بقراط نے سقراط کی پیروی کیوں نہیں کی؟

سید نور اظہر جعفری  جمعـء 28 نومبر 2014

سقراط اور بقراط میں وہ کیا چیز تھی جو مختلف تھی۔ یہ ایک سوال ہے۔ ایک استاد کا عمل شاگرد کے لیے رہنمائی کا ذریعہ ہے اور عموماً دنیا میں شاگردوں کو استادوں کی پیروی کرتے دیکھا گیا ہے۔ سقراط علامت سچ کی ہے!

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پھر بقراط کس چیز کی علامت ہے۔ کیا بقراط محض جھوٹ ہے یا بقراط ایک چھپا ہوا سچ ہے۔ یہ ایک مشکل سوال ہے اور اسے اہل دانش کو حل کرنا چاہیے کہ جب سقراط کو سچ کی پاداش میں زہر کا پیالہ نصیب ہوا تو پھر بقراط کو اس کی پیروی کرنی چاہیے تھی یا نہیں۔

یہاں ایک سوال اور پیدا ہوجاتا ہے کہ دونوں میں سے دانش کا اوسط کس کے پاس زیادہ تھا اور بقراط نے سقراط کی پیروی کیوں نہیں کی؟ وہ کیا محرکات تھے جنھوں نے بقراط کو سقراط کی راہ پر چلنے سے روک دیا اور سقراط امر اور بقراط شاید ایک طنز بن کر رہ گیا۔

آج بھی ہم جب کبھی کسی کو Over Smart دیکھتے ہیں تو اسے بقراط قرار دیتے ہیں یعنی ہماری نظر میں حد اعتدال سے بڑھ جانے والا بقراط ہے اور کیونکہ یہ حد اعتدال اس نے دانش کے تحت Cross نہیں کی بلکہ خودسری کے تحت اور خود نمائی کے تحت کی ہے لہٰذا اسے ہم بقراط کہتے ہیں پتا نہیں کیوں؟

سچ بولنا، سچ پر قائم رہنا ایک سقراطی عمل ہے اور فی زمانہ تو اس کا انجام کچھ بہتر کہیں نظر نہیں آتا مگر قطع نظر اس کے ہم بعض جگہوں پر کچھ ایسی حیرت ناک چیزوں کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ جن سے دانش بھی عش عش کر اٹھتی ہے۔

ایک واقعہ اﷲ کے نیک بندے کے حوالے سے جہاں تک مجھے یاد ہے یہ کہ ان کے قریب سے ایک شخص بھاگتا ہوا گزرا آپ نے اس کے گزرنے کے فوراً بعد جگہ تبدیل کی اور چند قدم کے فاصلے پر چلے گئے۔ لوگ دوڑتے ہوئے اس شخص کے پیچھے پہنچے اور اس بزرگ سے پوچھا کہ کیا آپ نے ایک شخص کو یہاں سے جاتے ہوئے دیکھا ہے تو آپ نے جواب دیا کہ جب سے میں یہاں کھڑا ہوں میں نے کسی کو یہاں سے جاتے نہیں دیکھا۔‘‘ اب ایک اولوالعزم شخصیت کا یہ عمل حیرت ناک ہے نا کہ دیکھا ہے مگر کہتے ہیں کہ نہیں دیکھا۔

جب آپ سے اس کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے فرمایا کہ آگے جانے والا شخص بے گناہ تھا اور یہ لوگ اس کی جان کے درپے تھے۔ میں جھوٹ بھی نہیں بول سکتا اور بے گناہ کو بچ نکلنے کا موقع بھی فراہم کرنا تھا۔ لہٰذا میں نے جگہ تبدیل کرلی تاکہ میں جو کہوں وہ جھوٹ بھی نہ ہو اور ایک بے گناہ شخص ان لوگوں کے ہاتھ سے محفوظ بھی رہے۔ اسے کس خانے میں رکھیں گے آپ اپنے پیمانے کے حساب سے حالانکہ بزرگ  کے لیے کسی پیمانے کی نہ ضرورت ہے نہ کوئی پیمانہ ان کی دانش کو ناپ سکتا ہے۔

یہ تو آپ کی دلچسپی کے لیے ایک مثال تھی مگر بات ہے ہماری۔ ہم خاکی بندوں کی جو واقعی خاک ہیں اور اللہ کا جو نور ہم میں ہے اور ضرور ہے اس کے احترام میں ہم وہ نہیں ہیں جو ہونا چاہیے بلکہ کچھ اور ہی ہیں جس کا نام رکھنا بھی خاصا دشوار ہے۔

تو سچ کہنا سقراطی کام اور اس کا سقراطی انجام ہے۔ مگر لوگ ہیں ایسے جو چھوٹے چھوٹے سچ بولتے ہیں۔ جو ’’بڑوں کے بڑے جھوٹ‘‘ سے بہتر ہیں۔

ایک سچ بولنے والے وہ ہیں جو ’’صرف سچ بولتے ہیں‘‘ اور ہمیشہ ’’گھاٹے کا سودا‘‘ کرتے ہیں۔ ایک ’’سچ گھڑنے‘‘ والے ہوتے ہیں۔ یہ بہت کمال کے لوگ ہوتے ہیں ’’سرکار‘‘ بھی خوش، عوام بھی۔ واہ واہ! یہاں ’’پردہ در پردہ‘‘ کا کھیل ہے جہاں تک عوام کی نظریں نہیں پہنچ پاتیں اور وہ ان کے ’’ہیروز لکھاری‘‘ کہلاتے ہیں۔

حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ ہم اکثر کاموں کا الزام انگریز پر رکھ دیتے ہیں کہ وہ برصغیر میں آکر ایسے احکام اور قوانین بنا گیا چھوڑ گیا۔ بات صرف یہ ہے کہ وہ ایک ذہین قوم ہے اور آپ کو بہت اچھی طرح صدیوں سے Read کر رہی ہے۔

آپ کی کمزوریوں سے واقف ہے۔ وہ انعام سامنے رکھتی ہے جو آپ کے ایمان کا عوض ہے اور کس کس نے اس بہتی گنگا سے ہاتھ نہیں دھوئے برصغیر کی تاریخ ہمارے سامنے ہے کوئی ’’ٹیپو سلطان‘‘ ہے کوئی ’’میر جعفر‘‘ اور ایک ہی قوم کے افراد ہیں۔

بات کیا ہے ایک ’’سچ‘‘ ہے ایک ’’جھوٹ ہے۔ تھا تو بہت دلفریب سب کچھ میر جعفر کے لیے پر تاریخ نے کیا لکھا ’’بے ننگ و نام غدار وطن‘‘ اور ٹیپو کو لکھا ’’شہید ٹیپو سلطان‘‘ یہاں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ ہر سلطان بہادر شاہ ظفر نہیں ہوتا کچھ حیدر علی اور ٹیپو سلطان بھی ہوتے ہیں۔

آج ہم کس موڑ پر کھڑے ہیں۔ ہمارا حوالہ ’’مسخ شدہ درباری تاریخ‘‘ سارے حوالے بادشاہوں کے حکم پر لکھے گئے جھوٹے قصے، سارے بادشاہ نیک طینت، عبادت گزار اور اللہ سے ڈرنے والے پاک باز!

اور عوام اللہ کے باغی کیونکہ بادشاہ کے باغی اور حکم قاضیوں نے دے دیا کہ بادشاہ کی اطاعت فرض ہے اور ایمان کی حد تک اسے راسخ کرنے کی کوشش کی یہ سوچے بغیر کہ یہ چند سونے کے سکے کب تک آخر دو گز زمین۔ جس میں جانے سے دنیا کو ڈراتے ہو خود کو بھی تو اس کا حصہ بننا ہے۔

’’سچی گواہی فرض ہے‘‘ ایک بات ’’جان بچانا فرض ہے‘‘ دوسری بات دونوں فرائض میں سے ہمارے ملک میں کس پر عمل کیا جائے۔ نہیں استعمال کرنا چاہتا یہ نام مگر لکھنا پڑے گا ’’گلو بٹوں‘‘ سے بچ سکتے ہیں آپ ’’سچی گواہی‘‘ کے بعد۔ کراچی کے رپورٹر کے سارے گواہ جو قتل کے شاہد تھے جو تحقیق کر رہے تھے وہ بھی ان گواہوں کے ساتھ مار دیے گئے۔ کوئی فیصلہ آیا۔ بچا کوئی گلو بٹوں سے؟شہنشاہ بے نظیر کے بعد قتل ہوگیا کراچی میں۔ جو راولپنڈی کے جلسے کے اسٹیج سے کچھ عجیب اشارے کسے کر رہا تھا؟ مگر ان اشاروں کا انجام تو چند منٹ بعد ہمارے سامنے تھا۔

تو کیا نتیجہ نکلا، سچ بولو، اگر ’’گلو بٹوں‘‘ سے لڑ سکتے ہو، ’’سقراط‘‘ بننا ہے تو گلو بٹوں کا دیا ہوا زہر پینا پڑے گا۔ سچ کے لیے جان دینی پڑے گی۔ ورنہ کیا ضرورت ہے سچ کی پھر بقراط رہنا زیادہ اچھا ہے۔ بات کہہ دو! پر تمہاری بات کا سر پیر نہ ہو۔ کہیں نہ کہیں بات ہو جو بات والوں تک پہنچ جائے اور تم پر کوئی آنچ نہ آئے اور تم پاگل کہلاؤ!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔