تیونس کے انتخابات (پہلا حصہ)

انیس ہارون  ہفتہ 20 دسمبر 2014

تیونس کے صدارتی انتخاب میں مجھے ایک بین الاقوامی آبزرو کی حیثیت سے بلایا گیا تھا۔ یہ دعوت ہالینڈ کی خواتین کی ایک تنظیم ’’جینڈرکنسرنز‘‘ (Gender Concerns) کی طرف سے ملی تھی۔ تیونس وہ ملک تھا جس کے بارے میں، میں نے کبھی نہیں سوچا تھا کہ کبھی وہاں جاؤں گی۔

ایک سال پہلے ہم دوستوں کے ساتھ چھٹیاں گزارنے مراکش گئے تھے اور یہ حسین ملک ہمیشہ کے لیے ہماری یادوں کا حصہ بن کر رہ گیا۔ پہلا تاثر یہی تھا کہ مراکش کی طرح یہاں کے لوگ بھی بہت خوش اخلاق اور روادار ہیں۔ انقلاب کے فوراً بعد جس طرح ایک جمہوری عمل کا آغاز ہوا وہ ایک خوش آیند مستقبل کا پتا دیتا ہے۔ تیونس میں میرا قیام ’’شیرٹن‘‘ ہوٹل میں تھا جہاں مشاہدے کے علاوہ آنے والی ٹیم سے ملاقات ہوئی، جس میں ہالینڈ، اردن، پاکستان، پولینڈ اور تیونس کی خواتین شامل تھیں جن کا فوکس انتخابات میں صنفی کردار کو جانچنا تھا کہ خواتین کے ساتھ برابری کا رویہ ہے یا نہیں۔

میں 22 نومبر کو ہی تیونس پہنچی تھی۔ شام کو ہی سارے گروپ سے ملاقات ہوئی اور دوسرے دن کی تمام تفصیلات طے ہوئیں۔ سمندر کے کنارے ایک خوبصورت جگہ تھی جہاں ہم اکٹھے ہوتے تھے۔ معلوم ہوا کہ یورپین یونین کا بھی ایک وفد آیا ہوا ہے اور کل کا مقابلہ دنیا بھر میں بڑی دلچسپی سے دیکھا جائے گا۔

تیونس کے پارلیمانی انتخابات میں ’’ندا تیونس‘‘ نے ’’الخادا‘‘ ایک اسلامی پارٹی کو شکست دی تھی جو 2011 میں برسر اقتدار آئی تھی۔ الخادا نے اپنا کوئی صدارتی امیدوار نہیں کھڑا کیا تھا مگر وہ غیر اعلانیہ طور پر ’’مرزوکی‘‘ کی حمایت کر رہے تھے، جب کہ ’’ندا تیونس‘‘ کے امیدوار 88 سالہ الباجی قائد اسیبسی(Essebsi) تھے۔ وہ تمام لوگ جو اسلامی پارٹی کے جیتنے سے خوش نہیں تھے۔ اسیبسی کی حمایت کر رہے تھے۔ حبیب بورقیبہ نے تیونس کو ایک ترقی پسند ملک بنایا تھا اور اکثریت ایک ایسی جماعت چاہتی تھی جس پر مذہب کا رنگ غالب نہ ہو۔

گوکہ اسیبسی پچھلے صدر بن علی کے ساتھیوں میں شمار کیے جاتے تھے جنھیں 2011 کے انقلاب نے 23 سال کی حکمرانی کے بعد اقتدار چھوڑنے اور ملک بدر ہونے پر مجبور کردیا تھا لیکن اسیبسی اچھی شہرت رکھتے تھے اور انھوں نے ’’نداتیونس‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ ’’ندا تیونس‘‘ کی 2014 کے پارلیمانی انتخابات نے روشن خیال جمہوری سوچ رکھنے والے گروپوں اور شہریوں کے حوصلے بلند کردیتے اور اسیبسی کی کامیابی کے امکانات روشن نظر آتے تھے۔ دوسری طرف ’’مرزوکی‘‘ کے بھی حامی بڑی تعداد میں موجود تھے۔ دو اور امیدوار جو مقبولیت رکھتے تھے وہ حمہ میمامہی اور سلیم ریاحی تھے۔ حمہ میمامہی پروگریسیو پاپولر فرنٹ کی نمایندگی کر رہے تھے جس میں سارے لیفٹ گروپس شامل تھے اور سلیم ریاحی 42 سالہ بزنس مین اور ’’فٹبال کلب‘‘ کے صدر تھے جن کے پاس بے انتہا دولت اور شہرت تھی۔ وہ نوجوانوں کا نمایندہ ہونے کا دعویٰ کر رہے تھے اور ان کا کہنا تھا ’’میرے پاس سب کچھ ہے۔

مجھے نہ دولت کی ضرورت ہے نہ شہرت کی، میں انتخاب تیونس کے لوگوں کے لیے لڑ رہا ہوں اور اپنے سارے وسائل ملک کی ترقی کے لیے استعمال کروں گا۔ مجھے اپنے ملک کی سیاست کے تناظر میں ان کی مماثلت عمران خان میں نظر آتی تھی جو خود اتنے دولت مند نہیں ہیں لیکن آس پاس متمول ساتھیوں کا جمگھٹا رکھتے ہیں۔ فرق یہ تھا کہ عمران خان کو ہماری نوجوان نسل کی حمایت حاصل تھی جب کہ تیونس کے نوجوان جو انقلاب لانے میں پیش پیش تھے سلیم ریاحی سے اس قدر متاثر نہیں نظر آتے تھے۔ وہ اپنے نمایندوں کے سیاسی رجحانات اور سوچ بھی جانچ رہے تھے۔ ان کے لیے سلیم کی دولت، فٹبال کلب کی مقبولیت اور وجاہت کافی نہیں تھی۔

انتخابات کی صبح سویرے ہم جلدی جلدی تیار ہوکر نیچے آگئے۔ ہمیں ساڑھے سات بجے اپنے اپنے علاقوں میں روانہ ہونا تھا۔ پولنگ آٹھ بجے شروع ہونے والی تھی اور ہمیں بیلٹ باکس چیک کرنے تھے۔ سب سے پہلے اپنے قریبی پولنگ اسٹیشن پہنچے جو ایک فرنچ اسکول میں واقعے تھا۔ یہ علاقہ امیر لوگوں کا تھا۔ پولنگ اسٹیشن کے باہر ایک قطار تھی جس میں مرد اور عورتیں پرسکون کھڑے تھے۔ اہل خاندان اور دوست خوش گپیوں میں مصروف گیٹ کھلنے کا انتظار کر رہے تھے۔ ہمیں اندر جانے دیا گیا اور ہم لوگ مختلف پولنگ بوتھ میں اپنے اپنے مشاہدے کے لیے چلے گئے۔ میرے لیے یہ ایک دلچسپ تجربہ تھا کہ دوسرے ملکوں میں انتخابات کتنے منظم اور پرامن ہوتے ہیں۔

پولنگ اسٹاف میں عورتیں اور مرد تقریباً برابر کی تعداد میں تھے۔ پولنگ بوتھ اور اسٹیشن کی صدارت میں بھی خواتین کو خاصی نمایندگی دی گئی تھی اور نظر آتا تھا کہ شہری کی حیثیت تیونس کی سوسائٹی میں عورتوں کے اہم کردار کو تسلیم کرلیا گیا ہے۔ عورت اور مرد بڑے اعتماد اور دوستانہ ماحول میں مل جل رہے تھے۔ کام کر رہے تھے اور میں سوچ رہی تھی یہ بھی تو اسلامی ملک ہے۔ یہ سوسائٹی اتنی پروگریسیو کیسے ہوگئی، اس کا جواب سب نے یہی دیا کہ یہ پروگریسیو سوسائٹی، ہمارے حقوق اور خواتین کی آزادی عظیم لیڈر حبیب بو رقیبہ کا تحفہ ہیں۔ کاش ہمیں بھی کوئی ایسا لیڈر ملا ہوتا۔ جناح صاحب تو پاکستان بننے کے ایک سال کے اندر ہی اللہ کو پیارے ہوئے اور ہم نے کسی پروگریسیو لیڈر کو پنپنے نہیں دیا اور اپنے اعمال کی سزا بھگت رہے ہیں۔

پولنگ بوتھ صاف ستھرے روشن اور ہوادار تھے۔ اسٹاف چاق و چوبند اور خوش اخلاق تھا۔ قطار میں بوڑھی، چھوٹے بچوں والی، حاملہ اور معذور خواتین کو آگے کردیا جاتا تھا۔ پولنگ کی رفتار سست تھی۔ لوگوں کا کہنا تھا کہ پچھلے انتخابات میں صبح ہی سے لمبی قطاریں تھیں لیکن اس بار کم لوگ تھے اور نوجوان خال خال ہی نظر آتے تھے۔ شاید ویک اینڈ گزار کر اپنی نیند پوری کر رہے ہوں اور اطمینان سے آئیں گے۔ پولنگ کا وقت شام چھ بجے تک تھا۔ پولنگ کا طریقہ بڑے بڑے پوسٹرز پر ہر بوتھ پر چسپاں تھا۔ انتخابی فہرست آویزاں تھی اور آنے والوں کی رہنمائی کی جا رہی تھی۔ ایک اور بات مجھے اچھی لگی کہ انتخابی عملہ سول سوسائٹی سے رضاکارانہ بنیادوں پر لیا گیا تھا۔ پریذائیڈنگ آفیسر بھی سول سوسائٹی کے رضاکار تھے نہ بیوروکریٹ تھے اور نہ ہی عدلیہ سے ان کا تعلق تھا بلکہ یہ وہ رضاکار تھے جنھوں نے اپنی خدمات انتخابی دن کے لیے الیکشن کمیشن کے حوالے کی تھیں اور انھیں اپنے تجربے اور قابلیت کی بنیاد پر منتخب کیا گیا تھا۔

ان میں کوئی انجینئر تھا، کوئی ڈاکٹر۔ کوئی استاد تو کوئی ڈیزائنر یا آرکیٹیکٹ۔ انھیں ایک دن ٹریننگ دی گئی اور انتخابی خدمات حوالے کردی گئیں۔ وہ بڑی ذمے داری سے اپنا فرض نبھا رہے تھے۔کیونکہ انھیں اس کام سے دلچسپی تھی اور انھوں نے اپنی خدمات خود پیش کی تھیں، بجائے اس کے کہ یہ کام ٹیچرز اور کسی اور عملے پر چند پیسوں کے عوض تھوپا جاتا، سیاسی شعور رکھنے والے رضاکاروں کو دیا گیا تھا۔ ان کی نگرانی کے لیے بھی ٹیمیں مختص کی گئی تھیں جو مختلف سینٹروں میں جاکر معائنہ کر رہی تھیں کہ کام صحیح ہو رہا ہے یا نہیں۔ یہ سبق انھوں نے پچھلے انتخابات سے حاصل کیا تھا جس میں چند سینٹروں پر صحیح کام نہ ہونے کی اطلاعات ملی تھیں۔ اور الیکشن کمیشن نے فوراً مانیٹرنگ ٹیمیں بنادیں۔ ہمارے یہاں شاید یہ فیصلہ کرنے میں بیوروکریسی چند سال ضرور لگا دیتی۔

ہر پولنگ بوتھ پر تقریباً ایک ہی جیسا ماحول تھا۔ ہمیں بتایا گیا کہ سیکیورٹی کے لیے فوجی باہر اور پولیس کے سپاہی پولنگ اسٹیشن کے اندر ہوتے ہیں۔ ان میں خواتین بھی تھیں لیکن تعداد تین چار افراد سے زیادہ نہیں تھی سوائے ایک جگہ ’’قربہ‘‘ کے جہاں ایک پورا ٹرک موجود تھا۔ ان کا انداز دھمکانے والا بالکل نہیں تھا۔ چپ چاپ اپنی جگہ کھڑے تھے۔ تیونس کے نواحی علاقے خصوصاً جنوب جیسے ’’گفسا‘‘ جو لیبیا کی سرحد سے قریب واقعے تھے۔ دہشت گردوں کی زد میں آچکے ہیں۔ وہ حملے کرتے ہیں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بناتے ہیں لیکن ابھی تک عام لوگ ان کی دہشت گردی سے بچے ہوئے ہیں۔ اس لیے ان علاقوں میں حفاظتی انتظامات زیادہ تھے۔

’’گفسا‘‘ (Gafsa) میں بھی خواتین آبزروز کی ٹیم گئی تھی۔ ان کو فوج نے منع کیا تھا لیکن پھر بھی جب خواتین پولنگ اسٹیشنوں میں پہنچیں تو ان کا والہانہ خیرمقدم کیا گیا۔ مانیٹرنگ ٹیم نے واپس آکر بتایا کہ ان علاقوں میں پولنگ دن کے تین بجے ختم کردی گئی تھی اور سوائے راستہ بھولنے کے انھیں کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا۔الیکشن کمیشن کے اسٹاف میں 39فیصد خواتین تھیں جن کے بارے میں ہمارے مشن نے اپنی رپورٹ میں اشارہ کیا کہ خواتین کی تعداد خاصی تھی لیکن ابھی مساوی نہیں ہوئی ہے۔

جس کا الیکشن کمیشن نوٹس لے اور یہ کہ سیکیورٹی کے عملے میں خواتین نہ ہونے کے برابر تھیں۔ پولیس تو خیر شہری ادارہ ہے لیکن اس مسئلے پر خواتین کی تحریک میں بھی بحث جاری ہے کہ آیا فوجی اداروں میں خواتین کو شامل ہونا چاہیے یا نہیں۔ کیونکہ یہ ایک بنیادی موقف ہے کہ عسکریت پسندی کو ختم کیا جائے اور فوج کی تعداد محدود کی جائے جو صرف سرحدوں کی حفاظت کا کام کرے۔ اگر خواتین ایسے اداروں میں جاتی ہیں تو وہ بھی پدر شاہی نظام کا حصہ بن جاتی ہیں۔ اس پر مختلف آرا پائی جاتی ہیں۔    (جاری ہے)

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔