ایک قوم کا غم

فاطمہ بھٹو  ہفتہ 20 دسمبر 2014

آج ہم نوجوان شہری غم کے ساتھ یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان کے خواب پاش پاش ہوچکے ہیں۔

میں نے گزشتہ روز پشاور میں ایک خاندانی دوست سے فون پر بات کی اور دریافت کیا کہ کیا حال ہیں؟ میرے پاس کوئی ایسی زبان نہیں جو میں اپنے احساسات بیان کر سکوں۔ میرے پاس الفاظ نہیں کہ میں ٹیلی ویژن پر دکھائے جانے والے خوفناک منظر بیان کرسکوں یا ٹوئیٹر جو مجھے مسلسل حالات سے آگاہی فراہم کرتا رہتا ہے۔

’’اے میرے اﷲ‘‘ اس نے کہا، وہ کتنے کم سن اور خوبصورت تھے، ان میں سے بیشتر کی عمریں 12 اور 16 سال کے درمیان تھیں۔ فون پر میں نے ایک ایسے بچے کی داستان بھی سنی جو اسکول میں پھنس گیا تھا اسے کندھے اور جبڑے پر گولی لگی تھی لیکن وہ زندہ ہے۔

طالبان نے پشاور آرمی پبلک اسکول پر اس لیے حملہ کیا کہ ان کے مطابق وہ چاہتے تھے کہ پاکستان اس درد کو محسوس کرے لیکن معروف شاعر فیض احمد فیض نے ایک شعر میں لکھا ہے کہ پاکستان درد و الم کا ایک سمندر بن گیا ہے، کوئی قوم اس سے زیادہ اور کیا غم برداشت کرسکتی ہے؟

’’یہ بیٹا میرا خواب تھا‘‘ ایک غمزدہ باپ نے پشاور میں کہا ’’آج میں نے اپنے خواب کو دفن کردیا‘‘۔ آج ہمارے جیسے بہت سے نوجوان شہری پہلی بار یہ محسوس کرتے ہیں کہ پاکستان اب خوابوں سے خالی ہے، ایسا غم جس کا کوئی نام نہیں۔

جب کسی کا باپ مرجائے تو یتیم اور شوہر مرجائے تو وہ بیوہ کہلاتی ہے لیکن  جو باپ اپنے بیٹے کو دفن کرے اسے کس نام سے پکارا جائے، میری معلومات کے مطابق دنیا کی کسی زبان میں ایسا کوئی لفظ موجود نہیں۔ ہمارے پاس ایسی کوئی زبان نہیں جو ایسے والدین کی کیفیت بیان کرسکے جب وہ اپنے بچے کو وقت سے پہلے دھرتی کے سپرد کرتے ہیں۔ سو اب ہم کس زبان سے مرنے والوں کا ذکر کریں؟ یہ ناقابل برداشت غم ہے۔

لیکن آج پاکستان میں غم کے ساتھ ایک غصہ بھی پایا جاتا ہے، یہ غصہ ان کے خلاف ہے جو دہشت گردوں سے منہ موڑ لیتے ہیں اور انسانی جانوں کے ذریعے اس کی قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ یہ غصہ ان پر بھی ہے جو قاتلوں کے سامنے خاموشی اختیار کرلیتے ہیں، ان کی مذمت کرنے سے گریز کرتے ہیں، یہ غصہ ان پر بھی ہے جو  ان معصوم افراد کی اموات پر مصلحت پسندی کا شکار ہوجاتے ہیں۔

یہ غصہ ہے! یہ غصہ بھی ہے اور شرمساری بھی، یہ پڑھ کر شرم محسوس ہوتی ہے کہ ان تین انسٹرکٹرز کو بھی اس وقت قتل کیا گیا جس وقت وہ آرمی پبلک اسکول میں بچوں کو ہنگامی طبی امداد کی تربیت دے رہے تھے، یہ معلوم ہونے پر بھی شرم محسوس ہوئی کہ جن بچوں اور دیگر کو قتل کیا گیا ان کے سروں میں گولیاں ماری گئیں۔ ہم ان کے سامنے شرمسار ہیں کہ ہم ان کے ساتھ معذرت بھی نہیں کرسکتے۔ اس پر بھی شرم آتی ہے کہ ملک کے شہری انھیں تحفظ فراہم بھی نہیں کرسکے۔

سولہ سالہ شاہ رخ نے پریس کو یہ خوفناک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ افراد جو انھیں اور ان کے کلاس فیلوز کو قتل کرنے آئے تھے انھوں نے اسکول کے بینچز کے نیچے بھی دیکھا تاکہ انھیں یقین ہوجائے کہ کوئی بھی زندہ نہیں بچا۔ شاہ رخ جسے دونوں ٹانگوں پر گولیاں لگی تھیں اس نے اپنی ٹائی اپنے منہ میں دبائی تاکہ اپنے آپ کو چیخنے سے روک سکے۔ ہمارے پاس کون سے الفاظ ہیں، جن کے ذریعے ہم شاہ رخ کو یقین دلا سکیں؟ میرے پاس وہ الفاظ نہیں ہیں۔

طالبان عربی میں طالب علم کو کہا جاتا ہے۔ یہ کس قسم کے طالبان ہیں جنہوں نے سیکھنے کی جگہ خون آلود کردی؟

پشاور میں اس نسل کشی کے بعد بھارت نے تمام درسگاہوں میں دو منٹ کی خاموشی اختیار کرکے غم اور یکجہتی کا اظہار کیا، ترکی نے ایک دن کا یوم سوگ منانے کا اعلان کیا اور پاکستان کے اندر ہم لفاظی میں مصروف ہیں۔

ایک عورت کو اپنے طلبا کے سامنے مرنے تک جلانے کے واقعے کو آپ کیسے فراموش کر سکتے ہیں؟

یہ کیسے طالبان ہیں جن سے عوامی شخصیات، اینکر پرسن، سیاستدان اور غیر متاثر نوجوان اور کچھ نہیں صرف نفرت ہی کرتے ہوں؟ ہم اس طویل دہشتگردی کے بارے میں کیسے بات کر سکتے ہیں جس کا ہم نے کابل میں واقع استقلال اسکول پر حملے کے موقع پر سامنا کیا، جس کے نتیجے میں 6 افغانی ہلاک اور کئی زخمی ہوئے، عورت جس کے ساتھ دلی میں بس میں رات کے وقت سفر کرتے ہوئے ہوس کا نشانہ بنایا گیا اور پشاور کے معصوم بچے جنھیں بے رحمانہ طور پر قتل کیا گیا۔

نوحہ جو غم کی علامت ہے، آج ہم پاکستان میں ان اموات پر نوحہ پڑھ رہے ہیں، ہم بے انتہا غمزدہ لوگوں کی دلجوئی کے لیے نوحہ خواں ہوں۔

محمد حنیف جو ہمارا نہایت بیباک اور نڈر مصنف ہے، نے گزشتہ منگل کو لکھا ’’پشاور میں قتل ہونے والے بچوں کے لیے دعائے مغفرت کرنے کی کوئی ضرورت نہیں، سولہ سالہ بچہ کیا گناہ کر سکتا ہے، پاکستان کے تمام لوگوں اور سیاستدانوں سے درخواست ہے کہ وہ ان معصوم بچوں کے بعد از مرگ حشر کی فکر نہ کریں، جب دعا کے لیے ہاتھ بلند کریں تو وہ اپنی بخشش کے لیے دعاگو ہوں اور انھیں اپنے ہاتھ بغور دیکھنے چاہئیں تاکہ کہیں ان کے ہاتھ بھی خون آلودہ تو نہیں؟‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔