(آو پڑھاو) - ہمارے روحانی والدین

وقار احمد شیخ  ہفتہ 20 دسمبر 2014
علم کی یہ جوت بجھنے والی نہیں ہے، برسوں سے یہ روشنی ایک سینے سے دوسرے سینے میں منتقل ہوتی رہی ہے۔  فوٹو فائل

علم کی یہ جوت بجھنے والی نہیں ہے، برسوں سے یہ روشنی ایک سینے سے دوسرے سینے میں منتقل ہوتی رہی ہے۔ فوٹو فائل

دوران کلاس ٹیچر نے بچوں سے ان کے مستقبل کے بارے میں سوال کیا ’’آپ کیا بننا چاہتے ہیں؟‘‘ کیونکہ سوال پڑھائی ختم کرنے کے بعد مستقبل کے کیریئر کے حوالے سے تھا اس لئے ہر طالب علم نے اپنی خواہشات کا اظہار کیا۔ کوئی ڈاکٹر تو کوئی انجینئر، پائلٹ، بزنس مین، فوج، پولیس اور اپنا کاروبار کرنے کا خواہش مند تھا۔ ٹیچر سب کے جواب سن کر دھیرے سے مسکرا رہے تھے، ان کی نگاہیں اگلی نشست پر بیٹھے ہوئے اپنے ہونہار طالب علم پر آکر رک گئیں، سانولا سا یہ دبلا پتلا لڑکا بہت کم گو تھا لیکن تمام ہی اساتذہ کا چہیتا، ہر سال کلاس میں اول آنے والے اس لڑکے نے آٹھویں جماعت کے امتحانات میں پورے اسکول میں پہلی پوزیشن حاصل کی تھی۔ استاد کی سوالیہ نگاہیں دیکھ کر لڑکے نے جواب دیا ’’سر میں آپ کی طرح ٹیچر بننا چاہتا ہوں۔‘‘ استاد کی نگاہیں چمک اٹھیں، ہونٹوں پر پھیلی مسکراہٹ ایک طمانیت آمیز آسودگی میں تبدیل ہوگئی۔ شاید جس جواب کی استاد کو تلاش تھی وہ انہیں مل چکا تھا۔

علم کی افادیت و اہمیت سے چنداں انکار ممکن نہیں، علم انسان کو شعور عطا کرتا ہے اور اسے حیوان ناطق میں تبدیل کرتا ہے۔ اگر علم کا حصول ابتدائے معاشرت ہی میں منجمد کردیا جاتا تو انسان اب تک غاروں اور جنگلوں کا باسی، علم سے بے بہرہ اور جانوروں کی مثل زندگی بسر کر رہا ہوتا۔ لیکن انسان کو نہ صرف اشرف المخلوقات بنایا گیا بلکہ وہ علم بھی عطا کیا گیا جس سے وہ کائنات کے سربستہ رازوں سے پردہ اٹھا سکتا ہے۔ جب حصول علم کی یہ اہمیت ہے تو جو ہستی علم کو پھیلانے کا باعث ہے اس کا مقام کیا ہوگا؟ یقیناً ایک معلم اور استاد کی ہستی علم کے پیاسوں کو سیراب کرنے کے حوالے سے بے انتہا قابل احترام ہے۔ دنیا میں ماں باپ کے مرتبے کے بعد سب سے زیادہ اہم مقام ایک استاد کو حاصل ہے۔ استاد کو روحانی باپ کا درجہ دیا جاتا ہے، جو طالب علم کی ذہنی بالیدگی اور شعور کی آبیاری کرتا ہے۔ استاد بچوں کو صرف تعلیم سے بہرہ ور ہی نہیں کرتا بلکہ طالب علموں کی تربیت اور کردار سازی بھی استاد کی مرہون منت ہوتی ہے۔ ایک اچھے اور بہترین معلم کی پرچھائیں قابل طالب علموں میں ظاہر ہوتی ہے اور وہ بھی اپنے استاد کے نقش قدم پر چل کر دنیا میں تعلیم کا پرچار کرتے ہیں۔ جس طرح ماں باپ کے احسانات بچے زندگی بھر نہیں اتار سکتے اسی طرح استاد کی جانب سے کئے گئے احسانات بھی طالب علموں پر قرض ہوتے ہیں۔

تعلیم کوئی پیشہ نہیں، بلکہ ایک مقدس فریضہ ہے۔ اس لیے یہ خیال بھی صحیح نہیں ہے کہ استاد محض پیسوں کی خاطر تعلیمی اداروں سے وابستہ ہوتا ہے بلکہ ایک حقیقی معلم اپنی روحانی تسکین اور مذہبی فریضہ ادا کرنے کی خاطر تعلیم اور طالب علموں سے اپنا رشتہ استوار کرتا ہے۔گزشتہ ادوار میں جب مادیت پرستی کا رجحان نہیں تھا مکتب و مدرسے محض علم کو آگے پھیلانے اور طالب علموں کو شعور عطا کرنے کے لیے قائم کئے جاتے تھے، یہی وجہ تھی کہ ایک معلم معاوضہ نہ ملنے کے باوجود بھی طالب علموں کو اپنے بچوں کی طرح پڑھایا کرتا تھا اور وہ بچے بھی اپنے معلم کو باپ کا درجہ دیا کرتے تھے۔ ان بچوں کی نظر میں استاد کی اہمیت باپ کی طرح ہی ہوا کرتی تھی اور استاد کے ایک فرمان پر بچے فوراً حکم بجا لاتے تھے۔

میں نہ صرف شعبہ صحافت سے وابستہ ہوں بلکہ شعبہ تعلیم میں بھی اپنے فرائض انجام دے رہا ہے، اور تعلیم کا یہ شعبہ اختیار کرنے کا مقصد پیسوں کا حصول نہیں بلکہ وہ روحانی تسکین ہے جس کا بیان شاید ممکن نہ ہو لیکن ایک استاد ہی اسے محسوس کرسکتا ہے۔ آج جب مجھے یہ پلیٹ فارم میسر ہے کہ میں استاد کی عزت و اہمیت پر آپ سے ہمکلام ہوں تو اپنے استاد جنھوں نے مجھے زمانہ طالب علمی میں سب سے زیادہ متاثر کیا اور جن کی شخصیت نے مجھ میں یہ خواہش پیدا کی کہ مجھے بھی ایک ٹیچر بننا چاہیے، میں انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں۔

سر اﷲ بخش کا تعلق میرپورخاص شہر سے تھا اور وہ ہمیں پڑھانے کے لیے کوٹ غلام محمد میں تعینات کئے گئے تھے۔ ششتم، ہفتم اور ہشتم کلاس میں نہ صرف وہ ہمارے کلاس ٹیچر رہے بلکہ اپنے شفیق رویے سے بچوں کو اپنا گرویدہ بناتے رہے۔ شاید اس وقت پورے اسکول میں ان جیسا کوئی استاد نہیں تھا، ان کا مشفقانہ رویہ ہی میرے دل میں یہ خواہش بن کر اجاگر ہوا کہ مجھے بھی اپنی شخصیت سازی اسی طرح کرنی ہے۔ ابتدائے تحریر میں جو منظرکشی میں نے اپنی کلاس کی کی ہے اس وقت اپنے استاد کی بات کا جواب دیتے ہوئے مجھے اپنے مستقبل کا تو اندازہ نہیں تھا لیکن یہ ارادہ پکا تھا کہ علم کی جو روشنی میرے استاد نے مجھے دی ہے اسے آگے ضرور پھیلائوں گا، یہی وجہ ہے کہ شعبہ صحافت کو بطور پروفیشن اپنانے کے باوجود میں استاد کی ذمے داری بھی نبھا رہا ہوں۔

میں نہیں جانتا کہ میرے وہ محترم استاد اب کہاں ہیں لیکن میں ان کا انداز اپنانے کی کوشش کرتا ہوں، ان ہی کی طرح بچوں کو شفقت و محبت سے پڑھاتا ہوں۔ علم کی یہ جوت بجھنے والی نہیں ہے، برسوں سے یہ روشنی ایک سینے سے دوسرے سینے میں منتقل ہوتی رہی ہے اور دنیا کو منور کررہی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ ایک دن مجھے بھی اپنا مطلوبہ جواب مل جائے گا، کسی دن میرا کوئی اسٹوڈنٹ کھڑا ہو کر کہے گا کہ ’’سر میں آپ کی طرح ٹیچر بننا چاہتا ہوں‘‘۔

یہ بلاگ ’علم آئیڈیاز‘ کے اشتراک سے ایکسپریس کی شروع کردہ مہم (آو پڑھاو، جو سیکھا ہے وہ سیکھاو) کا حصہ ہے۔ جس کا مقصد پاکستانی طلبہ کے مستقبل کو تابناک بنانا ہے۔

تو آئیے ہماری اِس مہم میں ہمارا حصہ بنیے۔ اور ہر لمحہ باخبر رہنے کے لیے ہماری ویب سائٹ دیکھیے،  فیس بک اور ٹوئیٹر پر ایکسپریس کے پیجز کے ذریعے آگاہ رہیے۔ پڑھانے کے بہترین طریقے سیکھیں اور ہم سے اپنے اساتذہ کی متاثر کن کہانیاں شئیر کیجیے۔


ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔