طالبان نے پاکستان میں نفاذ اسلام کے لئے غیراسلامی طریقہ اختیار کیا

رانا نسیم  اتوار 7 دسمبر 2014
میں سمجھتا ہوں کہ شروع سے تحریک انصاف کا ایک ایجنڈا تھا اور وہ یہ تھا کہ ہر قیمت پر حکومت کو گرا کر خود آنے کی کوشش کرنا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

میں سمجھتا ہوں کہ شروع سے تحریک انصاف کا ایک ایجنڈا تھا اور وہ یہ تھا کہ ہر قیمت پر حکومت کو گرا کر خود آنے کی کوشش کرنا ہے۔ فوٹو: ایکسپریس

مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر اور سینیٹر علامہ پروفیسر ساجد میر 2 اکتوبر 1938ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔

چار بھائی اور چار ہی بہنوں میں سب سے چھوٹے ساجد میر کو والدہ کی ممتا زیادہ عرصہ نصیب نہ رہی، کیوں کہ اِن کی پیدائش کے 2 ماہ بعد ہی وہ جہان فانی سے رخصت ہوگئیں۔ والد عبدالقیوم میر، علی گڑھ سے ایم اے عربی تھے، عملی زندگی میں انھوں نے کچھ عرصہ ایمرشن کالج ملتان میں تدریس کے فرائض سر انجام دئیے، پھر ہیڈ ماسٹر سے انسپکٹرز آف اسکولز کے مناصب تک پہنچے، انھوں نے باقاعدہ تنظیمی یا تبلیغی لائن تو اختیار نہ کی مگر عملی زندگی میں فرائض کے سختی سے پابندی کی، وہ تلاوت قرآن کے رسیا، دین دار اور متشرع بزرگ تھے۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث کے سربراہ کا خاندان 6 پشتوں قبل کشمیر سے سیالکوٹ آباد ہوا۔

پروفیسر ساجد میر نے ابتدائی تعلیم پسرور سے حاصل کی، کیوں کہ ان کے والد یہاں بسلسلہ ملازمت فروکش تھے۔ والد کی ریٹائرمنٹ کے بعد علامہ کا تعلیمی سفر پھر سیالکوٹ سے شروع ہوا۔ انھوں نے میٹرک گورنمنٹ ہائی اسکول سیالکوٹ، ایف اے اور بی اے گورنمنٹ مرے کالج جبکہ ایم اے انگلش گورنمنٹ کالج لاہور سے کیا۔ پروفیسر ساجد میر نے تعلیم سے فراغت پر جناح اسلامیہ کالج سیالکوٹ، پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ سیالکوٹ اور پھر لاہور میں تدریس کے فرائض سر انجام دیئے۔

علامہ نے دوران درس و تدریس قرآن مجید بھی حفظ کیا۔کالج سے فراغت کے بعد انھوں نے بلوغ المرام مولانا عبد الرحمان جھنگوی سے پڑھی، مولانا محمد بشیر ؒ سے عربی ادب،صرف،منطق ،بلاغہ ، نحو، صرف میر اور شرح جامی جبکہ مولانا محمد علی کاندھلوی ؒ سے اصول فقہ پڑھی۔ علامہ نے 1968ء میں لاہور پولی ٹیکنیک انسٹی ٹیوٹ میں تبادلے کے بعد جامعہ تقویۃ الاسلام شیش محل روڈ لاہور میں شیخ الحدیث مولانا حافظ محمد اسحاق سے بخاری شریف بھی پڑھی۔ اسی دوران ایم اے اسلامیات بھی کیا اور ’’اقتصادیات، معاشیات اور ادب‘‘ کے مضامین پر مشتمل ایڈیشنل بی اے بھی کیا۔

پروفیسر ساجد میر نے1975ء سے1984ء تک نائیجیریا میں تدریسی فرائض سر انجام دئیے۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں دو بیٹے اور ایک بیٹی کی نعمت سے نواز رکھا ہے۔ 10 جون 1973ء کو انھیں جماعت کا ناظم اعلیٰ بنایا گیا، پھر علامہ احسان الہی ظہیرؒ کی شہادت (1987ء) کے بعد سے اب تک وہ مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان کے امیر کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔

ملکی سطح پر اہل حدیث مکتبہ فکر کی سیاسی نمائندہ جماعت کے سربراہ کی حیثیت سے انھوں نے مسلم لیگ ن کے ساتھ الحاق کر رکھا ہے، جس کا دورانیہ تقریباً 20 سال پر محیط ہے۔ میاں نواز شریف کے ان پر اعتماد کا یہ عالم ہے کہ ن لیگ کی طرف سے انھیں 4 بار سینیٹ کا ممبر منتخب کرایا جا چکا ہے۔ علامہ پروفیسر ساجد میر کو ملک کے سیاسی، مذہبی اور معاشرتی منطر نامے میں خاص اہمیت حاصل ہے۔ اسی پس منظر میں ’’ایکسپریس‘‘ نے ان سے ایک خصوصی نشست کا اہتمام کیا، جس کا احوال نذر قارئین ہے۔

ایکسپریس: آج وطن عزیز کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے اور اسے کیسے حل کیا جا سکتا ہے؟

پروفیسر ساجد میر: مسائل تو بہت ہیں، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ سب سے بڑا مسئلہ بدامنی اور دہشتگری ہے، کیوں کہ اس ایک مسئلہ کی وجہ سے کئی اور مسائل جنم لے رہے ہیں۔ لوڈشیڈنگ اور مہنگائی بھی بڑے مسائل ہیں، پھر ملکی وقار کا بھی مسئلہ ہے۔ گزشتہ کچھ حکومتوں اور خصوصاً پرویز مشرف کے دور میں ملکی خودمختاری کو ایک سوالیہ نشان بنا دیا گیا۔ یوں تو ہر دور میں امریکا کی ڈکٹیشن پر ملکی معاملات کو چلایا گیا، لیکن مشرف دور میں اس کو عروج ملا۔ بدامنی کے حوالے سے بتاؤں کہ یہ صرف ہمارا مسئلہ نہیں بلکہ اس کا پورے خطے یا ریجن سے تعلق ہے۔ ہم ایک خلا میں کھڑے ہو کر اسے حل نہیں کر سکتے، جب تک کہ ریجن یعنی افغانستان، ایران اور بھارت کے ساتھ معاملات درست نہیں ہوتے۔ ان ملکوں کے ساتھ جو اختلافات ہیں، ان کی وجہ سے دوریاں پیدا ہوئیں اور مسائل مزید گھمبیر ہوگئے۔ اگر آپ سوچتے ہیں کہ افغانستان اور ایران کے ساتھ حالات جوں کے توں رہے ہیں اور ان کی طرف سے بالواسطہ، بلاواسطہ دہشتگردی یا بدامنی کے مسئلہ کی حوصلہ افزائی ہوتی رہے اور آپ اس مسئلہ کو حل کر لیں گے، تو یہ مشکل ہے۔

ایکسپریس: پی ٹی آئی کے دھرنے کے پیچھے کون سے عوامل کار فرما ہیں؟

پروفیسر ساجد میر: یہ (تحریک انصاف) بات کرتے ہیں چار حلقوں کی، کہ اگر یہ کھول دیئے جاتے تو بات آگے نہ بڑھتی، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ شروع سے ان کا ایک ایجنڈا تھا اور وہ یہ تھا کہ ہر قیمت پر حکومت کو گرا کر خود آنے کی کوشش کرنا ہے۔ اس کے لئے پہلے چار، دس، تیس اور پھر اب پورے الیکشن کو ہدف تنقید بنایا گیا۔ اسٹیبلیشمنٹ خصوصاً فوجی اسٹیبلیشمنٹ کی بات کریں تو وہ ساری مجھے اس کے پیچھے نظر نہیں آتی، لیکن اس کے بعض عناصر کی طرف سے دھرنوں کی حوصلہ افزائی نظر آتی ہے۔

ایکسپریس: ن لیگ اور میاں نواز شریف سے آپ کی بہت زیادہ قربت کی وجہ کیا ہے؟ کیوں کہ میاں نواز شریف کی حمایت میں آپ کے بیانات لیگی رہنماؤں سے بھی بعض اوقات بڑھ جاتے ہیں؟ جیسے آپ نے استعفیٰ کے معاملہ میں کہا کہ ’’میاں نواز شریف سے جرنیل استعفیٰ نہ لے سکے تو یہ کپتان کیا لے گا؟ مزید برآں گزشتہ عام انتخابات میں جب آپ نے اپنے ووٹرز کو ن لیگ کو ووٹ دینے کی اپیل کی تو آپ کی اپنی جماعت کے رہنماؤں نے اس فیصلے کی مخالفت کی بلکہ جماعت کے سینئر نائب صدر علامہ زبیر احمد ظہیر نے تو کھل کر اس فیصلے پر تنقید کی۔

پروفیسر ساجد میر: دیکھیں! کسی سیاسی جماعت سے قرب کا فیصلہ میں نہیں کرتا، ہماری مرکزی مجلس شوری کرتی ہے، جس کے پورے ملک سے 5 سو ارکان ہیں۔ پھر پالیسیوں پر نظر ثانی بھی کی جاتی رہتی ہے، اگر وہ مناسب سمجھیں تو اسے تبدیل کر سکتے ہیں۔ شوری کے گزشتہ اجلاس میں ایک بار پھر یہی فیصلہ ہوا تھا کہ ہم ن لیگ کے ساتھ چلیں گے۔ باقی یہ بات کہ شوری کیوں کرتی ہے تو ہماری جماعت میں دو چیزوں کو مدنظر رکھا جاتا ہے، اسے آپ ہماری سیاست کی دو بنیادیں قرار دے سکتے ہیں، ایک ہے ہمارا دین اسلام اور دوسرا ہمارا ملک پاکستان، تو یوں شوری کو جو جماعت ان دو چیزوں کے قریب نظر آتی ہے، پھر وہ ان کے ساتھ چلتے ہیں۔ باقی جو آپ نے علامہ زبیر احمد ظہیر کے حوالے سے اختلاف کی بات کی ہے، تو ان کی جواب طلبی کی گئی اور انھوں نے مجلس عاملہ میں پوری جماعت سے معذرت کی اور معافی مانگی۔

ایکسپریس: اگر ہم مذہبی و سیاسی جماعتوں کی بات کریں تو جماعت اسلامی یا جماعۃ الدعوۃ وغیرہ کی ملک میں اپنی ایک ٹھوس شناخت موجود ہے، ان کے سالانہ بڑے بڑے جلسے ہوتے ہیں، لیکن مرکزی جمعیت اہلحدیث پاکستان کے بارے میں ایسی کوئی چیز دیکھنے کو نہیں ملتی، یہ ہمیشہ کسی کے ساتھ الحاق کے ذریعے ہی کیوں چلتی ہے؟

پروفیسر ساجد میر: جن جماعتوں یعنی جماعت اسلامی اور جماعۃ الدعوۃ کی آپ نے بات کی تو ان کا کیا الگ تشخص ہے، وہ بھی الحاق کرتے اور الائنسز کرتے ہیں۔ گزشتہ الیکشن میں وہ ن لیگ کے پیچھے پیچھے تھے، لیکن ان کے مطالبات اور توقعات اس طرح کی ہوتی ہیں، جو پوری نہیں ہو سکتیں، جس کی وجہ سے وہ پیچھے رہ جاتے ہیں۔ ہم بھی مطالبات کرتے ہیں، لیکن وہ نہایت مناسب ہوتے اور یہ سب کچھ اصولوں کی بنیاد پر ہوتا ہے۔

ایکسپریس: حکومت اور فوج کے تعلقات میں کشیدگی کی خبروں میں کتنی صداقت ہے اور اگر کشیدگی ہے تو اس کی وجوہات کیا ہیں؟

پروفیسر ساجد میر: اس سے قبل میں کہہ چکا ہوں کہ فوجی اسٹیبلیشمنٹ کے ایک حصے، عنصر کے ساتھ کچھ دوری تھی، لیکن کچھ لوگوں کے ریٹائر اور نئے آنے کے بعد اب وہ صورتحال نہیں ہے۔

ایکسپریس: مشرف کیس کا اونٹ کس کروٹ بیٹھنے جا رہا ہے؟

پروفیسر ساجد میر: فیصلہ عدالت نے کرنا ہے، لیکن میں سمجھتا ہوں کہ مشکلات کے باوجود ایک مثال ضرور بننی چاہیے، یہ نہیں کہتا کہ انھیں پھانسی دی جائے لیکن ایسی سزا ضرور ہونی چاہیے، جس سے آئندہ ایسی قبضہ گیری اور آئین توڑنے والے لوگوں کی حوصلہ شکنی ہو۔

ایکسپریس: پاکستان میں مختلف مکاتب فکر طالبان کے بارے میں مختلف موقف رکھتے ہیں، کچھ ان کے مخالف اور باقی حمایتی تصور کئے جاتے ہیں۔ آپ طالبان کو کس پیرائے میں دیکھتے ہیں؟

پروفیسر ساجد میر: طالبان نے پاکستان اسلام کے نفاذ کا جو طریقہ اختیار کیا ہے، وہ انتہائی غیر اسلامی ہے۔ اس لئے کہ اسلام میں اپنی بات منوانے کے لئے قتل و گری کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔

ایکسپریس: فاٹا اور قبائلی علاقوں میں ہونے والے امریکی ڈرون حملوں کے بارے میں آپ اور آپ کی جماعت کیا موقف رکھتی ہے؟ کیا ایسا پاکستان کی اجازت کے بغیر ممکن ہے؟ اگر نہیں تو پھر کس کی اجازت سے یہ حملے ہو رہے ہیں؟ اگست 2012ء میں آپ نے اس کا ذمے دار حکومت کو ٹھہرایا جبکہ گزشتہ ماہ ویلنسیا میں ایک عشائیہ سے خطاب کے دوران آپ نے ڈرون حملوں کو فوجی قیادت کی مرضی قرار دیا۔

پروفیسر ساجد میر: اصل میں تو فوجی قیادت کی اجازت سے یہ حملے شروع ہوئے، کیوں کہ اُس وقت فوجی قیادت اور حکومت ایک ہی تھی، یعنی مشرف۔ ابھی مشرف نے خود بھی کہا کہ انھوں نے ایک حملے کی اجازت دی تھی۔ اچھا اب اسے مزید آگے جو بڑھایا جا رہا ہے، اس میں فوج کی اپنی مرضی شامل ہے، لیکن اس کے ساتھ میں یہ بھی کہوں گا کہ حکومت کی طرف سے جو مخالفت ہونی چاہیے، وہ مجھے نظر نہیں آ رہی۔

ایکسپریس: بلاشبہ ریاست اور شہریوں کی سوچ و جذبات میں فرق تو ہوتا ہے، لیکن خارجہ پالیسی میں قومی غیرت کا کہاں تک عمل دخل ہوتا ہے؟

پروفیسر ساجد میر: قومی غیرت تو ہر معاملہ میں ہونی چاہیے، لیکن خارجہ پالیسی میں اپنے ملک کے مفاد کو سامنے رکھا جاتا ہے، جیسے ہر ملک کرتا ہے، تو یہ قومی غیرت کے عین مطابق ہے۔

ایکسپریس: بھارت اور امریکا کے کردار کے بارے میں آپ کیا رائے رکھتے ہیں؟ پاک بھارت تنازعات کے حل میں کون رکاوٹ ہے؟ (گزشتہ ماہ آپ نے ویلنسیا کی مذکورہ بالا تقریب میں حالات بہتر نہ ہونے کا ذمے دار پاک بھارت فوجی قیادت کو قرار دیا)

پروفیسر ساجد میر: یہ صرف کہنے کی بات نہیں بلکہ شواہد سے ثابت ہے کہ بھارت نے کبھی بھی پاکستان کو دل سے قبول نہیں کیا۔ شروع سے وہ ہمارے مخالف ہیں، کہ اگر اب پاکستان بن بھی گیا ہے تو چل نہ سکے اور ہماری کوتاہیوں کی وجہ سے مشرقی پاکستان میں انھیں یہ کامیابی بھی ملی۔ تو قصور سارا بھارت کا ہے، کہ وہ مسئلہ کشمیر حل نہیں کرنا چاہتا۔ ہم یہ کہتے ہیں کہ یہ مسئلہ ہونا چاہیے، ہماری خواہشات کے مطابق نہیں بلکہ ان کی خواہشات کے مطابق جن کا یہ مسئلہ ہے، یعنی کشمیریوں کی خواہشات کے مطابق اور اگر یوں ہو جائے تو بات ختم ہو جائے گی۔ اسی طرح بھارت کے ساتھ دوسرا مسئلہ پانی کا ہے، جس میں وہ ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کر رہا ہے، پھر حال ہی میں مذاکرات بھی انھوں نے ہی ختم کئے، یوں صرف بحیثیت پاکستانی ہی نہیں بلکہ غیرجانبداری سے بھی آپ دیکھیں تو آپ کو ساری گڑ بڑ ان کی طرف سے ہوتی نظر آئے گی۔ جہاں تک بات ہے، حل کی تو وہ ہیں مذاکرات۔ بھارت مذاکرات کی میز پر آئے، جہاں بیٹھ کر معاملات کو سلجھایا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس: کہا جاتا ہے، سوویت یونین سے لڑائی میں پہلے پاکستان نے یہاں بندے تیار کئے اور افغانستان میں بھیجے، آج یہی سب کچھ ہمارے ساتھ ہو رہا ہے، یعنی بندے افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان میں تخریب کاریاں کر رہے ہیں۔ کیا یہ تاثر درست ہے کہ اس بدامنی کے قصوروار ہم خود ہیں؟

پروفیسر ساجد میر: میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہے، کیوں کہ ہر دور اور حالات کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں۔ میں اس سے اتفاق نہیں کرتا کہ جہاد افغانستان، امریکا کی لڑائی تھی اور ہم اس کے آلہ کار بنے، جس وجہ سے یہ سب خرابیاں پیدا ہوئیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ پاکستان کا کردار وقت کا متقاضی تھا، کیوں کہ یہ بات بھی طے شدہ تھی کہ افغانستان کے بعد روس نے ہماری طرف بڑھنا تھا، روس کا یہ بہت پرانا خواب تھا، تو انھیں روکنے میں، صرف امریکا نہیں، ہمارا اپنا مفاد بھی تھا۔ اور اتفاق سے یہ مفادات اکٹھے ہوگئے، جس میں ضیاء الحق کی کوئی غلطی نہیں تھی۔

ایکسپریس: ملکی حالات کی خرابی یا کسی بھی سازش میں بیرونی ہاتھ کے ملوث ہونے پر پہلی نظر امریکا پر اٹھائی جاتی ہے، لیکن اگر کوئی ہمارا دوست یا اسلامی ملک ایسا کرے تو اس کی مذمت کیوں نہیں کی جاتی؟ مثال کے طور پر گواردر پورٹ کی راہ میں روڑے اٹکانے میں ہمارے کچھ دوست اسلامی ممالک کا نام آتا ہے اور چین میں مسلمانوں کے قتل پر زیرو ٹالرنس کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

پروفیسر ساجد میر: میرے خیال میں حق کی بات تو ہر جگہ اور موقع پر کرنی چاہیے، لیکن پہلے ہم کہہ چکے ہیں کہ خارجہ تعلقات میں ملکی مفادات کو ترجیح دی جاتی ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ یہ ترجیح اصولوں سے بھی زیادہ ہوتی ہے، یہ الگ بحث ہے کہ دی جانی چاہیے یا نہیں، لیکن عملاً دی جاتی ہے۔ یہاں بھی یہی معاملہ ہے کہ اپنے مفادات اور چین سے اپنی دوستی کو بچانے کے لئے ان کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جاتی۔ باقی گواردر پورٹ کے معاملہ میں سعودی عرب کا کوئی مفاد مجھے نظر نہیں آتا، البتہ دبئی کا ہے، لیکن وہ پاکستان پر کیوں دباؤ ڈالیں گے؟ کیوں کہ ہر ملک کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ترقی کرے، اپنی بندرگاہوں کو مضبوط اور مفید بنائے۔

ایکسپریس:فرقہ واریت کے حوالے سے پاکستان کو آج شدید نوعیت کے چیلنجز درپیش ہیں، جس وجہ سے دنیا میں بھی ہمارا منفی تاثر ابھر رہا ہے۔ آپ کے خیال میں اس تاثر کی درستگی کے لئے ہمیں حکومتی اور عوامی سطح پر کیا کرنے کی ضرورت ہے؟

پروفیسر ساجد میر:حکومت کو انتظامی انتظامات کرنے چاہیے، جو ابھی تک نہیں ہوئے، دوسرا فرقہ واریت میں جو لوگ ملوث ہیں یا رہے ہیں، ان میں بہت کم ایسے ہیں، جن کو سزا ملی ہے، باقی گواہ نہ ملنے یا عدالتی نظام میں نقائص کے باعث چھوٹ گئے اور اس میں بہتری حکومت کی ذمے داری ہے۔ باقی جو عوامی سطح کی بات کی تو اس میں علماء کو سب سے اہم کردار ادا کرنا ہے، انھیں اختلافات کے بجائے مشترکہ نکات پر زور دے کر انھیں فروغ دینا چاہیے۔ بہتر ہو اگر اپنے اپنے منبر یا مسجد میں بات کرنے کے بجائے مشترکہ اسٹیج پر باتیں کی جائیں، جیسے کہ پہلے دور میں ملی یکجہتی بنی۔ ملی یکجہتی جب بنی تو اس کی سربراہی میرے پاس تھی، لہذا ہم تو چاہتے ہیں فرقہ واریت کے مسائل کو حل کرنے کے لئے علماء ضابطہ اخلاق بنائیں اور حکومت اس کے نفاذ کو یقینی بنائے۔

ایکسپریس: مذہبی بنیادوں پر مختلف فرقوں میں بٹے پاکستان میں یہ افواہیں گردش کرتی رہتی ہیں کہ سنی فرقہ سے تعلق رکھنے والی جماعتوں کو سعودی عرب فنڈنگ کرتا ہے جبکہ دوسرے فریق پر ایران سے فنڈز لینے کا الزام لگایا جاتا ہے۔ یعنی تاثر یہ ہے کہ یہ دونوں گروپ سعودیہ یا ایران کے اشاروں پر چلتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے؟

پروفیسر ساجد میر: جب بلیم گیم شروع ہوتی ہے تو پھر اس طرح کے الزامات تو لگتے ہیں۔ پاکستان میں جو ایک ماحول پیدا ہوا اور وہ اختلافات جو منبر و محراب تک محدود رہنے چاہیں تھے، انھیں گلی کوچوں میں لایا گیا اور عوامی سطح پر ایک دوسرے کوکافر قرار دیا گیا، تو اس سے ایک عداوت یا مخالفت شروع ہوئی اور پھر اسی وجہ سے یہ بلیم گیم شروع ہوئی، جو قتل و غارت تک پہنچ چکی ہے۔ جو حقیقت کی آپ نے بات کی تو بعض مخیر حضرات مدارس کی مدد کرتے تھے اور وہ ہر مسلک کے مدارس کے لئے تھی۔ لیکن نائن الیون کے بعد ان مخیر حضرات نے بھی اپنی اپنی حکومتوں کی پابندیوں اور ڈر کی وجہ سے مدد کرنا بند کر دی۔

ایکسپریس: مرکزی جمعیت اہلحدیث کی تقسیم کی وجوہات کیا تھیں؟ اطلاعات یہ ہیں کہ علامہ ابتسام الٰہی ظہیر سربراہ بننا چاہتے تھے، جس کے آپ مخالف تھے؟

پروفیسر ساجد میر: سربراہ تو وہ شائد نہیں بننا چاہتے تھے، لیکن انھیں کوئی نہ کوئی اہم عہدہ لینے کی جلدی تھی۔ زیادہ وہ نظامت کی بات کرتے تھے، لیکن میں نے ان سے کہا کہ اس کے لئے ہمارا ایک وضع کردہ طریقہ موجود ہے کہ شوری جس کو منتخب کرے۔ البتہ جو عہدے نامزد کئے جاتے، ان پر میں آپ کو نامزد کر سکتا ہوں۔ ہمارے ہاں امیر، ناظم اعلیٰ اور جنرل سیکریٹری عہدے وہ ہیں، جن پر انتخاب ہوتا ہے، باقی عہدوں پر مشورے سے نامزدگیاں ہوتی ہیں۔ تو میں نے انھیں نائب امیر تک کے عہدے کی پیشکش کی، لیکن انھوں نے کہا کہ اگر نائب امیر بنانا ہے تو پھر سینئر نائب امیر بنائیں، تو میں نے انھیں کہا کہ پہلے آپ جماعت کے ساتھ چلیں، آپ سے پہلے جو بزرگ بیٹھے ہیں، انھیں ہم ہٹا کر آپ کو نہیں لا سکتے۔ انکار پر انھوں نے ایک الگ ڈھانچہ کھڑا کر لیا، جو میں سمجھتا ہوں کہ ان کے گھریا چند دوستوں تک محدود ہے۔

ایکسپریس: اسلام میں جمہوری طرز حکومت کی کیا حیثیت ہے؟

پروفیسر ساجد میر: اسلام میں شوری یعنی مشورے کو اہمیت دی جاتی ہے اور یہی چیز جمہوریت کی بنیاد ہے۔ قرآن نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ مسلمانوں کے معاملات مشورے سے چلتے ہیں، ملکی معاملات کے لئے ہر ایک سے پوچھا جائے، چاہے وہ نیک ہو یا بد۔ چناں چہ تاریخ اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ حضرت عثمانؓ کو خلافت کے لئے جب منتخب کیا گیا تو سارے ملک میں اس طرح کا ریفرنڈم نہیں ہو سکتا تھا، لیکن جہاں تک ممکن ہو سکا، کمیٹی نے خلافت کے لئے لوگوں سے رائے لی، حتی کہ مدینے میں آنے اور جانے والوں کی رائے لی گئی، چھوٹے، بڑے، عورتوں اور بچوں کی بھی رائے لی گئی۔ تو یوں ثابت ہوا کہ لوگوں کی رائے لی جانے چاہیے، دوسرا جس طرح آج لوگ الیکشن کے ذریعے منتخب کئے جاتے ہیں، اس زمانے میں قبیلوں کے سربراہ ہوتے تھے، جن کی ہر معاملہ میں رائے لی جاتی تھی۔ جنگ احد میں نبی کریمؐ خود یہ چاہتے تھے کہ جنگ بدر کے برعکس مدینے میں رہ کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے، کیوں کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے، لیکن مشورے میں اکثریت نے باہر نکل کر مقابلہ کرنے کی رائے دی تو آپ نے اپنی رائے چھوڑ کر اسے تسلیم کیا۔ تو یوں جمہوریت اسلام سے مکمل طور پر ہم آہنگی رکھتی ہے۔

ایکسپریس: آپ ایک جمہوریت پسند شخصیت ہیں، لیکن آپ کی جماعت میں جمہوریت نظر نہیں آتی۔ گزشتہ تقریباً 22 سال سے آپ ہی جماعت کے سربراہ چلے آ رہے ہیں۔

پروفیسر ساجد میر: یہ تو جمہوریت نہ ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔ جماعت میں ہر پانچ سال کے بعد انتخاب ہوتا ہے، جس میں لوگ کسی کو بھی ووٹ دے کر دوبارہ اپنا امیر منتخب کر سکتے ہیں۔ ہاں یہ بات ہے کہ ہمارے ہاں ایسی کوئی پابندی نہیں کہ امیر دو بار یا تین بار ہی منتخب ہو سکتا ہے۔ ہر انتخاب میں لوگ مقابل آتے ہیں، لیکن وہ بہت کم ووٹ حاصل کر پاتے ہیں، تو اس میں میرا کیا قصور ہے؟ میں گزشتہ دو انتخابات سے معذرت کر رہا ہوں کہ میں اب یہ ذمے داریاں نہیں لے سکتا، لیکن میری بات نہیں مانی جا رہی۔

پسند نا پسند…!

کھیل، ادب، تفریح سمیت دیگر مختلف شعبوں میں پسند ناپسند کے بارے میں بتاتے ہوئے پروفیسر ساجد میر نے کہا کہ سب کھیل کھیلے ہیں، لیکن اچھی طرح کھیلنا کچھ بھی نہیں آتا۔ کرکٹ کا شوقین ہوں، لیکن زیادہ کھیلنی نہیں آتی۔ پسرور کی گلیوں اور محلوں میں، میں نے کرکٹ اس وقت کھیلی جب ہمارے ہاں یہ کھیل اتنا مقبول نہیں تھا۔ پھر میرا خاندان سیالکوٹ شفٹ ہوگیا، جہاں محلے کی ایک ٹیم ’’شاہین کرکٹ کلب‘‘ پہلے ہی موجود تھی۔ جیسے میں نے پہلے بتایا کہ کرکٹ کھیلنے کا بہت شوق تھا، لہذا اس ٹیم کو جوائن کر لیا اور جلد ہی کرکٹ میں مہارت نہ رکھنے کے باوجود مجھے ٹیم کا صدر بنا دیا گیا۔ کرکٹ کی کمنٹری کے حوالے سے بتاؤں تو اُس وقت کے ایک کمنٹیٹر عمر قریشی مجھے بہت پسند تھے، کیوں کہ وہ بڑے جوشیلے انداز میں کمنٹری کرتے تھے۔

کالج میں، میں نے بیڈمنٹن کھیلی، لیکن اس میں بھی کوئی زیادہ مہارت نہیں تھی۔ ہاکی میں نے کھیلی نہیں، لیکن دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ہر قسم کا شائستہ ادب پسند ہے۔ اردو شاعری میں اقبالؒ، غالب، فیض اور فراز پسند ہیں، جن کی پسندیدگی کی وجہ دینی اور ملکی ہے۔ انگلش میں کیٹس اور ورڈز ورتھ شامل ہیں۔ فارغ وقت میں تاریخی و تفریحی مقامات کی سیر کرنا بہت اچھا لگتا ہے۔ سینما ہاؤس جا کر آج تک کبھی فلم نہیں دیکھی۔ ڈرامے اور فلموں میں کوئی دلچسپی نہیں، جہاز وغیرہ میں بیٹھے ٹی وی لگا ہو تو نظر پڑ جاتی ہے، آنکھیں بند نہیں کرتا، لیکن ارادتاً کبھی نہیں دیکھا۔

’’بھئی! ’’NO‘‘ دیاں پرچیاں ودھ گئیاں نیں پر اوور ٹائم فیر وی لگّے گا‘‘

اسکول کے زمانے کا ایک واقعہ سناتے ہوئے سینیٹر ساجد میر نے بتایا کہ میرے اسکول کے زمانے میں اساتذہ بہت زیادہ محنتی اور مخلص ہوتے تھے۔ میٹرک میں ہمیں ایک ایسے استاد ملے، جو اسکول کا وقت شروع ہونے سے قبل صبح کو جلدی بلاتے، جسے زیرو پریڈ کا نام دیا جاتا اور پھر اسی طرح چھٹی ہونے کے بعد بھی وہ ہمیں روک لیتے تھے، کیوں کہ اس وقت پرائیویٹ ٹیویشن کا کوئی تصور نہیں تھا۔

میٹرک کے امتحانات قریب تھے، جس کی وجہ سے اساتذہ بہت زیادہ محنت کرواتے تھے۔ اچھا! زیرو پریڈ کے باعث صبح سے شام تک مسلسل پڑھنے کی وجہ سے لڑکے بہت زیادہ تنگ آ چکے تھے۔ وہ استاد میرے رشتہ دار بھی تھے، تو سب لڑکوں نے مجھے کہا کہ آپ ان سے بات کریں تا کہ ہماری جان چھوٹ جائے۔ درحقیقت میں خود بھی اندر سے اکتا چکا تھا، لہذا میں نے ان سے بات کی تو انھوں نے میری بات کا جواب کلاس میں جماعت کو دیا، انھوں نے کہا کہ کل کلاس میں سیکرٹ بیلٹ ہوگا (یہ لفظ میں نے پہلی بار اس وقت سنا تھا)، جو زیرو پریڈ اور اوور ٹائم کے حق میں ہو گا وہ ’’YES‘‘ اور مخالف ’’NO‘‘ میں ووٹ دیں گے۔

اگلے روز پرچیاں بٹیں تو میرے سمیت اکثریت نے ’’نو‘‘ میں ووٹ دیا، ہمارے استاد نے وہ سارے ووٹ ہمارے سامنے میز پر رکھ کر کھولے، جس کے بعد انھوں نے دیانت داری سے نتائج کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ ’’بھئی! ’’NO‘‘ دیاں پرچیاں ودھ گئیاں نیں، پر اوور ٹائم فیر وی لگّے گا‘‘ ( ’’NO‘‘ کی پرچیاں بڑھ گئی ہیں، مگر اوور ٹائم پھر بھی لگے گا)۔ ہم سوچ میں پڑ گئے کہ یہ اچھی جمہوریت اور انصاف ہے؟ لیکن ہمیں یہ بھی معلوم تھا کہ یہ محنت ہمارے لئے ہی ہو رہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔