نام کیا رکھیں۔۔۔؟

نادیہ فاطمہ  پير 15 دسمبر 2014
شناخت کا ذریعہ ہماری شخصیت کا اہم جزو ہے۔ فوٹو: فائل

شناخت کا ذریعہ ہماری شخصیت کا اہم جزو ہے۔ فوٹو: فائل

ہمارے نام ہماری پہچان اور شخصیت کے عکاس ہوتے ہیں۔ ہر انسان کے لیے اس کا نام بہت اہم ہوتا ہے اور ہر کوئی اپنے نام سے بہت پیار کرتا ہے۔ اپنے نام کو مشہور کرنا چاہتا ہے۔ اسے شہرت دینا چاہتا ہے۔۔۔

اس بات کی خواہش رکھتا ہے کہ ہر جگہ اس کا نام جانا جائے اور اس کے نام کو پسند کیا جائے۔ درحقیقت یہ نام اس کی شخصیت اس کی ہستی کا آئینہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھر میں نئے مہمان کی آمد سے پہلے ہی اس کے نام سوچے جانے لگتے ہیں اور دنیا میں آتے ہی فوراً اس کا نام رکھ دیا جاتا ہے۔ ایک ایسا پیارا اور پُرکشش نام جو اس کے معصوم چہرے اور خوب صورتی کی عکاسی کر سکے۔

یہ حقیقت ہے کہ نوزائیدہ بچے کا نام اس کی آگے بننے والی شخصیت میں بہت اہم کردار ادا کرتا ہے، لہٰذا بچے کا نام کافی سوچ سمجھ کر رکھنا چاہیے، تاکہ وہ نام اس کی شخصیت کو پر اثر و پُرکشش بنانے میں مثبت کردار ادا کر سکے۔ اس لیے نام بامعنی ہی نہیں بلکہ اچھے معنوں کا حامل ہونا چاہیے۔

آج کے والدین اپنے بچوں کے نام ایسے رکھنا چاہتے ہیں، جو جدید اور منفرد ہو۔ اس چکر میں اپنے بچوں کے نام ایسے رکھ لیتے ہیں، جن کے کوئی بھی مطلب نہیں ہوتے اور اگر مطلب ہوتے بھی ہیں تو بہت غلط و خوف ناک جن کے اثرات بچوں کی شخصیت پر بہت منفی پڑتے ہیں۔ اس غلطی کا احساس انہیں بہت دیر میں ہوتا ہے۔ بعض والدین کسی کے کہنے پر یا خود سے اپنے بچوں کے نام ایسے رکھ لیتے ہیں، جو اسلامی نہیں ہوتے، لہٰذا ایسے ناموں سے گریز کرنا چاہیے۔

ہمارے بچے جب چھوٹے ہوتے ہیں، تو پیار میں ہم انھیں گڑیا، بے بی، منا، ننھا یا نام سے ملتی جلتی کسی عرفیت سے پکارتے ہیں۔ بچے اچھے خاصے بڑے ہو جاتے ہیں، اسکول جانے لگتے ہیں، مگر اپنے اصل نام سے پکارنے کے بہ جائے انہیں اسی عرفیت سے  مخاطب کیا جاتا ہے، جو کہ درست نہیں ہے۔ بچے کو اس کے اصل نام سے پکارا جاتا ہے، تو اس نام کے اثرات بچے پر پڑتے ہیں۔ اسی طرح بعض گھرانوں میں بچوں کی کوئی عرفیت (Nickname) رکھ لی جاتی ہے۔

یہاں تک کہ زندگی کا آدھا حصہ وہ اپنی اسی عرفیت کے ساتھ گزار لیتے ہیں۔ بعد میں جب ان بچوں کی شادی کے دعوت نامے آتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ راجو کا اصل نام در اصل رمیز، ہنی کا نام ہانیہ اور عالی کا علیشبہ ہے وغیرہ۔ اسی طرح اکثر بچوں کے اتنے خوب صورت اور اچھے ناموں کو مختصر کرنے کے چکر میں بگاڑ دیا جاتا ہے جیسے فاطمہ کو فاطمی، شاہ زین کو شجی، نعمان کو نومی اور عابدہ کو عابی وغیرہ۔

اکثر بچوں کے نام ایک سے زائد ہوتے ہیں۔ کبھی ددھیال والے کوئی نام رکھتے ہیں، جو ننھیال والوں کو پسند نہیں آتا یا پھر وہ اپنی پسند کا نام رکھنا چاہتے ہیں، تو ایک بچہ ایک سے زائد ناموں سے پکارا جانے لگتا ہے۔ ایک صاحبہ کو ان کے ددھیال میں طاسین کہا جاتا ہے جب کہ ننھیال والے انھیں تسکین کہہ کر مخاطب کرتے ہیں اور شناختی کارڈ اور تعلیمی اسناد میں ان کا نام ’’یاسمین‘‘ درج ہے وہ بیک وقت تین ناموں سے جانی اور پکاری جاتی ہیں۔

بسا اوقات یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ وہ افراد جو اپنے پیدائشی ناموں کے ساتھ آدھی زندگیاں گزارچکے ہوتے ہیں، انہیں بہت دیر بعد وہ یہ سوچتے ہیں کہ ان کا نام ان کی شخصیت پر بھاری پڑ رہا ہے یا وہ نام ان کو راس نہیں آرہا ہے، لہٰذا پھر وہ تبدیلی نام کا اشتہار دیتے ہیں، پھر بہت سے معاملات میں انہیں اپنا نام تبدیل کرنے کی بدولت پریشانی اٹھانی پڑتی ہے۔

ہمارے یہاں ایک طرف تو منفرد اور اچھوتا نام رکھنے کے چکر میں بالکل بے معنی نام رکھ لیا جاتا ہے، جب کہ دوسری  جانب والدین اپنے بچوں کا انتہائی متبرک اور مذہبی شخصیات پر نام رکھ لیتے ہیں۔ جیسے محمد، مصطفی، خدیجہ، عائشہ، فاطمہ اور زینب  وغیرہ۔ اگر آپ اپنے بچوں کا اتنا معتبر نام رکھ رہے ہیں، تو ان ناموں کا احترام آپ پر لازم ہے، کیوں کہ اکثر اوقات ہم غصے میں یا تنگ آکر اپنے بچوں کے ناموں کے ساتھ نا مناسب القابات لگالیتے ہیں۔

ایسے ناموں کا احترام واجب ہے، لہٰذا ایسی نوعیت کے نام اگر آپ اپنے بچوں کا رکھ رہے ہیں، تو ان کا بھرپور احترام کیجیے یا پھر انہیں رکھنے سے گریز کریں تاکہ ان کی حرمت کو برقرار رکھا جا سکے۔ بعض گھرانوں میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ وہ اپنے بزرگوں کے نام بچوں کے رکھ لیتے ہیں، تاکہ ان کے دادا، پردادا کا نام چل سکے۔

مختلف گھرانوں میں نام رکھنے کے لیے مختلف روایات بھی چلی آرہی ہیں، جس میں بعض گھرانے علما حضرات کی رائے لیتے ہیں، بعض دیگر لوگ اپنے اپنے عقائد کے مطابق مختلف مذہبی شخصیات یا ان کے بتائے ہوئے طریقوں سے استفادہ کرتے ہیں۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ نام شخصیت کی تشکیل میں ہی نہیں، بلکہ ہماری آنے والی زندگی میں بھی بہت زیادہ اہم کردار ادا کرتے ہیں، لہٰذا ہمیشہ نام سوچ سمجھ کر اور اس کے مفہوم جان کر رکھنے چاہئیں، دو نام والے بچے بعض اوقات دُہری شخصیت میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔

ان کے دونوں نام ان کی شخصیت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ اسی طرح بچے کا نام بگاڑنے، اسے مختصر کرنے سے بھی گریز کیجیے۔ اگر کوئی دوسرا آپ کے بچے کا نام مختصر کر رہا ہے یا بگاڑ کر ادا کر رہا ہے، تو اسے ایسا کرنے سے روکیے۔ بچوں کا نام رکھتے وقت ذمے داری کا مظاہرہ کیجیے، کیوں کہ یہ نام ہی آپ کے بچے کی شخصیت کا آئینہ دار ہوگا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔