طالبان ہوں یا داعش؛ مسئلے کا حل پاکستان کے پاس ہے، جنرل (ر) حمید گل

غلام محی الدین / رانا نسیم  اتوار 14 دسمبر 2014
 آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل سے انٹرویو ۔ فوٹو : آغا مہروز / ایکسپریس

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل سے انٹرویو ۔ فوٹو : آغا مہروز / ایکسپریس

لاہور / اسلام آباد: لیفٹنٹ جنرل (ر) حمید گل 20 نومبر 1936ء کو ضلع سرگودھا میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم گاؤں کے ایک سکول سے حاصل کی۔ مختصر عرصے کے لیے گورنمنٹ کالج لاہور کی تاریخی درسگاہ سے بھی وابستہ رہے۔ فوج میں شمولیت کے بعد پاکستان ملٹری اکیڈمی کاکول میں پیشہ ورانہ تعلیم اور تربیت کے سلسلے کا آغاز کیا۔

اکتوبر 1957ء میں پاکستان آرمی میں کمیشن حاصل کرنے کے بعد آرمرڈ کور کی 19ویں لانسرز رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ 1965ء کی جنگ میں انہوں نے ٹینک کمانڈر کے فرائض انجام دئیے۔ 1972-76ء کے دوران بٹالین کمانڈر اور سٹاف کرنل کی حیثیت سے انہوں نے براہ راست جنرل ضیاء الحق کے ماتحت کے طور پر کام کیا، جب جنرل ضیاء بالترتیب فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کے جنرل کمانڈنگ آفیسر اور پھر کور کمانڈر ملتان کے عہدے پر فائز تھے۔ 1978ء میں انہیں بریگیڈیئر کے عہدے پر ترقی دے کر بہاولپور کا مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر تعینات کیا گیا۔ 1982ء میں جنرل ضیاء نے انہیں ملتان میں فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کا کمانڈر مقرر کر دیا۔

مارچ 1987ء میں جنرل اختر عبدالرحمن کی سبکدوشی کے بعد انہیں آئی ایس آئی کا ڈائریکٹر جنرل بنا دیا گیا۔ وہ اکتوبر 1989ء تک اس عہدے پر خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ان کا یہ ڈھائی سالہ دور ملکی سیاسی اور عسکری تاریخ میں مختلف حوالوں سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔

1988ء کے انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے کے لیے مختلف سیاسی جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد تشکیل دینے میں انہوں نے اپنا کردار ادا کیا۔ افغان طالبان کے قیام میں بھی ان کا کردار اہم مانا جاتا ہے۔ 1989ء میں افغان مجاہدین کی مدد سے انہوں نے ہندوستان میں کشمیر کی آزادی کے لیے کاروائیوں کے سلسلے کا آغاز بھی کیا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد جنرل حمید گل مختلف فورمز میں شرکت، اپنے بیانات اور اپنے ماضی کے کردار کی وجہ سے ملکی اور بین الاقوامی میڈیا پر ہمیشہ موضوع بحث رہے ہیں۔ 2011ء میں قاضی حسین احمد مرحوم نے ایک تھنک ٹینک ’’ادارہ فکر و عمل‘‘ قائم کیا، جنرل حمید گل، اس کے سرکردہ ارکان میں سے ہیں۔

 ایکسپریس: پاکستان میں یہ تاثر عام ہے کہ ملک میں تصادم کی جو کیفیت ہے اس کے پیچھے آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔ فرقہ وارانہ کشمکش میں بھی خفیہ ایجنسیوں کا نام لیا جاتا ہے، کلاشنکوف اور ہیروین کلچر، اور جہادی کلچر کو ذمہ دار بھی انہی کو قرار دیا جاتا ہے، آپ کے خیال میں افغان جہاد میں ہم نے کیا کھویا اور کیا پایا؟

حمید گل: اس کے پیچھے ایک پوری داستان ہے‘ آپ دیکھیں کہ یہ عجیب و غریب چیز ہے کہ پاکستان کی تاریخ کے دو بالکل متضاد کردار ہیں‘ ایک ذوالفقار علی بھٹو ہیں اوردوسرے جنرل ضیاء الحق۔ ہمارا ایٹمی پروگرام مسٹر بھٹو نے شروع کیا اور اسے پائیہ تکمیل تک پہنچایا جنرل ضیاء الحق نے۔ لوگ تاریخ سے اس قدر ناآشنا ہیں کہ یہ سمجھتے ہیں کہ افغان جہاد بھی جنرل ضیاء الحق کے دور میں شروع ہوا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ سلسلہ بھی بھٹو صاحب کے دور میں شروع ہوا۔

1974ء میں جب وادیء پنج شیر میں بغاوت کا آغاز ہوا تو جنرل نصیر اللہ بابر ان دنوں صوبہ سرحد (خیبر پختونخواہ) میں فرنٹیر کور کے انچارج تھے۔ حکمت یار ‘ ربانی اور احمد شاہ مسعود وغیرہ سب سے پہلے انہی کے پاس آئے تھے ۔ شروعات تو بھٹوصاحب نے کی اور پھر جب طالبان پیدا ہوئے تو یہ کس نے کہا تھا کہ طالبان ہمارے بچے ہیں… یہ بھی پیپلزپارٹی حکومت کے جنرل نصیر اللہ بابر نے کہا تھا‘ میں یہ نہیں کہتا کہ کون غلط ہے اورکون صیح ہے۔

روس آ گیا تھا وہاں پر‘ مجھے بھٹو صاحب کے دور کا علم نہیں ہے لیکن مجھے یہ پتہ تھا کہ وہاں یہ کام ہو رہاہے اور لوگوں کو تربیت دی جا رہی ہے‘ کچھ اسلحہ بھی دیا جا رہا ہے‘ ان کی Helpکی جا رہی ہے اور پھر یہ ہوا کہ وہاں انقلاب ثور آ گیا۔ اس کے خلاف ایک بغاوت شروع ہوئی۔ پنج شیر اَپ رائزننگ پہلے ہی ہو چکی تھی۔ اسلام پسندوں اور وہ لوگ جو روسی نظام لانا چاہتے تھے‘ کے درمیان ٹکراؤ کی صورت پیدا ہوئی۔ کیونکہ افغانستان ایک قدامت پرست معاشرہ ہے اس لئے وہاں پر اس نظام کے خلاف مزاحمت شروع ہو گئی۔ نور محمد ترکئی کی حکومت آ گئی جو ایک کمیونسٹ حکومت تھی۔ اتفاق سے نور محمد ترکئی جو تھے انہوں نے میٹرک ملتان سے کیا تھا‘ احمد شاہ ابدالی جس نے جدید افغانستان کی تشکیل کی تھی وہ بھی ملتان میں پیدا ہوا تھا ابدالی روڈ اسی کے نام پر ہے۔ 14 برس کی عمر تک ابدالی وہیں ملتان میں رہا۔

اس کا گھر آج بھی وہاں موجود ہے جس پر پلیٹ لگی ہوئی ہے۔ پھر جوزابل کی پہلی حکومت بنی تھی‘ کابل کے جنوب میں نیچے جو علاقہ ہے اس کا ہیڈ کواٹرچار سال تک ملتان میں رہا اور زابل کی حکومت کا نظم و نسق یہیں سے کنٹرول کیا جاتا تھا‘ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ افغانستان کے ساتھ ایک لازوال تعلق ہے آپ کو بچانے کے لئے جو لوگ آتے تھے یہاں پر جو ہیرو ہیں آپ کے‘ جن کے نام پر آپ غوری میزائل بناتے ہیں‘ جن کے نام پر آپ نے غزنوی میزائل بنایا‘ محمد بن قاسم باہر سے آئے تھے‘ افغانستان سے کتنے ہیروز آئے آپ کے‘ شہاب الدین غوری‘ محمود غزنوی‘ احمد شاہ ابدالی ‘ جب مرہٹوں نے آپ کی خوب پٹائی کی تھی اور دلی پر قبضہ کر لیا تھا تو شاہ ولی اللہ نے احمد شاہ ابدالی کو خط لکھ کر بلوایا کہ ہماری جان بچاؤ‘ تو جان بچانے کے لئے وہ آئے۔ ہمارے اولیاء کرام اور ادب سے وابستہ کئی بڑی شخصیات کا تعلق انہی علاقوں سے تھا۔

ان کے ساتھ ایک لازوال تعلق ہے اور آپ اس بات سے انکار نہیں کر سکتے کہ ہم یک جان اور دو قالب ہیں۔ عقیدے کے لحاظ سے‘ تاریخ کے لحاظ سے‘ ہم اپنے کلچرکے لحاظ سے اور اپنے دفاع کے لحاظ سے۔ اگر ایسی بات ہے تو پھر یہ دیکھنا ہو گا کہ جب وہاں ایک صورتحال پیدا ہوئی تو کیا ہم اس سے لاتعلق رہ سکتے تھے۔

اب اس وقت کے تمام واقعات اٹھا کر دیکھ لیں تو جب ہم روس کے خلاف وہاں جنگ لڑ رہے تھے تو پہلے ڈیڑھ سال تک کوئی امریکی امداد نہیں آئی یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ ہم نے یہ سب کچھ امریکا کے کہنے پر کیا تھا۔ امریکا تو اس خطے کوچھوڑچکا تھا۔ امریکا نے تو ہمیں دھوکے میں رکھا۔ جب ہماری انٹیلی جنس بتا رہی تھی کہ روس کے فوجی ڈویژن نیچے آ رہے ہیں تو انہوں نے پروا ہی نہیں کی اور جب وہ داخل ہو گئے تو ہم پر اس زمانے میں پابندیاں لگی ہوئی تھیں‘ یہ جمی کارٹر کا زمانہ تھا اور وجہ اس کی یہ تھی کہ پاکستان میں مارشلاء لگا ہوا تھا‘ تو انہوں نے ہماری مدد نہیں کی‘ صرف ایک چھوٹا سا جملہ کہا کہ ہم400 ملین ڈالر امداد دیں گے پاکستان کو پابندیوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے۔

اس پر ضیاء الحق صاحب نے کہا کہ یہ مونگ پھلی کے دانے اپنے پاس رکھو‘ تو بین الاقوامی میڈیا میں یہ ایک مذاق بن گیا کیونکہ کارٹر کا تعلق الباما ریاست سے تھا جو دنیا میں سب سے زیادہ مونگ پھلی پیدا کرنے والا علاقہ ہے۔ مجھے اس قسم کا کوئی ثبوت نہیں ملا کہ امریکا کی کوئی امداد آئی ہو۔ ڈیڑھ سال ہی میں تو فیصلہ ہونا تھا کہ مزاحمت نے حملہ آوروں کو روک لیا یا نہیں تو جب وہ رک گئے تو پھر برزنسکی صاحب تشریف لے کر آئے اور بات آگے چلی۔ میں ان دنوں ڈی ایم آئی ہوتا تھا اور ہم نے پرانی پڑی ہوئی دوسری جنگ عظیم اور اس بھی پہلے کی پہلی جنگ عظیم کے زمانے کی توڑے دار بندقیں جمع کیں اور وہ ہم نے افغانوں کو دیں اور یہ ان کی مدد سے لڑے حتیٰ کہ آپ حیران ہوں گے کہ بانساں والا بازار لاہور سے ڈنڈے اور کلہاڑیاں خرید کرکے بھی انہیں دی گئیں۔

یہاں پر سرخ سویرے کا انتظار کون کیا کرتا تھا؟ کہ طور خم پرسرخ سویرا طلوع ہونے والا ہے۔ تو پھر کیا یہ بات غلط تھی‘ ہم مزاحمت کیوں نہ کرتے اگر امریکا بعد میں اس میں شریک ہو گیا تو یہ بھی درست تھا۔ روس کو وہاں روک دیا اور انہیں بالآخر شکست ہوئی اور انہیں وہاں سے جانا پڑا۔ پاکستان نے وہاں اپنی فوج نہیں بھیجی‘ میرے آئی ایس آئی کے کچھ لوگ وہاں جاتے تھے جو انہیں تربیت دیتے تھے میں خود دو دفعہ گیا۔ میرے د ونوں بیٹے جہاد میں شامل رہے‘یہ کہتے ہیں نا کہ اپنے بیٹوں کو یہ جہاد میں بھیجتے نہیں‘ میرے دونوں بیٹے جہاد میں شریک رہے ہیں۔

پھر جب امن کرانے کی بات آئی تو رئٹائرمنٹ کے بعد میں اپنی جان خطرے میں ڈال کر اکیلا وہاں گیا‘ میری وہاں بڑی عزت تھی۔ آج بھی افغانستان چلا جاؤں تو میرا وہاں بہت احترام کیا جاتا ہے۔ میں طالبان کے یوم استقلال کی جو آخری پریڈ تھی اس میں مہمان خصوصی تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ تاریخی طور پر آپ نے ایک بہت بڑی جنگ لڑی ہے۔ ایک خفیہ جنگ جو فوج نے نہیں لڑی بلکہ آئی ایس آئی نے لڑی ہے۔ اس لئے آئی ایس آئی دنیا کی نمبرون انٹیلی جنس ایجنسی ہے۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ یہ محض خفیہ جنگ لڑنے کی ماہر نہیں ہے بلکہ یہ دوسری جنگ بھی لڑ سکتی ہے۔ اس لئے دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتی بھی ہے۔ اپنے میڈیا پر بدنام بھی ہوتی ہے۔ دن رات اس کے اوپر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں۔حتیٰ کہ پوری پارلیمنٹ آپ کی مشترکہ اجلاس میں اٹھارہ دن صرف ایک ہی بات کرتی رہتی ہے… آئی ایس آئی اور فوج… آئی ایس آئی اور فوج۔

اب آپ مجھے بتائیں کہ ایک عورت اپنے خاندان کے لئے ہانڈی بناتی ہے۔ یہ ہانڈی جیسے ہی تیار ہو جاتی ہے تو وہ چھوڑکر چلی جاتی ہے اور اس کی جگہ کوئی ملازمہ آ جاتی ہے اور وہ ہانڈی جل جاتی ہے۔ ہمارے زمانے میں کوئی کہہ دے کہ ا یک گولی کسی مجاہد نے کسی پاکستانی کے خلاف استعمال کی ہو یا ہمارے قبائلی علاقے میں کسی قسم کی کوئی گڑ بڑ ہوئی ہو۔ ہم نے ان کو پیار سے رکھا، کیونکہ انہوںنے ہم پر احسان کیا ہوا تھا تاریخ اور جغرافیے نے ہمیں اپس میں جوڑ رکھا ہے۔ اگر آپ بعد میں کسی معاملے کو ہینڈل نہیں کر پاتے تو کیا کہا جا سکتا ہے۔

جو ہتھیار بعد میں استعمال ہوئے وہ سارے ہتھیار ہمارے دیئے ہوئے تو نہیں۔ جو ہتھیار روس نے دیئے وہ بھی تو وہیں تھے۔ ہمارے قبائلی علاقے میں اس زمانے میں ہیلی کاپٹر ہتھیار گرا کر جایا کرتے تھے لیکن انہیں کبھی پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کیا گیا۔ یہ اہم بات ہے کہ سب سے پہلے یہ ہتھیار کہاں پہنچے‘ قبائلی علاقے میں تو پہلے ہی ہتھیار تھے لیکن وہاں سے یہ ہتھیار پنجاب یا دوسری جگہوں پر تو نہیں پہنچے یہ ہتھیار سارا پاکستان چھوڑ کر کراچی پہنچے، ملک کے آخری حصے میں اور وہ کون تھا جس نے اپنے حامیوں سے کہا تھا کہ ٹیلی ویژن بیچ کر کلاشنکوف خرید لو۔

آپ کو معلوم ہے کہ بڑی مقدار میں ہیروئن پکڑی جایا کرتی تھی‘ یہ بات درست ہے کہ افغان ہمشہ سے یہ کام کرتے آئے ہیں۔ میڈیا میں آئے دن ہیروئن کے بڑے بڑے ڈھیر جلنے کے مناظر عام تھے۔ وہ مارشلاء کا زمانہ تھا۔ اس وقت بہت کم ہیروئن پیدا ہوتی تھی وہاں، آج اس سے دس گنا زیادہ پیدا ہوتی ہے۔ اب ہیروئن جلانے کے سین کیوں نظر نہیں آتے۔ حالانکہ میڈیا اتنا ایکٹو ہے کہ کوئی چیز چھپانا مشکل ہے۔ ہیروئن پیدا ہو رہی ہے تو کہاں جا رہی ہے اور کون اس میں شامل ہے۔ تو کلاشنکوف کلچر اور ہیروئن کلچر کو افغان جہاد کا نتیجہ قرار دینا سراسر غلط بات ہے۔ اب یہ دیکھ لیتے ہیں کہ اس جہاد کا فائدہ کیا ہوا۔ اس سارے معاملے کی بیلنس شیٹ بھی دیکھ لیتے ہیں۔

سب سے پہلے آپ پر لگی پابندیاں ہٹ گئیں‘ آپ نے ایک جنگ جیتی جس کے نتیجے میں وسط ایشیا کی 7 ریاستیں آزاد ہوئیں۔ روس کے ٹکڑے ٹکڑے ہو گئے‘ آپ نے خاموشی کے ساتھ اپنا ایٹمی پروگرام مکمل کر لیا‘ ان کو پتہ تھاکہ ہم یہ بنا رہے ہیں لیکن ہم نے ان سے چالبازی کی، وہ مجبور تھے اور ہم نے اس مجبوری کا بھرپور فائدہ اٹھایا۔ اس کے باعث صورتحال یہ ہوئی کہ نریندری مودی جو بھی کہتا رہے بھارت پاکستان پر حملہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں رہا۔ اس سارے عرصے میں ہماری معیشت کی شرح نمو 6.5سے 7.0 فیصد پر قائم رہی۔ یعنی آپ کی معیشت میں استحکام رہا۔ قیمتوں میں اتار چڑھاؤ نہیں آیا غریب مطمئن رہا سوائے ان واقعات کے جو کے جی بی (سوویت خفیہ ایجنسی) کروایا کرتی تھی اور اس کا ہمیں علم تھا اور ہم کہا کرتے تھے کہ حوصلہ رکھیں‘ یہ افغانستان سے چلے جائیں گے اور حالات ٹھیک ہو جائیں گے۔ پھر اس دور میں کوبرا ہیلی کاپٹرز‘ ایف16طیارے‘ اگوسٹا آبدوزیں‘ ہارپون میزائل اس دور میں پاکستان کو ملے جبکہ 1971ء میں آپ بالکل صفر ہو چکے تھے۔

یہ وہ سب کچھ ہے جو ہم نے اس دور میں حاصل کیا۔ اب آگے چلتے ہیں کہ جب امریکا ہمیں چھوڑ کر چلا گیا اور حکومت نے بھی اس سلسلے میں کچھ نہیں کیا اور افغان آپس میں لڑنا بھڑنا شرع ہو گئے‘ امریکا نے ہمارے ساتھ چالبازی کی۔ ہم جونیجو صاحب کی منت کرتے رہے کہ آپ جنیوا معاہدے پر دستخط نہ کریں۔ اس پر بہت جھگڑا ہوا بلکہ اسی بات پر جونیجو صاحب کی حکومت بھی چلی گئی۔ اور اس بات پر امریکا نے ضیاء الحق کو بھی اڑا دیا کہ یہ بندہ حد سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔ بات یہ ہے کہ اگر ہم امریکا کے کہنے پر کر رہے ہوتے تو حمیدگل کیوں نہیں آرمی چیف بنا جبکہ میری پوزیشن اس وقت نمبر ون تھی۔

نہ صرف سنیارٹی بلکہ پیشہ وارانہ اعتبار سے بھی نمبر ون تھی۔ کون جرنیل ہے آپ کا اس وقت موجود جس نے جنگ لڑی ہو اور جیتی ہو۔ جنگ تو افغانوں نے لڑی لیکن ظاہر کہ میری ہدایات کے تحت لڑی‘ اور آج یہ حال ہے کہ امریکہ‘ برطانیہ اور یورپی ممالک نے مجھے بین کیا ہوا ہے اور مجھے ان ملکوں کا ویزا نہیں ملتا‘ وجہ یہ ہے کہ میں ایک پاکستانی ہوں یہ سب میں ان کے لئے نہیں کر رہا تھا۔ امریکی یہ سمجھ رہے تھے کہ افغان ان کے کرائے کے سپاہی ہیں لیکن وہ تو اپنے ملک کی آزادی کے لئے لڑ رہے تھے۔ وہ تو اپنے ایمان اور عقیدے کے لئے لڑ رہے تھے۔ تو بات یہ ہے کہ کلاشنکوف کلچر کا الزام لگانا اور اس طرح کی باتیں کرنا اس سیکولر طبقے کا کام ہے جو میڈیا پر چھایا ہوا ہے اور جیسے امریکا کو جہاد پسند نہیں انہیں بھی جہاد سے عناد ہے۔ اور یہ ٹی ٹی پی جو بنی یہ بھی امریکا کی ایما پر بنی۔

ایکسپریس :غلطی کہاں پر ہوتی ہے؟ ہم مسائل کی جس دلدل میں پھنسے ہیں اس کا ذمہ دارکون ہے؟
حمید گل: غلطی پالیسی میں ہوئی ہے۔ آپ کا مزاج اسلامی ہے‘ آپ قران پر یقین رکھتے ہیں۔ قوم کا ایک مزاج ہوتا ہے۔ اس کی مثال یوں ہے کہ ٹرین ایک لمبی گاڑی ہوتی ہے جو پٹڑی پر چلتی ہے‘ وہ Smoth Curues پر مڑتی اور راستہ بدلتی ہے‘ یعنی آہستہ آہستہ اپنا رخ بدلتی ہے۔ آپ اسے بائیسکل کی طرح نہیں موڑ سکتے۔ اگر آپ ایسا کرنے کی کوشش کریں گے تو کچھ ڈبے اُلٹ جائیں گے۔ جب آپ نظام تعلیم کو بدلنا چاہیں گے اور اس کام کے لئے ایسے ایسے بندے ہوں گے جو کہیں گے کہ قران کے چالیس سپارے ہیں‘ اور سورۃ اخلاص آپ پڑھنا چاہیں گے تو آپ سے پڑھی نہیں جائے گی اور آپ کوشش کریں گے کہ کورس سے سورۃ انفال‘ سورۃ تو بہ اور سورۃ محمد ؐ نکال دی جائے‘ دیکھنا یہ ہے کہ جہاد کا ذکر تو قرآن پاک میں ہے۔ برطانوی پارلیمنٹ کے اندر ایک شخص نے ہاتھ میں قرآن پکڑ کر کہا کہ جب تک یہ کتاب موجود ہے، دہشت گردی ختم نہیں ہو سکتی۔ اگر دہشت گردی قرآن سے برآمد ہو رہی ہے تو ہم تو بڑے خوش ہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ جو جہاد ہے وہ دہشت گردی نہیں ہے۔

ایکسپریس : ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان میں سول ملٹری تصادم کے پیچھے دفاع اور خارجہ پالیسی پر مکمل کنٹرول حاصل کرنے کی کھینچاتانی نظر آتی ہے۔ آپ اس مسئلے کا کیا جل تجویز کرتے ہیں کہ جمہوریت بھی چلتی رہے اور تصادم بھی نہ ہو۔
حمید گل: آئیں پہلے تو جمہوریت کی بات کر لیتے ہیں۔ جمہوریت کیا ہوتی ہے‘ جمہوریت will of the People ہوتی ہے نا۔ کیا یہ عوام کی مرضی ہے کہ ساری قوم شودر بن کر رہے اور چند لوگ ان کے اوپر چڑھے رہیں۔ کہاں ہے جمہوریت‘ کچھ تو برہمن ہیں۔ کچھ کھشتری، جو فوج ہے ہماری‘ جو ویش ہیں پیسے جمع کر رہے ہوں‘ اور باقی سارے کے سارے شودر ہیں‘ حشرارت الارض ہیں‘ کیڑے‘ مکوڑے ہیں‘ کیا یہ جمہوریت ہے؟ جس کے بارے میں قائداعظم ؒ کہتے ہیں کہ اگر غریبوں کے لئے کچھ نہ کیا گیا تو مجھے ایسا پاکستان نہیں چاہئے۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ مغربی جمہوریت کس کی پیداورا ہے۔

یہ یورپ میں مذہبی پیشواؤں کی حکمرانی کے خلاف تحریک احیا سے پیدا ہوئی۔ لیکن اس کے تحت کوئی آفاقی نظام مسیحیت میں نہ تھا، نہ کوئی معاشی نظام‘ نہ کوئی سیاسی نظام‘ نہ کوئی وراثت کے اصول‘ اس میں اخلاقی اقدار کی بات کی گئی ہے۔ یہ دراصل چرچ کے خلاف بغاوت تھی جس کے نتیجے میں مغربی جمہوریت پیدا کی گئی اور اس کا نام انہوں نے سکیولرازم رکھ دیا اور اس میں مثبت قسم کی اقدار کو متعارف کرانے کی کوشش کی گئی۔ لیکن ہم جب پیدا ہوئے تو کیا مغربی جمہوریت کے لئے پیدا ہوئے۔ اسلام تو انسانیت کے لئے ہے۔ قائداعظم بھی یہی کہتے تھے کہ ہم نے ایک ایسا نظام لانا ہے جو انسان کی عافیت کے لئے ہو۔ قائداعظم کی 11 اگست والی تقریر تو پوری کی پوری میثاق مدینہ کا چربہ ہے‘ ایک ایک لفظ میثاق مدینہ کی یاد دلاتا ہے۔

کیا ان کا مطلب یہ تھا کہ قانون اینگلو سیکسن لاء ہو گا؟ ہمارے بہت بڑے قانون دان پہلے فرماتے ہیں کہ ’’خط تو لکھنا پڑے گا‘‘۔ پھر کہتے ہیں کہ خط لکھنے کی تو کوئی ضرورت نہیں ہے اور یہ اس وقت کہتے ہیں جب سینٹ کا ٹکٹ مل جاتا ہے۔ ایک ہی قانون کی دو متضاد تشریحات۔ ہمیں دو سو سال تک مغربی جمہوری نظام نے غلام رکھا۔ غلاموں کی تجارت کس نے دی۔ حبشیوں کو پکڑ پکڑ کر کون بیچتا تھا۔ ہم اب بھی نہیں سمجھ رہے ۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ پارلیمنٹ بہت کام کر رہی ہے تو نیچے تھانیدار کو تو یہ پتہ نہیں‘ اسے اوپر سے فون آ جائے گا یا وہ رشوت لے لے گا‘ تحصیلدار پیسے لے کر غلط انتقال کرا دے گا‘ یا پٹواری تو اس کی پرواہ نہیں کرے گا۔ مغربی جمہوریت پاکستان کے لئے مناسب نہیں ہمارا سارا نظام ہی پٹڑی سے اُ ترا ہوا ہے‘ عدالتیں انصاف نہیں دیتیں۔

اب آپ کی پارلیمنٹ کی طرف آ جائیں تو اب جو دھرنا بازی ہو رہی ہے تو ہر پارٹی یہ کہتی ہے کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ ہر کوئی کہتا ہے کہ ماڈل ٹاؤن میں 14 بندے مارے گئے وہ ناجائز مارے گئے، یہاں اسلام آباد میں چار اور مارے گئے۔ نہ عدالت نوٹس لے رہی ہے نہ کوئی اور… اپوزیشن بھی کہتی ہے دھاندلی ہوئی ہے‘ جمہوریت جیسی بھی ہو اس میں اپوزیشن کا ہونا ضروری ہے۔ حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک بدو کا یہ کہنا کہ آپ کا کُرتا کیسے بنا جبکہ بیت المال سے چادر تو ایک آئی تھی اور ایک میں کُرتہ بن نہیں سکتا۔ تو یہ تو جمہوریت ہوئی نا‘ احتساب لازم ہے‘ اپوزیشن نے کیا یہ پوچھاکہ یہ بندے کیوں مارے گئے۔

یہ ظلم نہیں تو اور کیا ہے۔ ایمل کانسی کو بھیج دیا جاتا ہے اور اسے پھانسی دے دی گئی۔ میں مقدمہ لے کر گیا ہائی کورٹ لیکن میرا مقدمہ ابھی بھی وہیں پڑا ہے، آپ پر امریکا کا نہیں پاکستان کا قانون لاگو ہوتا ہے، تو پھر یہاں ہی ٹرائل کیوں نہیں ہوا۔ رمدی یوسف کو بے نظیر کے دور میں باہر بھیجا گیا۔ یہ جمہوریت ہے؟ ریمنڈ ڈیوس چھوڑ دیا جاتا ہے اور چالاکی یہ کہ اسلامی دیت دے دی گئی اور راتوں رات بھگا دیا گیا۔ ایاز بلوچ جو کہ پکڑا گیا نارکوٹکس کیس میں، لیکن امریکی ایجنڈا تھا، اس لئے وہ اسے لے گئے۔ اب میں ایک اور نام نہیں لیتا، بس یہ کہتا ہوں جو ان کے لئے کام کرتے تھے، انہیں وہ لے گئے، میں یہ کہتا ہوں کہ آپ کے آئین میں تضادات موجود ہیں۔ ایک طرف اللہ کی حاکمیت کو قبول کرتے ہیں اور دوسری طرف آرٹیکل 248 کے ذریعے آپ زرداری صاحب کو کُھلی چھٹی دے دیتے ہیں کہ وہ سیاہ اور سفید کے مالک ہو گئے۔

آپ نے بات پوچھی تھی فوج کی، فوج آپ کا ایک ادارہ ہے، باقی سب ادارے آپ کے ناکام ہو چکے ہیں۔ حتی کہ امریکا بھی کہتا ہے کہ یونیفائڈ فیکٹر تو یہ ادارہ ہے۔ اچھا آپ نے خارجہ پالیسی کی جو بات کی کہ فوج بناتی ہے، تو مجھے بتائیں کہ وہ کون سا ملک ہے جہاں فوج خارجہ پالیسی نہیں بناتی؟ اوباما کس چیز پرآیا تھا کہ میں جنگیں ختم کروادوں گا تو بتائیں کہ جنگیں ختم ہوئیں یا پہلے سے بھی زیادہ بڑھ گئیں۔ افغانستان میں سرج ہوئی، اسے بدنامی بھی اُٹھانا پڑی، ایک وعدہ اس نے براہ راست کیا تھا کہ میں گوانتا نامو بے بند کروا دوں گا، کیا وہ ختم کرا سکا، سات سال گزر گئے، لیکن وہ ختم نہیں کرواسکا۔ اس کا مطلب ہے کہ پینٹاگون، سی آئی اے نہیں چاہتی کہ یہ ختم ہو۔ انہوں نے ابو غریب پیدا کیا، یہ مغربی جمہوریت ہے، جو ابو غریب پیدا کر رہی ہے۔ اسرائیل کی کُھل کر مدد کر رہے ہیں، حالاں کہ دنیا بھر میں اس کے خلاف قراردادیں آ چکی ہیں۔

ایکسپریس: ان حقائق کا ادراک ہونے کے باوجود بار بار تصادم کی صورتحال کیوں پیدا ہو جاتی ہے؟
حمید گل: کیوں کہ فیوڈل ازم زمین کی ملکیت کا نام نہیں ہوتا، یہ ایک ذہنی کیفیت ہے، کہ ہر چیز میرے انگوٹھے کے نیچے ہو، جسے آپ قرآن کے الفاظ میں فرعونیت کہتے ہیں۔ قرآن بڑے زبردست تین کردار بتاتا ہے، جو تینوں آپ پر منطبق ہوتے ہیں۔ فرعون کیا ہے، فرعون اللہ کی گدی سنبھالنے کی کوشش کرتا ہے، دوسرا قارون ہے جو ضرورت سے زیادہ پیسے جمع کر رہا ہے، کئے جا رہا ہے، کئے جا رہا ہے، جسے قرآن پاک ھلمن مزید کہتا ہے، کہ یہ بیماری ہے۔

ہمارے حاکموں کے پاس کیا پیسے کم ہیں؟ لیکن پھر بھی جمع کئے جا رہے ہیں، کیوں کہ یہ بیمار ہیں، ان کی روح بیمار ہے۔ اب آپ تیسرا کردار دیکھیں! ہامان ، ہامان کیا کرتا ہے، غلط دلائل دے گا اور لوگوں کو گمراہ کرے گا، سچ نہیں بولے گا، ہمارے وکیلوں میں بھی ہامان، سیاستدانوں میں بھی ہامان۔ صحافیوں میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں۔ میں مولوی نہیں ہوں لیکن سچ یہی ہے۔ یہ کوئی عافیت نہیں دے سکیں گے۔ آپ کا ٹیکس نظام غلط ہے، 80فیصد ٹیکس آپ کا غربیوں سے آرہا ہے، جو indirectغربیوں سے آتا ہے۔ صرف 9 فیصد بڑے لوگ ہیں، جو ٹیکس دیتے ہیں۔ مجھے بتائیں ایک دہشتگرد چار بندے مارتا ہے، ایک بندہ بنک کو لوٹ لیتا ہے، کمپنی بیٹھ جاتی ہے، سٹاک ایکسچینج گر جاتا ہے، لوگوں کا سرمایہ غرق ہو جاتا ہے، بیٹیاں بیٹھی رہ جاتی ہیں، تو بتائیں کون بڑا دہشتگرد ہے، کون معاشرہ کو زیادہ نقصان پہنچا رہا ہے۔ لاکھوں لوگ برباد ہو جاتے ہیں، بیواؤں کی جمع پونچی برباد ہو جاتی ہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔

ایکسپریس: ہماری خارجہ پالیسی میں کہاں خرابی آ رہی ہے، روس سے تعلقات کی بہتری پر امریکہ کا رویہ کیا ہو سکتا ہے؟
حمید گل: میرے خیال میں ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ ہم بھارت سے تجارت کے لئے مرے جا رہے ہیں حالانکہ ایران کو ہر اس چیز کی ضرورت ہے جو پاکستان میں پیدا ہوتی ہے۔ بھارت کے ساتھ تجارت میں 2.8 ارب ڈالر کا اب تک نقصان ہو چکا ہے۔ ایران کے ساتھ ہماری تین سال میں 40 ارب ڈالر کی تجارت ہو سکتی ہے انہیں گندم‘ کی چاول کی‘ مویشیوں کے چارے کی‘ گوشت کی ضرورت ہے حتیٰ کہ وہ تِل درآمد کرنا چاہتے ہیں۔ اور ہر وہ چیز جو وہاں پیدا ہوتی ہے اس کی ہمیں ضرورت ہے گیس کی‘ تیل کی اور کیمیکلز کی۔

آپ جب یہ کہتے ہیں کہ آپ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور یہ سرحد ہمارے درمیان ایک لکیر ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ تو فوج جس کی زندگی کا جواز ہی کشمیر ہے، اسے مایوسی ہوتی ہے۔ ہمیں تربیت ہی کشمیر کی بنیاد پر دی جاتی ہے۔ اسی لئے جنرل کیانی نے کہا تھا کہ ہماری دفاعی تیاری کا محور بھارت ہے اور اس بات پر مائیک مَلن ناراض ہو گیا اور آخری تین سال انہوں نے امریکہ کا ایک بھی دورہ نہیں کیا۔ جنرل راحیل شریف نے بھی یہ کہا کہ کشمیر تو ہمارے خون میں شامل ہے۔ ان دو متضاد رویوں سے خلا پیدا ہوتا ہے۔ افغانستان پر ہم چالیس سال سے وسائل اور پیسہ خرچ کر رہے ہیں۔ 1974ء سے شروع کریں تو آج چالیس سال ہو چکے ہیں۔ حکومتوں کو ملکی مفادات کی پالیسیوں میں تسلسل ہر صورت برقرار رکھنا چاہیے۔

ایکسپریس :کیا اسے حالات کا جبر کہیں گے یا پھر ایک مرتبہ پھر پاکستان روس سے گرمجوشی کا تاثر دے کر امریکہ سے زیادہ سے زیادہ فوائد حاصل کرنے کے چکر میں ہے؟
حمید گل:نہیں ایسا ہرگز نہیں ہے۔ اس مرتبہ سنجیدگی کے ساتھ پیش رفت ہو رہی ہے۔ سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس وقت خارجہ پالیسی آرمی چیف کے زیر اثر ہے۔ افغانستان اور بھارت کے ساتھ تعلقات کے تمام معاملات فوج کے ہاتھ میں ہیں۔ افغان صدر اشرف غنی جب آیا تو سب بات واضح نظر آ رہی تھی‘ ادھر امریکہ میں کتابیں لکھی جا رہی ہیں کہ پاکستان کے بغیر گذارہ نہیں اس لئے توازان قائم کیا جانا چاہئے۔ جارج فریڈمین (George Friedman)کی کتاب آئی ہے۔The next Decadeاس کتاب میں امریکی انتظامیہ کو یہی سمجھانے کی کوشش کی گئی ہے، تو یہ بات پاکستان کے مفاد میں ہے کہ اب انہیں پاکستان یاد آ رہا ہے۔ روس بیدار ہو گیا ہے‘ چین اور روس کا گٹھ جوڑ ہو گیا ہے۔ چین یہ بات کہہ چکا ہے کہ پاکستان ہمارے لئے وہی حیثیت رکھتا ہے جو اسرائیل امریکہ کے لئے۔ تو روس اور چین اگر قریب آئیں گے تو لازم ہے کہ پاکستان سے بھی قربت بڑھے گی۔

ایکسپریس : تو کیا اب کشمیر ے معاملے میں روس زیادہ سے زیادہ حقیقت پسندانہ اور مبنی برحق رویہ اختیار کرے گا؟
حمید گل:بالکل کرے گا‘ یہ لازم ہے‘ اگر چین کا ایک رویہ ہے کہ وہ بھارتی جرنیل کو اس لئے ویزا نہیں دیتے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں تعینات رہا ہے تو روس پر بھی اس کا اثر ہوگا۔ کشمیر پر چین کا رویہ انتہائی سخت ہے کیونکہ وہ اس معاملے کا ایک فریق ہے۔ 14 ہزار مربع کلو میٹر رقبہ چین کے قبضے میں ہے اکسائی چن کا۔ تو جب ہم پاک بھارت تعلقات کی بات کرتے ہیں تو چین کو نظر انداز کر جاتے ہیں حالانکہ وہ بھی اس معاملے کا حصہ ہے۔

ایکسپریس: کشمیر کے تنازع میں کشمیریوں کی کمزوری اور یکسوئی کے نہ ہونے کی بات کی جاتی ہے یعنی کشمیر کے اندر سے ہماری کوششوں کا مطلوبہ جواب نہیں آتا۔ جیسا آپریشن جبرالٹر میں ہوا۔
حمید گل: آپریشن جبرالٹر آپ نے کھل کر کیوں نہیں کیا تھا۔ آپ نے وہاں لوگ بھیج دیئے۔ بتایا نہیں، انہیں تیار نہیں کیا، 1831 میں ایک واقعہ ہوا تھا کہ قدیر نامی ایک پٹھان تھا۔ وہ راجہ کے دربار میں ملازم تھا۔ اس نے مسجد میں جاکر ایک تقریر کی اور پھر دیوار پر کھڑے ہوکر اذان دی۔ ڈوگرا فوج نے اسے گولی ماردی۔ اس موقع پر 22 لوگ مارے گئے کیونکہ ایک کے بعد ایک کھڑا ہوجاتا تھا۔ وہاں سے ایک تحریک چلی لیکن کشمیری اس وقت ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ اب جب وادی کے کشمیری تیار نہیں تھے لیکن پونچھ جاگیر کے کشمیری تیار تھے۔ یہ دو الگ کلچر ہیں۔ سُدھن بڑے لڑاکے لوگ ہیں۔ انہوں نے بغاوت کردی۔ ملوخان اور سبز علی خان کی کھالیں کھینچاوا دی گئیں۔ لوگوں کو گرفتار کرلیا گیا اور 15 ہزار تو صرف عورتیں پکڑ کر لے گئے۔ انگریز کی اس میں ایما شامل تھی۔ سدھن بغاوت ہوئی تو وادی بالکل خاموش رہی بعد میں جب وادی میں جہاد شروع ہوا تو بدقسمتی سے پونچھ جاگیر خاموش رہی۔

ایکسپریس: ہمیں اس معاملے میں کیا کرنا چاہیے؟
حمید گل: ہمیں یہ کرنا چاہیے کہ سب سے پہلے آپ آزاد کشمیر کو مکمل آزاد کردیں۔ آئین میں پہلے ہی آزاد کشمیر اور جو بھی مزید علاقے آزاد ہوں گے ان کی ذمہ داری ریاست پاکستان پر ہے، کارگل کے معاملے میں بھی یہی اصول اپنایا جانا چاہیے تھا۔ آزاد کشمیر کے اندر تمام آپ کی جو قومی سیاسی جماعتیں ہیں انہیں ختم کریں۔ وہاں پر ایک لبریشن کونسل ہونی چاہیے جو اس علاقے کی ذمہ دار ہو، وہاں کسی سیاسی جماعت کی ضرورت نہیں۔ پھر وہ ایک بیس بنے گا اور وہاں لوگوں کا یہ حق ہوگا کہ وہ اپنے علاقوں کو آزاد کرنے کی جدوجہد کریں۔

ایکسپریس: موجودہ حکومت کا مستقبل کیا دیکھتے ہیں؟
حمید گل:مجھے تو اس حکومت کا مستقبل کوئی اچھا نظر نہیں آتا۔ اگر فوج کے خلاف بغض کا مظاہرہ ہوتا ہے تو اس سے صورتحا ل خراب ہوتی۔ ہمارے حکمران ہر چیز کو اپنی جیب کی گھڑی اور ہاتھ کی چھڑی بنانا چاہتے ہیں۔ ایک ہی ادارہ ہے فوج کا جس کی Crdibility ہے۔ پولیس کا یہ حال ہے کہ گلو بٹ حملہ کرتا ہے تو وہ کھڑے تماشہ دیکھتے ہیں۔ ماڈل ٹاؤن میں لوگوں کو گھیر کر 14بندے مار دیئے۔ اپوئنٹمنٹ لیٹر جو ہوتا ہے وہ آپ کا تقرر نامہ ہوتا ہے کہ مثال کے طور پر آپ کو ایڈیٹر بنا دیا جاتا ہے لیکن آپ کی پروموشن اور انکریمنٹ آپ کی کارکردگی پر ہوگی۔اسی طرح حکومت کا ایک مینڈیٹ ہوتا ہے جسے ٹیکنیکل مینڈیٹ کہتے ہیں۔ دوسرا ہوتا ہے اخلاقی مینڈیٹ، کہ اخلاقی اقدار ا ور سیاسی اخلاقیات کے اعتبار سے آپ کی حکومت کیسی جارہی ہے۔ ٹیکنیکل مینڈیٹ پہلے ہی مشکوک ہوچکا اور اخلاقی مینڈیٹ کا اب جنازہ نکل گیا ہے۔

ایکسپریس: پاکستانی فوج کی تاریخ دیکھیں تو خسارہ ہی خسارہ نظر آتا ہے۔ میدان جنگ میں کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیں کی گئی۔ مشرقی پاکستان میں شکست ہوئی،65ء کی جنگ برابر رہی،سیاچن میں بہت بڑا علاقہ کھو دیا۔ اس کے بارے میں آپ کے کیا جذبات ہیں؟
حمید گل: یہ ایک حقیقت ہے کہ جنرلز کی سطح پر ہم ناکام رہے ہیں اور اگر کوئی جنرل کامیاب ہوا ہے تو اسے آپ نے ذلیل کرکے رکھ دیا ہے۔ فوج کی کارکردگی کا ایک معیار ہوتا ہے اور وہ ہے فتوحات۔ یہ ہمارے لیے فوجی سطح پر ا یک بڑا نفسیاتی صدمہ ہے اور اُس کے اثرات یہ ہیں کہ فوج کے اندر رسمی چیزوں کی بہتات ہوگئی ہے جس پر مجھے بڑا دکھ ہوتا ہے۔ جب میں نے فرسٹ آرمرڈ ڈویژن کی کمان سنبھالی تو بہت ڈیپریشن تھا ۔

1971ء کی شکست کی وجہ سے تو بہت سی رسمی باتیں اہمیت اختیار کرگئی تھیں۔ سرخ رنگ کے پٹے پہننے شروع کردیئے اور آگے پیچھے بلے لگا کر وردیوں کی سجاوٹ وغیرہ۔یہ چیزیں شکست کا انتقام نہیں ہوتیں اور فتح کا نعم البدل نہیں بن سکتیں۔ تو میں نے جاکر یہ سب چیزیں ختم کرا دیں تھیں۔ شہاب الدین غوری جب پانی پت سے شکست کھا کر گیا تو اُس نے اپنے جرنیلوں کے منہ پر تو برے چڑھا دیئے اور خود وہ اُس وقت تک زمین پر سوتا رہا جب تک اُس نے بدلہ نہیں لے لیا۔میں یہ یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اب ہم اس کیفیت میں ضرور ہیں کہ سینوں میں لگا ہوا داغ تازہ ہے، اسی سے بھارت ڈرتا بھی ہے۔
۔۔۔

قائداعظم ؒ کا تصورِ ریاست 

جمہوری نظام میں اقتدار اعلیٰ پارلیمٹ کے پاس ہے اور وہی قانون سازی کرتی ہے۔ اس کے اوپر میں قائداعظم کا ایک حوالہ دے سکتا ہوں کہ جب عثمانیہ یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے، مارچ 1941ء کے ’’ انقلابِ لاہور‘‘ میں یہ بات چھپی ہوئی ہے۔ میں نے خود بڑی ریسرچ کر کے اس حوالے کو نکالا تھا۔ قائداعظم سے پوچھا تھا:”quied! what is an lslamic state,How does it differs from a secular state?” یعنی اسلامی ریاست سے آپ کی کیا مراد ہے‘ اور یہ ایک سیکولر ریاست سے کس طرح مختلف ہو گی؟ بہت اچھا سوال کیا اس نے۔

قائدفرماتے ہیں کہ ’’اسلامی ریاست کا طرۂ امتیاز یہ ہوتا ہے کہ اس میں اللہ کی حکمرانی کا نفاذ کیا جاتا ہے‘‘ نہ تو کوئی ڈکٹیٹر ‘ نہ کوئی شہنشاہ اور نہ کوئی پارلیمنٹ اس بات کا اختیار رکھتی ہے کہ اس سے ہٹ کر کوئی بات کرے۔ آج بھی اگر یہ سوال اٹھے کہ ایک اسلامی ریاست دیگر ریاستوں سے کس طرح الگ ہے تو اسے پوری تفصیلات کے ساتھ بیان کیا جا سکتا ہے۔ اگر آپ بھی اینگلوسیکسن قانون کے تحت ہیں۔ آپ بھی سودی معیشت پر انحصار کرتے ہیں‘ آپ کا نظام تعلیم بھی یکساں نہیں ہے‘ آپ کی صحت کی سہولتوں میں بھی امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے اور آپ کا نظام عدل بھی امتیازی ہے تو مجھے بتائیں پھر کیسے فرق ہو گا۔

داعش کی حقیقت
داعش کا ایک تاریخی پس منظر ہے، جس کے لئے ہمیں اٹھارویں صدی میں جانا پڑے گا۔ شیخ عبدالوہاب صاحب نے purity in islam کا تصور دیا اور بالآخر وہ بڑھتے بڑھتے شیخ عبدالوہاب کے نام سے وہابی ازم کہلایا۔ وہابی ازم کو سعودی عرب نے اختیار کیا۔ ان کا ایک معاہدہ ہوا، ان کی ایک سیاسی تنظیم بنی جس کا نام الاخوان تھا، جو ہاؤس آف سعود کی تھی، انہوں نے کہا جناب مذہبی معاملات ہم دیکھیں گے اور سیاسی معاملات آپ دیکھیں گے، اس کے بعد انہوں نے یعنی ہاؤس آف سعود نے بار بار بادشاہت کو خط لکھے کہ آپ راستے سے بھٹک چکے ہیں، آپ نے مغرب کو اپنے اوپر سوار کر لیا ہے۔ داعش والوں نے کہا کہ تمہارے ہاں تو بادشاہ کا ہی حکم چل رہا ہے اور جو تم نے ہم سے معاہدہ کیا تھا اس پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ عرب تیل کی دولت ہاتھ آ جانے کے باعث بہت امیر ہوچکے تھے اسی لئے یہ معاہدے سے منحرف ہوناشروع ہو گئے۔

آگے چل کر وہ اتنے خفا ہوئے کہ ان کے اندر ایک گروپ پیدا ہو گیا جس کا سربراہ یمیاالعتیبی تھا‘ اس گروہ نے 1979ء میں کعبہ شریف پر قبضہ کر لیا‘ یہ جو شدت نظر آتی ہے یہ انہی لوگوں میں ہے‘ یہ گلے کاٹنا وغیرہ۔ ہم سفاک لوگ نہیں ہیں یہ عرب کے شدت پسند لوگ ہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی گئی۔ جب وہ لوگ بوسنیا میں پہنچے تو وہاں پر نسلی بنیادوں پر جو ظلم کیا گیا تھا کہ عورتوں کے پیٹ چاک کر کے بچے نکال دیئے تھے تو وہاں کی عوتوں کو لے کر آئے‘ جن لوگوں نے یہ ظلم کیا تھا عورتوں سے کہا کہ ان کے گلے پر چھری پھیرو اور وہ بیچاری کانپ رہی ہیں۔ یہ سلسلہ بڑھتاچلا گیا۔

داعش کا اصل خطرہ تو ہے سعودی عرب کے لئے۔ داعش نے کچھ اسلام کی تشریحات کر رکھی ہیں کہ تم کو جہاں بھی کافر ملے یا مرتد ملے اسے ختم کر دو۔ یہ تکفیری کہلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ مرتد کو کافر سے پہلے ختم کرو کیونکہ یہ ساتھ منافق بھی ہے۔ آپ اس طرح سے نہیں کر سکتے کیونکہ جب ایک خلا پیدا ہوتا ہے تو اسے آپ لُو سے بھی بھر سکتے ہیں اور نسیم صبا سے بھی پُر کر سکتے ہیں۔ ہوا یہ کہ ایک طرح کی لُو چل پڑی اور آپ حیرت زدہ ہوں گے کہ پاکستان میں اس کا اثر نہیں ہے۔ کیونکہ یہاں مُلا عمر اور اس کے طالبان کا اثر ہے۔ یہ برکت ہے اس جہاد کی کہ یہاں پر داعش کا وجود نہیں ہے۔ وہ داعش ہو یا طالبان سب کا حل پاکستان کے پاس ہے اور میں تو یہ کہوں گا کہ اس وقت پاکستان ہی ہے جو دنیا کو محفوظ بنا سکتا ہے۔ مسلم معاشروں میں جو شدت آ گئی ہے اسے روکنے میں پاکستان ہی مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔