عوام سب کے ساتھ ہیں

نجمہ عالم  جمعـء 28 نومبر 2014
najmalam.jafri@gmail.com

[email protected]

ایک دو دن کے اخبارات اگر کوئی بغور پڑھ لے تو بے چارا وہ قاری شدید ڈپریشن کا شکار ہوجائے کیوں کہ کوئی ایک خبر بھی تو مسائل میں گھرے قارئین کے دل کی تسلی کا باعث نہیں ہوتی، لوٹ مار، قتل و غارت گری، پولیس مقابلے، بھتہ خوری، تھر کے علاوہ کراچی و سرگودھا کے اسپتالوں میں بچوں کی اموات، حکومت کی بے حسی، تمام ادارے بد عنوانی کا گڑھ بنے ہوئے، بے عملی، بے روزگاری کے ہاتھوں مجبوروں کی خودکشیاں، بیٹی پیدا کرنے کے جرم میں شوہر کے ہاتھوں موت کا شکار خواتین، شوہر کے ہاتھوں بکنے والی بیوی، محنت کش دو وقت کی روٹی کو محتاج، بے عملی اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے ہوئے ارب پتی، گھر سے تلاش معاش یا حصول علم کے لیے نکلنے والا شوہر یا لاپتہ بیٹے کے انتظار میں بیٹھی بیویاں اور مائیں… غرض ایسی خبریں پڑھ کر قاری ڈپریشن تو کیا مختلف نفسیاتی امراض کا شکار ہورہے ہیں۔

پورے ملک میں صورت حال اس قدر غیر یقینی ہے، خاص کر بڑے شہروں میں، کوئی کہہ نہیں سکتا کہ اگلے لمحے کیا ہونے والا ہے مگر ہمارے سیاست دان بے حد مطمئن ہی نہیں بلکہ بڑے پرجوش اور فعال نظر آرہے ہیں، بلکہ ایک دوسرے کی پگڑی اچھالنے اور نیچا دکھانے میں اس قدر مصروف ہے کہ انھیں اندازہ ہی نہیں کہ کب کس نے ان کے بارے میں کیا ارشاد فرمادیا۔ ادھر ادھر سے توجہ دلانے پر فوراً جواباً پوری غزل حاضر خدمت… یہ صورت حال دیکھ کر ہمیں عوام پر بے حد ترس آیا، لہٰذا ہم نے سوچا کہ اگر قوم یوں ہی ڈپریشن اور مایوسی کا شکار رہی تو پھر نصیب دشمناں، دشمنوں کی تو خوب بن آئے گی۔

آخر ہم انسان ہیں اور انسانوں کا درد خوب سمجھتے ہیں کیوں کہ ہم بھی انسان ہونے کے ساتھ ساتھ اس مملکت پرساں کے معزز شہری ہیں، اس لیے ہمارا دل تڑپ اٹھا  اور ہم نے سوچا کہ کچھ مداوا ہوجائے، ان حسرت و یاس کے ماروں کا، اس لیے ہم آج قارئین یعنی معزز عوام کو ایک زبردست خوش خبری سناکر ان کا ڈپریشن دور کرنے کی پوری کوشش کررہے ہیں مگر یہ خوش خبری ’’سچ مچ‘‘ کی خو ش خبری ہے، کوئی مذاق نہیں کررہے ہم، اور خوش خبری یہ ہے کہ اگلے انتخابات چاہیں 2015 میں ہوں یا 2018 میں مگر اس بار ہمارے ملک میں بیک وقت کم از کم چار وزیراعظم منتخب ہوں گے، بلکہ یہ بھی ممکن ہے کہ ہر صوبے کا وزیراعظم (وزیراعلیٰ نہیں) الگ الگ ہو۔ گمان غالب تو یہ بھی ہے کہ ایک صوبے میں دو یا تین وزیراعظم بھی ہوسکتے ہیں۔ کیسی خوش خبری ہم نے آپ کو سنائی۔ مگر آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہم شاید اتنے ڈپریشن میں ہیں کہ دماغی توازن ہی کھو بیٹھے ہیں۔

بھلا یہ کیسے ممکن ہے؟ تو صاحبو! اول تو ہمارے ملک میں کوئی چیز ناممکن نہیں کیوں کہ بہادر اور باعمل افراد (قوم) کی لغت میں لفظ ناممکن ہوتا ہی نہیں۔ مگر آپ کی تسلی کے لیے ہم ایک ماہر قانون دان کی طرح بھرپور دلائل پیش کرسکتے ہیں۔ اگر آپ باقاعدگی سے اخبارات پڑھتے ہیں، ملکی صورت حال پر کڑی نظر رکھتے ہیں تو آپ کو ہماری بات پر ذرا بھی تعجب نہیں ہونا چاہیے۔ گزشتہ چند ماہ بلکہ چند ہفتوں کے دوران کئی پارٹیاں یہ دعویٰ کرچکی ہیں کہ اگلے انتخابات میں وہ پاکستان بھر میں نہ صرف زبردست کامیابی حاصل کریںگی بلکہ ہمارا لیڈر اگلا وزیراعظم ہوگا۔

اب ان میں سے کچھ شاید  (خدا نخواستہ) اپنے دعوے میں پورا نہ اتریں یہ الگ بات ہے، بہرحال اگلے کئی وزرائے اعظم میں ایک تو سرفہرست ہمارے کپتان صاحب، ایک بلاول زرداری اور ایک بقول مسلم لیگ (ن) کے بیشتر وزرا کہ اگلا انتخاب بھی وہ زبردست مینڈیٹ کے ساتھ جیتیں گے، یعنی اگلی باری بھی ان ہی کی ہے، گویا وزیراعظم بھی ان کا ہوگا۔ اس کے علاوہ آپ خود دیکھ، پڑھ اور سن رہے ہوںگے کہ تمام سیاسی پارٹیاں کس قدر فعال ہیں، ہر کوئی اپنی طاقت اور مقبولیت کا مظاہرہ کرنے کی دھن میں لگی ہوئی ہے اور کسی کا بھی جلسہ لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں افراد سے کم پر مشتمل نہیں ہوتا۔ یعنی ہر پارٹی کو عوام کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ پی پی پی جو 2013 کے انتخابات میں دہشت گردوں کی کھلی دھمکیوں کے باعث ایک بھی جلسہ نہ کرسکی۔

اس نے بھی اپنے چیئرمین کی عوام میں رونمائی کے لیے کسی خطرے کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے کراچی میں ’’عظیم الشان‘‘ جلسہ کر ڈالا، کامیاب جلسوں اور دھرنوں کے ہیر و کپتان صاحب کا تو ذکر ہی کیا۔ ملک کا کون سا شہر بچا ہے کہ انھوں نے اگلے پچھلے تمام ریکارڈ جلسوں کے نہیں توڑ ڈالے؟ پھر علامہ طاہرالقادری نے جو جلسے  کیے وہ بھی بے حد کامیاب اور پرہجوم رہے، جماعت اسلامی نے تو تین روزہ میلہ جلسہ منعقد کر ڈالا، تو کیا وہ کامیاب نہیں رہا؟ عوام نے اس میں بھی کثیر تعداد میں شرکت کی اور بھرپور جوش و خروش کا مظاہرہ کیا بلکہ سابق امیر جماعت اسلامی منور حسن صاحب نے تو وہ رنگ جمایا اور خون گرمایا کہ مخالفین تلملاتے پھررہے ہیں۔

رہ گئی چند گھنٹوں کے مختصر نوٹس پر کامیاب ’’پرہجوم اور عظیم الشان‘‘ جلسے کرنے کی تجربہ کار اور ریکارڈ رکھنے والی ایم کیو ایم  جس نے حسب عادت روایت شکنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جلسے کے بجائے ممبر سازی مہم کا آغاز کرکے ملک کے طول و عرض میں اپنی خاموش اور پرامن انتخابی مہم کا مظاہرہ کیا اور ملک بھر میں بے شمار افراد نے ان کی بھی رکنیت کے فارم پورے جوش و خروش سے بھر کر ان پر اعتماد کا اظہار کیا، بقول ارکان متحدہ، خواتین و حضرات کے علاوہ لڑکیوں اور بزرگوں نے ان کی رکنیت حاصل کرکے ثابت کردیا ہے کہ عوام واقعی تبدیلی چاہتے ہیں اور اس بار وہ مظلوموں، لاچاروں اور غربت کے ماروں کے اصل ہمدردوں کو اپنے ووٹ کا حقدار قرار دیں گے۔

یہ ساری تیاریاں اور حالات اس بات کے غماز ہیں کہ شاید اگلے انتخابات میں یہ سب پارٹیاں نہ صرف زبردست کامیابی حاصل کریں گی بلکہ بھاری عوامی مینڈیٹ کے باعث یہ سب کی سب وزارت عظمیٰ کے حقدار بھی ہوں گے۔ ارے ہاں یہ تو ہم بھول ہی گئے کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی تو فرمایا کہ ’’قوم کو میری ضرورت ہے‘‘۔ لیجیے اب بات کہاں تک پہنچنے والی منزل آگئی ہے۔ اب بات سمجھ میں آئی آپ کی، ہمارے دلائل کی داد تو آپ ضرور دیں گے۔

اگر آپ اب بھی مطمئن نہیں ہوئے تو چلیے ایک اعلیٰ دلیل اور پیش کیے دیتے ہیں کہ مہنگائی، بے روزگاری، علاج کی سہولت سے محروم، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے ستائے عوام اتنے مسائل میں گھرے ہونے کے باعث صرف دو وقت کی روٹی کی فکر کے علاوہ کچھ اور سوچنے کے قابل ہی نہیں رہتے اور حصول رزق کے لیے جو مشقت وہ جھیل رہے ہیں، اس نے انھیں اس لائق ہی نہیں چھوڑا کہ وہ مزید کچھ یاد رکھ سکیں، اب روزانہ کی بنیاد پر جلسے اور تقاریر کرنے والے لیڈر اگر ایک جلسے میں کچھ فرماتے ہیں اور دوسرے میں اس کی تردید یا اس کے متضاد کوئی بیان دیتے ہیں تو عوام کا حافظہ اتنا نہیں کہ وہ یاد رکھیں کہ کل کیا کہا تھا اور آج کیا فرما رہے ہیں۔ تو بھلا وہ اتنے دن پہلے کی بات کہ انتخابات سے قبل کس پارٹی نے کیا منشور پیش کیا تھا، ووٹر سے کیا کیا وعدے کیے تھے اور اب اپنے منشور کے خلاف موقع شناسی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہوئے کیا خطاب فرما رہے ہیں اور کیے گئے تمام وعدے وہ کیسے آسانی سے بھول گئے، کیونکر یاد رکھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بھی کہ پورے جلسے میں کتنے لوگ ہوتے ہیں جنھوں نے تمام پارٹیوں کا منشور پڑھا ہو یا ملکی آئین کی تمام شقوں سے واقف ہوں، تو وہ کس صورت جان سکتے ہیں کہ کس نے آئین کی کتنی شقوں کی خلاف ورزی کی ہے؟ لیڈران کیونکہ اس صورتحال سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کہ عوام کی یادداشت خاصی کمزور ہوتی ہے۔

لہٰذا جو جی چاہے بیان دے دو، کون ہماری زبان پکڑ سکتا ہے؟ عوام کا درد رکھنے والے عوام کو سبز باغ تو خوب دکھاتے ہیں مگر عوام کے مسائل کی ’’جڑ‘‘ جاگیرداروں اور وڈیروں کے بارے میں ایک لفظ بھی ادا نہیں کرتے، کریں بھی کیسے کہ ان کے اردگرد جاگیردار جمع ہیں، جو ان سے اپنے مطلب و مفاد کے بیانات دلواتے رہتے ہیں۔ البتہ حسب سابق عوام سے طرح طرح کے وعدے خوب کیے جارہے ہیں جو ووٹ لینے تک ہیں پھر کون پوچھتا ہے کہ عوام کہتے کسے ہیں؟ تو صاحبو! یہ صورت حال ظاہر کر رہی ہے کہ اگلے انتخابات میں آپ ضرور خوش ہوجائیں گے، چار وزیراعظم تو ضرور پاکستان کو جنت کا نمونہ بنا دیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔