(پاکستان ایک نظر میں) - میاں صاحب اب آپکی باری ہے ۔۔۔

محمد عثمان فاروق  جمعرات 18 دسمبر 2014
میاں صاحب آپکے پاس ایک سنہری موقع ہے۔ ایک غیر جانبدارانہ جوڈیشل کمیشن بنوا کر ہمیشہ کیلیے ‘‘گونوازگو’’ سے جان چھڑواسکتے ہیں۔ پھر یہ کمیشن جو بھی فیصلہ کرے اُسے من وعن قبول کریں، یہی آپ کی اصل جیت ہوگی۔ فوٹو: فائل

میاں صاحب آپکے پاس ایک سنہری موقع ہے۔ ایک غیر جانبدارانہ جوڈیشل کمیشن بنوا کر ہمیشہ کیلیے ‘‘گونوازگو’’ سے جان چھڑواسکتے ہیں۔ پھر یہ کمیشن جو بھی فیصلہ کرے اُسے من وعن قبول کریں، یہی آپ کی اصل جیت ہوگی۔ فوٹو: فائل

جی ہاں ۔۔۔عمران خان سے جو بھی اختلاف ہو ، بہرحال اُنہوں نے اس اہم وقت میں دھرنا ختم کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ سیاست، قومی یکجہتی سے ہر گز برتر نہیں ۔۔۔۔

پرامن دھرنوں سے شروع ہونے والا یہ سفر شہر شہر ہڑتالوں توڑ پھوڑ اور جلاو گھیراو میں تبدیل ہو رہا تھا کہ اچانک پشاور کا سانحہ  رونما ہوگیا ۔پوری قوم کا کلیجہ جیسے پگل ہی گیا ہو۔ جنازوں پر پھول تو دیکھنے کو مل ہی جاتے ہیں مگر پھولوں کے جنازے دیکھنے کا اتفاق  کم ہی ہوتا ہے ۔اس سانحے سے مثبت پہلو یہ نکلا کہ بچے قربانی دے کر قوم کو متحد کرگئے اور ایک دوسرے کے شدید سیاسی حریف ہاتھ ملانے پر مجبور ہو گئے ۔

عمران خان نے اپنے سیاسی کیرئیر کا سب کچھ اس دھرنے پر لگا دیا تھا لیکن اسکے باوجود جب حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ دھرنے کا جاری رکھنا ملک کے لیے خطرناک بن سکتا تھا ۔  اور پھر عمران خان نے نیا  ’’شیخ مجیب الرحمان ‘‘ بننے کی بجائے پرانا  ’’عمران خان ‘‘ بننے کا فیصلہ کیا اور دھرنے سے پیچھے ہٹ گئے۔

نون لیگ کے ایک وفاقی وزیر احسن اقبال نے ایک بار بیان دیا تھا کہ اگر عمران خان ہماری طرف ایک قدم بڑھائیں گے  تو ہم دو قدم بڑھائیں گے ۔۔۔۔ تو بس  جناب وزیراعظم صاحب عمران خان نے قدم بڑھا دیا  ہے اب آپکو بھی  قدم بڑھانے ہوں گے۔جناب وزیراعظم صاحب بد سے زیادہ بدنام برا ہوتا ہے اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف پاکستانیوں کی ایک بہت بڑی تعداد کو یقین دلانے میں کامیاب ہو چکی ہے کہ انتخابات  میں دھاندلی ہوئی تھی  اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج آپکا کا  عوام  میں کھلے عام خطاب کرنا  بھی مشکل ہو چکا ہے کیونکہ بالفرض ہزار آدمی بھی خاموشی سے آپکو سن رہے ہوں لیکن ایک آدمی بھی گو نواز گو کا نعرہ لگا دے تویہ میڈیا کے لیے بریکنگ نیوز بن جاتی ہے ۔

اِس لیے وزیراعظم صاحب اب آپکے پاس  ایک سنہری موقع ہے کہ آپ ایک غیر جانبدارانہ جوڈیشل  کمیشن بنوا کر ہمیشہ کے لیے ’’گونواز گو ‘‘ سے جان چھڑالیں ۔ پھر  یہ کمیشن جو بھی فیصلہ کرے گا اسے من وعن قبول کریں ۔ اگر دھاندلی ثابت نہیں ہوئی تو آپ کی جیت ہوگی ۔۔۔۔ لیکن اگر دھاندلی ثابت ہوبھی جاتی تو ہے آپ کی شکست ہر گز نہیں ہوگی کہ لوگ آپ کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے ۔۔۔۔  پھر آپ اگلے انتخابات کا اعلان کرکے دوبارہ عوام میں جانے کی تیارے کریں ۔

میاں صاحب قوم آپ کوایک ’’بڑے‘‘ کے طور پر دیکھتی ہے کیونکہ آپ تیسری بار وزیراعظم بنے ہیں ۔ آپ کا ایک طویل سیاسی تجربہ ہے۔ آپکا دھیما لہجہ اور ٹھنڈا مزاج آپکی سیاسی بلوغت کی نشانی ہے ۔ آپ بڑے سے بڑا مسئلہ مذاکرات کے ذیعے حل کرنے یقین رکھتے تو پھر عمران خان کے معاملے میں بات چیت سے گریز کیوں؟عمران خان اپنا قدم آپکی طرف بڑھا کر اپنا سیاسی قد بڑھا چکے ہیں لیکن اگر آپ کی طرف سے کوئی جواب نہیں آتا ہے تو  قوم یہ سمجھنے میں حق بجانب ہوگی کہ دال میں کچھ کالا ہے اور آ پ وہ کالا چھپانے کے لیے بضد ہیں ۔

اور ایسا ہوا تو پھر اگلی بار آپکے پاس صفائی دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ہوگا کیونکہ عمران خان کے پاس ایک مضبوط جواز ہوگا کہ دیکھیں ہم نے تو قدم بڑھا تھا ۔ ہم نے تو اپنی انا کو بالائے طاق رکھا تھا ۔ ہم نے تو ہاتھ ملایا تھا ۔ لیکن ہمیں مثبت جواب ہی نہیں ملا اب ہمارا  حق ہے کہ ہم پورا ملک جام کردیں ۔ہم ہڑتالیں کریں گے اور سب جانتے ہیں پھر ایسے حالات میں حکومت کا چلنا مشکل ہوجاتا ہے ۔ اور ایسے حالات میں یا تو بیرونی دشمن حملہ آور ہوتے ہیں جیساکہ 1971 میں مشرقی پاکستان میں ہوا یا پھر مارشل لا لگتے ہیں جیساکہ 1977 میں ہوا ۔

سیاست اور اقتدار جذبات، انا سے زیادہ عقل وفہم اور مثبت طرز عمل کا نام ہوتا ہے۔ سیاست اور جنگ میں یہی فرق ہوتا ہے کہ جنگ میں جھکنا انسان کی شکست کی علامت ہوتا ہے جبکہ سیاست میں جھکنا انسان کو فتح کے قریب کرتا چلا جاتا ہے۔

جناب وزیراعظم صاحب ایک مدت گزر گئی پاکستانی عوام سکھ کا سانس لینا بھول چکے ہیں۔  غربت ،مہنگائی،  لوڈ شیڈنگ،  ہڑتال،  دھماکوں اور  سانحات نے قوم کو نچوڑ لیا ہے۔  ایسے حالات میں اگر آپ تھوڑا سا بھی اچھا کام کرجاتے ہیں اور ملک کو صحیح پٹری پرڈال جاتے ہیں تو یہ قوم آپکو ہمیشہ یاد رکھے گی ۔ اگر آپ ایسا کرنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر ’گو نواز گو‘ کی جگہ قوم آپ کو اچھے نام سے یاد رکھے گی ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

عثمان فاروق

محمد عثمان فاروق

بلاگر قومی اور بین الااقوامی سیاسی اور دفاعی صورت حال پر خاصی گہری نظر رکھتے ہیں۔ سائنس فکشن انکا پسندیدہ موضوع ہے۔ آپ ان سے فیس بک پر usmanfarooq54 اور ٹوئیٹر پر @usmanfarooq54 پر رابطہ کرسکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔