مسافتیں (آخری حصہ)

منظور ملاح  جمعرات 18 دسمبر 2014

یہاں اہل اقتدار امیر اور عوام غریب ۔ پھر اور شمال میں منڈالے شہر ، ٹوٹی سڑکیں، بے ترتیب گلیاں ، اسٹریٹ لائٹیں گم۔ پھر واپس سری لنکا سے آگے بینکاک، جہاں ویتنام جنگ کے دوران امریکی فوجی ٹھہرے تھے ۔ نمی اور ٹریفک میں گھرا ہوا،مندروں اورچاؤ پھریا دیا کے میلے پانی والا شہر ، جہاں لاکھوں سیاح گھومنے آتے ہیں۔ پھر ٹرین کا مسافر پال تھیرو ، پرندوں کی بولیاں،بھونکتے ہوئے کتے، دھول اڑاتے روڈ،آموں کے درخت اورپال تھیرو کا قلم ، نئی کہانی ’’ دی گیٹ وے آ ف انڈیا ‘‘ کوالالمپور سے ہوتا ہوا سنگاپور پہنچا۔گلیوں میں گانوں کی آوازیں، شراب خانے،کلب، مساج پارلر،چمکتا ہوا شہر ، جس میں جرمن اوراربوں کے ڈیرے ۔

جس پر حکومت کا اختیار صرف لی خاندان کو ۔ یہ ملک نیویارک شہر سے بھی چھوٹا ، 1960 میں کانارڈ یہاں آئے اور اسی پر ایک کہانی ’’ دی اینڈ آف تھیٹر‘‘ لکھی ، اسی شہر پر 1972 میں پال تھیرو نے ناول ’’سینٹ جیک‘‘  لکھا، 1978 میں پیٹر بگدونوچ نے ہالی ووڈ میں فلم بھی بنائی۔ اگلا سفر کمبوڈیا کا ، جہاں کے دیہاتی علاقوں کے بھی پتلے حال ، جس پر فلپ شارٹ نے شاندار کتاب ’’ پال پاٹ… اینا ٹومی آف اے نائٹ میئر‘‘ لکھی ۔

جس کی حالیہ تاریخ انسانی خون سے بھری پڑی ہے ، اتنی بڑی ٹریجڈی کے باوجود ان کے فقیروں کا بھی شائستہ انداز ۔ شاہی محل ، مارکیٹ، تنلیسپ اور میکانگ ندیوں کا سنگم ۔ آگے ویتنام ، امریکا سے جنگ میں 20 لاکھ شہریوں اور 10 لاکھ فوجیوں کی اموات اور تباہی کے بعد بھی اپنے پاؤں پرکھڑا ملک ، راک کے ڈھیر سے دوبارہ جنم لینے والا یہ ملک،جہاں مایوسی کے بجائے مضبوط ارادوں کے مالک لوگ، ہوچی منہ کے ان مزاحمتی لفظوں کے ساتھ ’’ ایک شاعر کو بھی پتا ہونا چاہیے کہ جنگ میں رہنمائی کیسے کرنی چاہیے۔‘‘ اور ایک ویتنامی سپاہی کا ناول پال تھیرو کے ہاتھوں میں ’’ دی سارو آف دی وار ۔‘‘ پھر پاؤں پر زور،چین کی آلودہ آبہوا سے جان چھڑاتے ہوئے جاپان کی طرف پیش قدمی ، ٹوکیو، شہر سے زیادہ مشین ، شائستہ لوگ، ہرکوئی اپنے کام میں مگن ،اس ملک میں صرف ایک ہی خوف زیر زمین انفرا اسٹریکچر میں جرائم ، دہشتگردی اور زلزلے کا خطرہ ، کیونکہ زیادہ تر زندگی زیر زمین چلتی ہے ۔

اس پر دنیائے ادب کے بڑے جاپانی نام ہاروکی مراکامی نے اپنی کتاب ’’ انڈر گراؤنڈ‘‘  میں بیان کیا ہے ۔ پال تھیرو بھی 29 مراتھن ریس دوڑنے والے اسی ہارو کی مراکامی سے ملاقات کرنے پہنچے ۔مراکامی امریکی یونیورسٹیز میں پڑھانے کے ساتھ امریکن اور رشین رائٹرز کا ترجمہ بھی کیا ہے اور آج کل شاندار افسانے بھی لکھتے ہیں ، جن سے ادب اور دوسری جنگ عظیم نے جاپان کی تباہی ، دوبارہ پاؤں پر کھڑا ہونے پر تبادلہ خیال کیا۔ پھر ساحلی شہر وکنائی ، سائیبریاکی ٹھنڈی ہوائیں ،’’ گلوبل سول‘‘  لکھنے والے پیکو سے ملاقات ، گراہم گرین کے افریقہ کے بارے میں لکھی ہوئی کتاب ’’لالیس روڈس‘‘ کا ذکر اور سن باتھنگ کا نظارہ۔

جاپان کے آخری شہر نگاتا سے جہاز پکڑا اور آدھی رات کی ٹھنڈ میں مشرقی سائیبریا کے شہر ولادیوستک پہنچے ، جو ماسکو سے 6000 میل دور ہے اور ماسکو تک آٹھ ٹائم زون آتے ہیں ۔اس شہر میں سوویت بربریت کے نشانات جگہ جگہ موجود ، اب بھی غربت، موت اور سفید دھند میں گھرا ہوا شہر ۔ عظیم شاعر اوسپ مینڈلسٹام بھی یہیں کسی قریبی جیل میں فوت ہوئے تھے ، جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے اسٹالن کے ظلم وقہر پرطنزیہ شاعری کی تھی ۔ His fingers are fat as grubs, his cockroach whiskers leer, all we hear is the kremlin mountaineer, The murderer and peasant slayer.

نئے روس کا یہ شہر اب جوا خانوں ، مرسیڈیز کے ڈیلروں ، بحری عملے کو تفریح مہیا کرنیوالی لڑکیوں ، پھٹے ہوئے پرانے رسالے ہاتھ میں پکڑی ہوئی بوڑھی عورتوں سے بھرا ہوا تھا ۔ منجمد برف کے کنارے پور موجود لمبے کالے کوٹ ، لانگ بوٹ پہننے والے ٹھگوں اورگینگز کا شہر جہاں لیٹر بکس میں ڈالے گئے خطوط بھی گم ہو جاتے ہیں۔ پال تھیرو بھی گھوسٹ اور رومانٹک لکڑی کے پھٹے اور گندگی والی ٹرانس سائیبیرین ٹرین کے مسافر بنے ۔ ماسکو تک سات دنوں کا سفر ، ماسکو دور الاسکا نزدیک۔ راستے میں برف سے ڈھکے گھر ، برف پر دوڑنے والے بھیڑیوں جیسے کتے ، منجمد ندی سے گذرتی ہوئی بس ، لکڑی کے قدیم گھر ، جلا وطنی کا یہ خطہ ۔ چرنشوسک شہر، جہاں ادبی نقاد اور ناول نگار چرنشوسکی کو زار روس نے 1864 میں جلاوطن کر کے بھیجا تھا اور 25 سال یہاں قید میں رہے ۔

اس دوران انھوں نے ناول لکھا ’’ واٹ از ٹو بی ڈن ۔‘‘ بقول نوبو کوف اکثر روسی ادب سے آپ کو جیل کی لائبریری کی بو ملے گی۔ دنیا کی بڑی جھیل بیکل برف میں ڈھکی ہوئی ، سلادیانکا اسٹیشن، برف کے اولے ، مچھلی بیچنے والے سر پر ہیٹ پھولے ہوئے کوٹ سوکھے ہوئے کالے خشک چہرے ۔ یہاں پوسٹ آفس ، دکانیں نہ اسکول۔ پھر اوسمک اسٹیشن ، جہاں دوستو وسکی نے چار سال جیل میں گذارے اوراس قضیے کو اپنی کتاب ’’ دی ہاؤس آف دی ڈیڈ‘‘  میں بیان کیا ہے ۔ اگلا شہر بدنام زمانہ پرم ، جہاں بدترین ٹارچرسیل ’’ پرم 36  ‘‘ اب بھی موجود ہے ، چیخوف نے اپنے ناول ’’ تھری سسٹرز‘‘ پاسٹر ناک نے بھی ’’ ٹرین ٹو ارلز‘‘ میں اس کا ذکر کیا ہے ۔ ان ہی ٹارچر سیلز پر 27 سال قید میں رہنے والے ورلم شالا موف نے ’’ کولماٹیلز ‘‘ کتاب لکھی ہے ۔

یوں ماسکو سے ہوتے ہوئے منسک، وارسا، برلن ، پیرس، لندن اور پھر امریکا پہنچے۔ پال تھیرو کے سفر نامے کہ یہ موٹی کتاب پڑھنے سے ایسے لگے گا جیسے پڑھنے والا خود اس کے ساتھ سفر کر رہا ہو۔ اس کتاب میں کئی رنگ دیکھنے کو ملیں گے۔ مشرق میں جہاں بھی وہ گئے ایک ہی صدا سنی’’ مجھے امریکا لے چلو ‘‘ اس صدا کے پیچھے غربت چھپی ہوئی ہے اور غربت کو 100 عیب ہوتے ہیں۔ آخر میں کچھ سوچ کا سامان :

٭  سفر نامہ ادب کی کمزور ترین صنف ہے ، جس میں خوامخواہ کی شکایتیں ، ہاتھ کی گھڑی ہوئی باتیں، فضول بحث اور نرگسیت ہوتی ہے۔

٭  یادیں بھی ٹوٹی پھوٹی بھوت جیسی ریک گاڑیوں کی طرح ہوتی ہیں۔

٭  ناسٹلجیا تبدیلیوں کی محتاج ہوتی ہیں۔

٭  ہم سب کسی اور قسم کی تبدیلیوں کے خواب دیکھتے ہیں لیکن آنکھوں کے سامنے کچھ اور حقیقتیں ہوتی ہیں۔

٭  بڈاپسٹ میں ایک بندے نے بتایا کہ یورپین کمپنیاں آج کل ہنگری پر نظر رکھی ہوئی ہیں جہاں پڑھے لکھے لوگ سستی لیبر کی صورت میں ملتی ہیں۔

٭  کسی بھی ملک میں جسم فروشی اس قوم کے کلچر اور اندرونی زندگی کا عکس ہوتی ہے۔

٭  مشرق صرف مایوسی ، غربت اور ناکامیوں کی نمایندگی کرتا ہے۔

٭  ترکی کے اور ہان پاموک نے لکھا کہ میرے ملک میں صرف پاشا ، ان کے درویش اور پولیس والے ہی عزت سے رہتے ہیں ۔

٭ ان پڑھ لوگ حکومت کرنے کے لیے آسان ہوتے ہیں۔

٭ میں بڑے شہروں سے نفرت کرتا ہوں کیونکہ وہ مجھے سر چکرانے والے ، خطرناک ، ایک ہی جیسے اکیلے، تھکے ہوئے، جراثیموں سے بھرے ، خوفناک اور ادھوری خوشبو کی طرح لگتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔