(پاکستان ایک نظر میں) - پاکستان کا مطلب کیا؟

شاہد کاظمی  اتوار 21 دسمبر 2014
کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کی بنیادوں میں ظلم سہتے مسلمانوں کا لہو ہے؟ اگر یہ وہ پاکستان نہیں تو ہمیں وہ پاکستان کو ڈھونڈنا ہو گا۔  فوٹو: فائل

کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کی بنیادوں میں ظلم سہتے مسلمانوں کا لہو ہے؟ اگر یہ وہ پاکستان نہیں تو ہمیں وہ پاکستان کو ڈھونڈنا ہو گا۔ فوٹو: فائل

47ء میں یہ نعرہ زبان زد عام تھا پاکستان کا مطب کیا،لا الہ الا اللہ  یہ نعرہ ہی درحقیقت پاکستان کی بنیاد بنا۔ اس نعرے کی بنیاد پر ہی یہ تصور ابھرا کہ ہندو و مسلمان دو الگ قومیں ہیں۔ ان کی ثقافت الگ ہے۔ ان کا رہن سہن الگ ہے۔ ان کی بودو باش الگ ہے۔ ان کے مذہبی تہوار الگ ہیں۔ ان کی زندگی کا مکمل طور طریقہ الگ ہے۔ اور اس بات میں کوئی شک نہیں ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ نصف صدی سے زائد عرصہ گزرنے کے بعد اب کہیں کہیں سے یہ صدا بھی بلند ہونا شروع ہو گئی ہے کہ دو قومی نظریہ ہی غلط تھا۔

یہ صدا کہاں سے بلند ہونا شروع ہوئی؟ اس کا مقصد کیا تھا یا ہے؟ یہ نہ صرف ایک الگ بحث ہے بلکہ پاکستان کا حقیقی دانشور اس کو بخوبی سمجھتا بھی ہے اور عام آدمی تک یہ سمجھ پہنچا بھی رہا ہے۔ درحقیقت دو قومی نظریہ ایک ایسی حقیقت ہے جس سے انکار ایسے ہی ہے جیسے بلی کو دیکھ کے کبوتر اپنی آنکھیں بند کر لے۔

73ء کے آئین نے مہر ثبت کر دی کہ پاکستان کا نام’ اسلامی جمہوریہ پاکستان‘ ہے لیکن 47ء سے لے کر 2014 تک ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے کہ اس ملک میں اسلامی نظام کیسے نافذ ہو گا۔ قیام پاکستان سے پہلے کے حالات کا جائزہ لیں۔ جب اقبالؒ نے پاکستان کا تصور پیش کیا تو اس میں کسی جگہ نہیں لکھا تھا کہ یہ سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی، کشمیری کیے لیے ہے۔ اقبال ؒ نے یہ بھی نہیں کہا تھا کہ میرا تصور کسی سنی ، شیعہ، وہابی، دیوبندی یا کسی بھی اور مخصوص فرقے کے لیے ہے،  بلکہ انہوں نے یہ تصور برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کے لیے دیا تھا۔کیوں کہ مسلمان برصغیر پاک و ہند میں اچھوتوں جیسی زندگی بسر کر رہے تھے۔ اسی لیے دو قومی نظریہ سامنے آیا۔ جو لوگ دو قومی نظریے کو نہیں مانتے وہ صرف مودی سرکار کے اقدامات یا پھر کچھ ماضی قریب کی تاریخ میں گجرات کا حشر دیکھ لیں۔ اور ابھی کچھ دن پہلے ہی تو بابری مسجد کی شہادت کا دن بھی تھا۔

جب اقبال ؒ کے تصور کو قائد ؒ نے عملی جامہ پہنایا تو انہوں نے واضح الفاظ میں کہہ دیا کہ پاکستان اس لیے بنایا گیا تا کہ مسلمان آزادی کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کر سکیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی واضح کیا تھا کہ اس میں اقلیتوں کو بھی وہی حقوق حاصل ہوں گے جو اکثریت کو ہوں گے۔ لیکن 1947ء سے پہلے اور بعد کے پاکستان میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو گیا۔ 47ء سے پہلے پاکستان کے قیام کی جہدو جہد میں صرف مسلمان شامل تھے۔ لیکن قیام پاکستان کے بعد آزاد فضاء میں یہی مسلمان سنی، شیعہ، بریلوی، وہابی، دیوبندی وغیرہ بن گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کے ساتھ بھی آج وہی سلوک بڑھتا جا رہا ہے جو کسی دور میں برصغیر میں مسلمانوں کے ساتھ ہوتا تھا۔جو لوگ قیام پاکستان سے پہلے ایک قیادت میں اکھٹے تھے انہوں نے قیام پاکستان کے بعد اپنی اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنا لی۔ اور بانت بانت کی صدائیں بلند ہونے لگیں۔

آئین میں اسے مسلمان کہا گیا جو اللہ کی وحدانیت پر مکمل یقین رکھتا ہو۔ نبی آخرالزماں صلی اللہ و علیہ و آلہ وسلم پر بطور آخری نبی مکمل ایمان رکھتا ہو۔لیکن آج اس تعریف پر پورا اترنے کے باوجود بھی کفر کے فتوے عام ہیں۔ جن زبانوں پر قیام پاکستان سے پہلے یک زباں ہو کر ’ پاکستان کا مطلب کیا، لا الہ الا اللہ‘کے نعرے بلند تھے۔ آج وہ گولی کی زبان میں بات کرتے ہیں۔ کہاں گیا وہ پاکستان جس کی بنیاد ہی اسلامی نظریہ تھا؟ کہاں گیا وہ پاکستان جو لا الہ الا للہ کی عملی تفسیر تھا؟ آج اسلامی جمہوریہ پاکستان کہیں دور رہ گیا ہے جب کہ شخصیات ، گروہ، فرقے مضبوط ہو گئے ہیں۔

اسلامی پاکستان کو مضبوط کرنے کی کوششوں میں تو ہم ایک عرصے سے کوشاں ہیں۔ خدا کرے کہ ہم پاکستان کو اسلامی ملک بنا سکیں۔ اب ذکر اگر کریں’جمہوریہ پاکستان‘ کا تو اس سلسلے میں بھی حالات حوصلہ افزاء نہیں ہیں۔ جمہوریت ایسے نظام کو کہتے ہیں جس میں تمام اہل شہری اس نظام کا حصہ بن سکتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت کو صرف چند خاندانوں کی باندھی سمجھ لیا گیا ہے۔اور عام شہری کو اس سے ایسے دور رکھا گیا ہے جیسے جمہوری نظام میں عام شہری کی مداخلت سے اس نظام کو’مروڑ‘ نہ پڑ جائیں۔ جو نظام اکثریت کی رائے سے فیصلے کرنے لیے وجود میں آیا تھا اسی نظام کو ذاتی مفادات کے لیے استعمال کیا جانے لگا۔ پاکستان اس نظام کی ابتر شکل کی بہترین مثال ہے۔ جمہوریت کی خوبی ہے کہ لوگ آزادی سے اپنے نمائندے چن سکتے ہیں جو ان کے لیے قانون سازی کریں۔ لیکن پاکستان میں جمہوریت حقیقی معنوں میں کبھی لوگوں کی رائے سے آئی ہی نہیں۔

58ء تک کے عرصے کو کسی قدر جمہوری دور کہا جا سکتا ہے وہ بھی جمہوریت کی ابتدائی شکل ۔ لیکن اس کے بعد کی جمہوریت کے کیاکہنے کہ جس میں مادر ملت جو کروڑوں پاکستانیوں کے لیے محترم ہیں ایک فیلڈ مارشل کے ہاتھوں شکست کھا جاتی ہیں۔ یہ جمہوریت کا پہلا عملی مظاہرہ تھاجو 65ء میں ہوا۔ فیصلے جمہوری طریقے سے کرنے کے بجائے عالمی طاقتوں کی ایما پر ہوتے رہے۔70ء کے عام انتخابات کو پاکستان کے شفاف ترین انتخابات اور جمہوریت کا سنگ میل مانا جاتا ہے لیکن صد افسوس! کہ جمہوری روایات کے برعکس اکثریتی پارٹی کو اقتدار نہ سونپا گیا جس سے ملک دو ٹکڑے ہو گیا۔ اس کے بعد جمہوریت ایک نعرہ بن گیا لیکن عملی طور پر جمہوریت نہ پنپ سکی۔ اقتدار کی میوزیکل چیئر جاری رہی۔ عالمی طاقتیں اپنے ایجنڈے کے مطابق لفظ جمہوریت کو پاکستان میں استعمال کرتی رہیں۔

کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کی بنیادوں میں ظلم سہتے مسلمانوں کا لہو ہے؟ کیا یہ وہی پاکستان ہے جس کی آزادی کی خاطر بہنوں نے اپنی عزتوں کی قربانی بلا تفریق فرقہ و طبقہ دی ؟ کیا آج ہم اسی اسلامی جمہوریہ پاکستان میں رہ رہے ہیں جس میں وقت کے نوابین سب کچھ گنوا کر بھی فقیری کو ہی اپنا سب سرمایہ سمجھ بیٹھے تھے؟ اگر یہ وہ پاکستان نہیں تو ہمیں اسلامی جمہوریہ پاکستان کو ڈھونڈنا ہو گا۔ ہمیں اس پاکستان کو ڈھونڈنا ہو گا جو نہ صر ف اسلامی اقدار کا امین ہے بلکہ جمہوریت کی درسگاہ بھی ہے۔ ہم ایک ایٹمی قوت ہیں ، اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت۔ ہمیں باہمی یگانگت سے ثابت کرنا ہو گا کہ ہمارے اجداد نے قربانیاں بلا وجہ نہیں دیں۔ اور ہم ان کی قربانیوں کے امین ہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

شاہد کاظمی

شاہد کاظمی

بلاگر کی وابستگی روزنامہ نئی بات، اوصاف سے رہی ہے۔ آج کل روزنامہ ایشیئن نیوز اور روزنامہ طاقت کے علاوہ، جناح و آزادی کے لیے بھی کالم لکھتے ہیں۔ ماس کمیونیکیشن میں ماسٹرز کر رکھا ہے۔ بلاگر سے ان کے فیس بک پیج www.facebook.com/100lafz پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔