(پاکستان ایک نظر میں) - یہی وقت ہے

ضمیر آفاقی  ہفتہ 20 دسمبر 2014
جب تک نفرت پھیلانے والے مائنڈ سیٹ اور نصاب کو نہیں بدلا جاتا ، تب تک کسی تبدیلی کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ فوٹو اے ایف پی

جب تک نفرت پھیلانے والے مائنڈ سیٹ اور نصاب کو نہیں بدلا جاتا ، تب تک کسی تبدیلی کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی۔ فوٹو اے ایف پی

دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے حوالے سے آج پوری قومی اور سیاسی قیادت کا اتفاق پایا جاتا ہے۔ آج اچھے اور برے طالبان کی اصطلاح کو ختم کر کے دہشت گردوں کو ایک ہی لاٹھی سے ہانکا جارہا ہے، اور ساتھ ہی یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ دہشت گردوں کا آخری حد تک پیچھا کیا جائے گا۔ ایک طرف دہشت گردوں کو پھانسی دی جارہی ہے ،شہروں میں چن چن کر دہشت گردوں کو مارا جارہا تو دوسری جانب پشاور میں آرمی پبلک سکول میں دہشت گردوں کی جانب سے کئے حملے میں 140 کے قریب بے گناہ معصوم بچے شہید کر دیئےگئے ،جن کے دکھ نے وقتی طور پر ہی سہی پوری قوم کو متحد کر دیا ہے جبکہ سیاسی جماعتیں بھی ایک جگہ بیٹھی نظر آئیں اور دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کی باتیں بھی سامنے آرہی ہیں، ایسے موقع پر اسلام آباد میں انسدادِ دہشت گردی کی عدالت سے ممبئی حملہ سازش کیس میں ذکی الرحمان لکھوی کی درخواستِ ضمانت منظور ہونے اور بعد ازاں بین الاقوامی دباؤ پر دوبارہ حراست میں لیتے ہوئے اڈیالہ جیل میں ہی نظر بند کر دینے کے عمل کو قومی بصیر ت کے خلاف قرار دیا جارہا ہے۔

دہشت گردی کے امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگاروں کی جانب سے اس طرح کے واقعات جس میں اسلام آباد کی ایک مسجد کے خطیب کے داعش کے حق میں بیان اور حمایت ، شہید بچوں کے لئے مذمت کے الفاظ تک ادا نہ کرنا اور فوج کے بارے میں بھی اچھی رائے نہ رکھنے کے باوجود انہیں کھلی چھٹی دئیے رکھنا، یہاں تک کہ ان کے خلاف سول سوسائٹی کے احتجاج پر سول سوسائٹی کے افراد پر ہی مقدمے کا درج ہونا حکومت کی دوغلی پالیسی کا مظہر قرار دیا جارہا ہے ۔ اسلام آباد کی عدالت کے حکم کے بعد دنیا ہماری دہشت گردی کے خلاف جنگ کی پالیسی کو شک کی نگاہ سے دیکھ رہی ہے ۔

یہ سچ ہے کہ سانحہ پشاور کے بعد ملک بھر میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کے لیے سیاسی اتفاق رائے کو خوش آئند قرار دیا جارہا ہے،جس کی ضرورت بہت عرصہ سے محسوس کی جارہی تھی، لیکن چند دہشت گردوں کو پھانسی کے عمل کو بھی شک کی نگاہ سے اس لئے دیکھا جارہا ہے کہ جب دہشت گردوں کو عدالتیں ان کے جرم کے ثابت ہونے پر سزا کا مستحق قرار دے چکی ہیں تو پھر سب کو ہی پھانسی ہونی چاہیے نہ کہ ان میں کچھ سلیکٹ کر لئے جائیں اور باقیوں کے کیسوں کو ماضی کی طرح لٹکا دیا جائے۔ اس طرح کا عمل انصاف کی شفافیت پر سوالیہ نشان بن سکتا ہے جو حکومت کے خلافب ھی جا سکتا ہے ، جبکہ اس بات کا بھی خاص خیال رکھنا ضروری ہے کہ کہیں کوئی بے گناہ تحت پر نہ لٹک جائے۔

اس وقت جس بات پر سب سے زیادہ زور اور توجہ دینے کی ضرورت ہے وہ ہے دہشت گردی کی وجوہات اور ان کا خاتمہ۔ جب تک نفرت پھیلانے والے مائنڈ سیٹ اور نصاب کو نہیں بدلا جاتا ، تب تک کسی تبدیلی کی کوئی امید نہیں کی جاسکتی ۔ اس وقعے کے بعد سوسائٹی نے اگر خود کو بدلنے کا ’’ارادہ ‘‘ کر ہی لیا ہے تو پھر ہر ایک کو اپنے اپنے حصے کا گند صاف کرنا ہو گا، تمام طبقات فکر کو اپنے اندر انسانیت دشمن ’’گھس بیٹھیوں‘‘ کو نہ صرف نکال باہر کرنا ہو گا بلکہ ان کی معاش بھی بند کرنی ہو گی جسے کھا کھا کر وہ ہم پر ہی حملہ آور ہوتے آرہے ہیں۔ محض چند دہشت گردوں کو پھانسی دینے سے نہ تو ان گروہوں کو خوف زدہ کیا جاسکتا ہے اور نہ ہی انہیں دہشت گردکارروائیوں سے روکا جا سکتا ہے۔

یہ سچ ہے کہ دہشت گرد انسانیت کے دشمن ہیں جسے وہ بارہا ثابت بھی کر چکے ہیں بلکہ پشاور سانحے کے بعد تو ان کی سفاکیت کھل کر سامنے آچکی ہے ۔اس طرح کے دہشت گرد او ر ان کے حمایتی سب کے سب قابل گردن زنی ہیں، ان جیسے سفاک درندوں کے لئے رحم کا گوشہ رکھنے والا بھی انہی کا ساتھی قرار دیا جانا چاہے ،مگر اس کے ساتھ ساتھ حکومت ،افراد معاشرہ اور فوج کو اس سوچ کی پیدوار اور ان نرسریوں کے خاتمے کے لئے بھی کام کرنے کی فوری ضرورت ہے جہاں دہشت گرد تیار ہوتے ہیں ، جن نرسریوں میں ان کی آبیاری ہوتی ہے ۔

ریاست کو اگر اپنی رٹ برقرا رکھنی ہے تو ملک سے ایسے تمام ،گروہوں ، جتھوں ،جماعتوں اور افراد کو جو ریاست کی رٹ کو چیلنج،معاشرے میں انتشار اور فرقہ واریت کا زہر پھیلا رہے ہیں، عدالتوں پر ہجوم کی صورت ہلہ بول کر اثر انداز ہو کر انصاف کی راہ میں رکاوٹ بن رہے ہیں پر فورا ً آہنی ہاتھوں سے قابو پانا ہو گا۔ حکومت کو دہشت گردی کے خاتمے کے لئے یکسو ہونا ہی پڑئے گا، اگر انہوں نے اچھے اور برے طالبان سے امتیاز کو مٹا ہی دیا  ہے تو اسے اپنے عمل سے سچ بھی ثابت کرنا ہوگا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس  اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر،   مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف  کے ساتھ  [email protected]  پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی

ضمیر آفاقی سینئر صحافی، انسانی حقوق خصوصاً بچوں اور خواتین کے حقوق کے سرگرم رکن ہیں جبکہ سماجی ٹوٹ پھوٹ پران کی گہری نظر ہونے کے ساتھ انسانی تکریم اوراحترام کے لئے جدو جہد ان کا اوڑھنا بچھونا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔