ایک جارحانہ افغان پالیسی اپنانی ہوگی۔ نئی افغان حکومت پہ زور دینا ہوگا کہ وہ افغان سرزمین کو کسی صورت پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔ بھارت اور افغان انٹیلی جنس کے گٹھ جوڑ اور پاکستان میں دہشتگردی کروانے کے ثبوتوں کو عالمی سطح پر لے کر جانا ہوگا۔ بھارت اگر اسطرح کے اشتعال انگیز بیان دے سکتا ہے کہ وہ پاکستان میں موجود ’’دہشتگردی‘‘ کے اڈوں کو نشانہ بنائے گا تو پاکستانی حکومت کی طرف سے بھی دوٹوک بیان آنا چاہیئے کہ بھارت افغانستان میں موجود اپنے دہشتگردی کے ٹریننگ کیمپ بند کرے ورنہ پاکستان بھی باڈر پار اپنے دشمنوں کا قلع قمع کرنے کی پوری طاقت رکھتا ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔