اپنی زندگی آسان بنائیں

دکتور عبدالرحمن العریفی  ہفتہ 20 دسمبر 2014
دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو درگزر کرنے کا عادی بنانے کی کوشش کریں۔ مشکلات تلاش نہ کریں۔  فوٹو: فائل

دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو درگزر کرنے کا عادی بنانے کی کوشش کریں۔ مشکلات تلاش نہ کریں۔ فوٹو: فائل

ہسپتال سے چیک اپ کے بعد اس کی رپورٹ بتارہی تھی کہ وہ ذہنی دباؤ اور ذیابیطس جیسی دسیوں بیماریوں میں مبتلا ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ لوگوں میں کامل مثالیت (Idealism) تلاش کرنے کا عادی تھا۔ یوں اس بے چارے نے اپنے آپ کو المناک عذاب میں ڈال رکھا تھا۔

ہمیشہ بیوی سے تنگ رہتا، بات بات پر ٹوکتا۔

’’تم نے نئی پلیٹ توڑ دی،مہمان خانے کی صفائی نہیں ہوئی،استری کرتے ہوئے تم نے میرا نیا سوٹ جلا دیا۔‘‘

اولاد سے بھی اس کا یہی رویہ تھا: ’’خالد کو ابھی تک پہاڑا یاد نہیں ہو، سعد نے پہلی پوزیشن کیوں نہیں لی؟‘‘

یہ تھا اس کا گھر والوں سے طرز عمل۔

گھر کے باہر دوستوں اور رفقائے کار کے درمیان صورت حال اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ تھی۔

’’کل رات ابو احمد نے پرانی گاڑیوں کا ذکر چھیڑا تھا تو اس کا اشارہ میری گاڑی کی طرف تھا۔‘‘

شباب کی وادی میں قدم رکھنے والے ایک نوجوان نے اپنے شیخ سے التماس کیا کہ وہ رفیقۂ حیات کے انتخاب میں اس کی مدد کریں۔ شیخ نے دریافت کیا: ’’تمہارے خیال میں تمہاری بیوی کن صفات کی حامل ہونی چاہیے؟‘‘

نوجوان بولا: ’’دلکش چہرہ، سروقد، ساون کی گھٹاؤں کو شرماتے سیاہ نرم و ملائم اور گھنے بال۔ بدن گلاب۔ کھانا ایسا مزیدار پکائے کہ انگلیاں چاٹتے رہ جاؤ۔ بولے تو باتوں سے پھولوں کی خوشبو آئے، گویا میٹھے پانی کا چشمہ دھیرے دھیرے بہہ رہا ہے۔ دیکھوں تو آنکھوں کو بھائے۔ گھر سے جاؤں تو اپنی عزت اور میرے مال کی حفاظت کرے۔ میرا کہا مانے۔ میرا برا نہ چاہے۔ دین کے علم نے اس کی شخصیت کو رفعت بخشی ہو۔ عقل ایسی ہو کہ رشک کرنے کو جی چاہے۔‘‘

غرض کہ نوجوان نے عورتوں کی تمام مکمل صفات ایک عورت میں جمع کردیں۔ شیخ نے کہا:

’’بچے! تمہاری مطلوبہ شے میرے پاس ہے؟‘‘

نوجوان نے فوراً پوچھا: ’’کہاں؟‘‘

شیخ بولے: ’’اللہ کے حکم سے جنت میں، دنیا میں ایسی عورت کا وجود ناممکن ہے۔‘‘

دنیا میں رہتے ہوئے اپنے آپ کو درگزر کرنے کا عادی بنانے کی کوشش کریں۔ مشکلات تلاش نہ کریں۔ نبی کریمؐ کا طریقۂ زندگی بھی یہی تھا کہ آپؐ درگزر سے کام لیتے۔ ایسا بھی ہوتا کہ آپؐ صبح کے وقت سخت بھوک کی حالت میں گھر جاتے اور پوچھتے:

’’کیا کھانے کو کچھ ہے؟‘‘

گھر والے نفی میں جواب دیتے تو فرماتے: ’’تب میں روزے سے ہوں۔‘‘

آپؐ اس بات کی وجہ سے مشکلات کھڑی نہ کرتے، یہ نہ کہتے: ’’تم نے کھانا تیار کیوں نہ کیا؟‘‘

نہیں! صرف یہ کہہ کر بات ختم کردی: ’’تب میں روزے سے ہوں۔‘‘

عام لوگوں سے بھی رسول اللہؐ کے رحمدلانہ برتاؤ کا یہی حال تھا۔

ایک روز اصحاب کرام کے درمیان بیٹھے تھے۔ ایک خاتون چادر لیے آئیں اور عرض گزار ہوئیں ’’آپؐ کے لیے یہ چادر میں نے اپنے ہاتھوں سے بُنی ہے۔‘‘

رسول اللہؐ نے چادر لے لی۔ آپؐ کو اس کی واقعی ضرورت تھی۔ گھر گئے اور وہ چادر پہن کر باہر آئے۔

ایک آدمی بولا: ’’یا رسول اللہؐ! یہ چادر مجھے پہنا دیں۔‘‘

آپؐ نے کہا: ’’ضرور (پہنو)۔‘‘

فوراً گھر گئے، اسے اتار کر لپیٹا، پرانی چادر پہنی اور نئی چادر اس آدمی کی طرف بھیج دی۔

لوگوں نے اس سے کہا: ’’تم نے اچھا نہیں کیا۔ تم نے رسول اللہؐ سے وہی چادر مانگی جبکہ تم جانتے ہو کہ رسوال اللہؐ سوالی کو نہیں لوٹاتے۔‘‘

وہ کہنے لگا: ’’واللہ! میں نے یہ چادر صرف اس لیے مانگی ہے کہ جس دن مروں، یہ میرا کفن بنے۔‘‘

وہ آدمی فوت ہوا تو گھر والوں نے اسے اسی چادر میں کفن دیا۔

ایک دن رسول اللہؐ ام ہانیؓ کے ہاں آئے۔ آپؐ کو بھوک لگی تھی۔ پوچھا: ’’ہمارے کھانے کو کچھ ہے؟‘‘

وہ بولیں: ’’روٹی کے چند سوکھے ٹکڑے ہیں۔ آپؐ کو پیش کرتے ہوئے شرم آتی ہے۔‘‘

فرمایا: ’’وہی لے آئیں۔‘‘

ام ہانی رضی اللہ عنہا روٹی کے سوکھے ٹکڑے لائیں۔ انہیں پانی میں بھگودیا اور اوپر نمک چھڑک کر رسول اللہؐ کی خدمت میں پیش کیا۔ آپؐ کھانے لگے، پھر امّ ہانیؓ سے کہا: ’’کوئی سالن ہے؟‘‘

انہوں نے کہا: ’’یا رسول اللہؐ! تھوڑا سا سرکہ ہے۔‘‘

فرمایا:’’لائیں۔‘‘

وہ لائیں تو آپؐ نے اسے بھی کھانے پر انڈیل لیا۔ کھانا تناول کرنے کے بعد ’’الحمدللہ‘‘ پڑھا اور فرمایا: ’’سرکہ اچھا سالن ہے۔‘‘

جی ہاں! رسول اللہ ﷺزندگی جیسی بھی تھی گزارتے تھے۔ معاملات کو اسی طرح لیتے جس طرح وہ ہوتے تھے۔

پھر ہم لوگوں نے اپنے آپ کو مصیبت میں کیوں ڈال رکھا ہے۔ ہم ہر بات کا بتنگڑ کیوں بنالیتے ہیں؟

یہ ضروری تو نہیں کہ آپ کا ماحول اور اس میں رہنے والی ہر شے سو فیصد آپ کی مرضی کے مطابق ہی ہو۔ ایک عربی شعر ہے:

’’اگر تم کوئی عیب پاؤ تو یہ خلا پُر کردو۔ بلند و بالا ہے وہ ذات جس میں کوئی عیب نہیں۔‘‘

بعض لوگ خوامخواہ معاملات کو ان کے سائز سے زیادہ اہمیت دے کر اپنے اعصاب جلاتے رہتے ہیں۔ لوگوں کی وہ خطائیں جو آپ کی نظروں سے پوشیدہ ہیں، انہیں کرید کر نکالنے کی کوشش نہ کریں۔ دوسروں کے عذر قبول کرنے میں کشادہ دلی کا مظاہرہ کریں۔

رسول اللہ ﷺکو دیکھیے۔ ایک دن آپؐ نے منبر پر کھڑے ہوکر اتنی بلند آواز سے خطبہ دیا کہ عزت مآب خواتین کو ان کے گھروں میں سنائی دیا۔ آپؐ نے فرمایا:

’’اے لوگو جو زبان سے ایمان لائے ہو اور ان کے دلوں میں ایمان داخل نہیں ہوا، مسلمانوں کی غیبت نہ کیا کرو اور نہ ان کے عیب تلاش کیا کرو۔ جو اپنے بھائی کا عیب تلاش کرتا ہے، اللہ اس کا عیب تلاش کرتا ہے اور جس کے عیب کے درپے اللہ ہوجائے تو وہ اسے اس کے گھر میں ذلیل و رسوا کردیتا ہے۔‘‘

جی ہاں! غلطیوں کا شمار نہ کیجئے۔ لوگوں کے عیب تلاش نہ کریں۔ کشادہ دل بننے کی کوشش کریں۔ خاک اڑانے کی کوشش نہ کریں۔ وہ بیٹھی ہے تو اسے بیٹھا رہنے دیں، البتہ اگر خاک اڑنے لگے تو آستین سے ناک ڈھک لیں اور اپنی زندگی کا لطف اٹھائیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔